Header Ads Widget

Chragh e drakhshan Epi 9 - by dua fatima

 

Chragh e Drakhshan

by dua fatima

Chragh e Drakhshan Part 2

Episode 9

"ایک مسلہ ہو گیا ہے۔" حیان نے سنجیدگی سے بتایا۔ جزیل کو تشویش ہوئی۔ 

"کیا؟" وہ سیدھا ہو بیٹھا ۔ 

"دعا کو شک ہو گیا ہے میں وہاں کسی مقصد کے تحت گیا ہوں۔" 

"ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟ تم نے کوئی غلطی کی ہو گی۔"

"میں نے کوئی غلطی نہیں کی ۔" وہ روہانسا سا کہتا اٹھ کھڑا ہوا۔ 

"پھر اسے کوئی جن بھوت بتا گیا ہے؟" جزیل نے طنزیہ پوچھا۔ 

"مجھے تو ایسا ہی لگتا ہے۔ " حیان کمرے میں چکر لگانے لگا۔ جزیل نے بیزاری سے سر جھٹکا۔ 

"اس نے کچھ کہا تم سے یا تمہیں ایسا لگتا ہے؟"

"اس نے مجھ سے پوچھا کہ کہیں میں کسی مقصد کے تحت وہاں تو نہیں آیا اور یہ بھی کہ میں اپنے والدین کے قتل کا بدلہ تو نہیں لینا چاہتا " وہ رک کر اسے بتانے لگا۔ جزیل کا حیرت سے منہ کھلا۔ ایک عقل مند انسان اتنا اندازہ لگا سکتا تھا کہ حیان وہاں کسی مقصد کے تحت گیا تھا لیکن وہ مقصد کی تہ تک کیسے پہنچ گئی تھی۔ 

"وہ کوئی ہیکر تو نہیں ؟ ضرور اس نے تمہارا فون بگ کیا ہو گا۔"

"نہیں یار ۔ اور میں فون پر کوئی ایسی بات کرتا ہی نہیں جو مشکوک ہو۔ " حیان کہہ رہا تھا جب اسے کچھ یاد آیا۔ 

"وہ ثانی کی دوست ہے۔ کہیں اس نے تو نہیں کچھ بتایا؟"

"ثانی کی دوست؟" جزیل نے تعجب سے پوچھا۔ حیان نے سر ہلایا۔ 

فلیش بیک......

دعا نے اپنی اور اپنے عکس کی جو پینٹنگ چنئی تھی ایش وہ ثانی کو دکھانے لایا تھا ۔ ثانی کو وہ بہت پسند آئی تھی۔ اس نے اصل تو واپس بھجوا دی لیکن اس کی ایک کاپی اپنے ٹیبلیٹ میں سیو کر لی۔ ایک دفعہ جب وہ صوفے پر نیم دراز کچھ تصاویر سویپ کرتی اس پر رکی تو اچانک اسے جزیل نے کوئی کام دے دیا اور وہ ٹیبلٹ کو کھلا ہی چھوڑ کر ہیکنگ سسٹم کی طرف متوجہ ہو گئی ۔ اور حیان کی نظر اس پر پڑ گئی۔ 

"یہ کس نے بنایا؟" اس نے ٹیبلیٹ اٹھا لیا اور غور سے تصویر کو دیکھنے لگا۔ عکس میں ملکہ کی طرح نظر آتا عکس اسے بہت خوبصورت لگا تھا۔ 

"دعا۔ " ثانی کام میں مگن تھی سو اس کے منہ سے پھسل گیا۔ 

اور اس روز ہاسپٹل میں دعا نے جب اسے اس کی اصلی نام سے پکارا تھا تو اسے سخت حیرت ہوئی تھی۔ اس نے دعا کو کھانے کی چیزیں لا کر دینے کے بعد پارکنگ ایریا کی طرف جاتی ہوئی ثانی گل کو کال ملائی تھی۔ 

"ہاں کیا مسلہ ہے۔" ثانی نے پانچویں بیل پر کال اٹھا کر جیسے احسان کیا تھا۔

"دعا کو میرا اصلی نام تم نے بتایا؟" وہ سختی سے پوچھ رہا تھا۔ 

"کیا ... کیا؟ میں نے؟" ثانی نے تعجب سے پوچھا۔ 

"زیادہ مت بنو۔ تمہارے علاوہ اور کون بتائے گا "

"ہیلو ذرا آرام سے۔ میں نے کچھ نہیں کیا۔ " ثانی نے ناک بھوں چڑھائی۔ 

"تو پھر اسے کیسے پتہ چلا میرا اصلی نام حیان ہے؟" حیان نے غصے سے پوچھا۔ ثانی کچھ پل کیلیے خاموش رہ گئی۔ 

"ہو سکتا ہے وہ تمہارے نام کے کسی شخص کو جانتی ہو۔" ثانی نے بات بنائی۔ 

"اوہ کام آن۔ دو لوگ یا تو ہم نام ہو سکتے ہیں یا ہمشکل۔ وہ تمہاری دوست ہے۔ اگر تم نے اسے نہیں بتایا تو اس سے پوچھ کر بتاؤ کیسے وہ میرا نام جانتی ہے۔ " 

فلیش بینڈ اینڈڈ

"پھر اس نے بتایا؟" جزیل نے تجسس سے پوچھا۔ 

"نہیں۔ " حیان نے مایوسی سے سر ہلایا۔

"ہو سکتا ہے وہ کہیں بچپن میں تم سے ملی ہو۔ یا کسی بڑے نے اسے تمہارے بارے میں بتایا ہو " جزیل نے کہا تو حیان نے گہری سانس لی۔ 

"ہو سکتا ہے لیکن اسے میرا مقصد کیسے پتہ چلا۔ "

"مجھے نہیں لگتا ثانی نے اسے اس بارے میں بتایا ہو گا۔ مطلب وہ کیوں بتائے گی۔ "

"پتہ نہیں۔ مجھے تو یہ سمجھ نہیں آ رہی میں اب وہاں دعا کے ہوتے ہوئے اپنا مقصد کیسے حاصل کروں گا۔ " وہ سر کے پیچھے ہاتھ پھیر کر رہ گیا تھا ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ابدال صاحب کبیر کے سامنے مضطرب سے بیٹھے تھے  جعفر بھی وہاں موجود تھا۔ ابدال انہیں حیان کی بارے میں بتا چکا تھا۔ ان دونوں کو بھی پریشانی لگ گئی تھی ۔ جس شخص کو انہوں نے بیس سال پہلے قتل کیا تھا اس کا بیٹا واپس آ چکا تھا۔ اسے قتل کرتے وقت انہیں اس بات کا نہیں پتہ تھا کہ اس کا کوئی بیٹا بھی ہو گا لیکن بعد میں انہیں جب خبر ملی تو انہوں نے اس کے بیٹے کو ڈھونڈنے کی بہت کوشش کی۔ حیان اس وقت چاہے چھوٹا تھا لیکن بڑا ہو کر وہ ان کیلیے مصیبت بھی بن سکتا تھا۔ اس کے دل میں انتقام کا جذبہ بھی جاگ سکتا تھا۔ یہ خوف ان کے دل می۔ موجود تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ اس بات کو بھول گئے تھے لیکن ابدال نے انہیں یہ خبر سنا کر پھر سے تشویش میں مبتلا کر دیا تھا ۔ 

"ہو سکتا ہے اسے پتہ نہ ہو اس کے ماں باپ کا قتل ہوا ہے اور اگر پتہ بھی ہو تو یہ نہ پتہ ہو اس میں ہمارا ہاتھ ہے۔ " کبیر نے اندازہ لگایا۔ 

"پتہ نہیں ۔ اس کا رویہ تو میرے ساتھ ٹھیک ہے۔ شکل سے معصوم لگتا ہے لیکن ظاہر ہے اس کے دل میں کیا ہے میں نہیں جان سکتا۔ " ابدال نے پیشانی مسلی۔ 

"ہمیں کسی خوش فہمی میں نہیں رہنا چاہیے۔ وہ اپنا مقصد حاصل کرنے کیلیے بھی تو چہرے پر معصومیت لا سکتا ہے۔ جتنی جلدی ہو سکے اسے مار دینا ہی بہتر ہو گا۔" جعفر نے فیصلہ کن انداز میں کہا۔ ان دونوں نے سر اثبات میں ہلا دیے۔ پھر وہ حیان کو قتل کرنے کے منصوبے بنانے لگے۔ وہاں سے جاتے ہوئے ابدال نے جعفر کو طلال اور منزہ کے ساتھ بابر ہاؤس آنے سے منع کر دیا تھا۔ یحییٰ جانتا تھا کہ ان کی ماضی میں دشمنی رہی تھی۔ بیس سال بعد وہ جعفر کو پہچان پاتا اس کے امکان تو کم ہی تھے لیکن ابدال کوئی رسک نہیں لینا چاہتا تھا۔  

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 شاہ میر دعا کو یونیورسٹی سے لینے آیا تو اس کے ساتھ اجالا کو دیکھ کر کچھ پل کیلیے مبہوت ہوا تھا۔ اس کی بے اختیاری دعا کے ساتھ ساتھ نیناں نے بھی محسوس کی تھی۔ اس نے دعا کو کہنی ماری۔ 

 "مجھے تو لگتا ہے بھائی صاحب اجالا پر فدا ہو چکے ہیں " اس نے دعا کے کان میں سرگوشی کی۔ دعا مسکرائی۔ 

 "مجھے بھی کچھ ایسا ہی لگتا ہے۔ " دعا نے دھیمی آواز میں کہتے اجالا کو دیکھا جو نظریں پھر کر کہیں اور دیکھنے لگی تھی۔ دعا کو لگا وہ اس کے بھائی کو پسند نہیں کرتی۔ اسے اپنے بھائی کیلیے برا لگا۔ اس نے سوچ لیا تھا وہ اجالا سے اس بارے میں ضرور پوچھے گی۔ وہ اجالا اور نیناں کو خدا حافظ کہہ کر شاہ میر کی طرف آ گئی۔ 

 "بھائی آپ ہر لڑکی کو دیکھ کر ہی سٹل ہو جاتے ہیں یا صرف اجالا کو۔" گاڑی میں بیٹھ کر دروازہ بند کرتے اس نے مگن سے انداز میں پوچھا۔ شاہ میر کو کھانسی آئی ۔ اس نے آنکھیں پھیلا کر دعا کو دیکھا ۔ وہ شرارت سے مسکرائی ۔ 

 "میں ایسا نہیں ہوں کہ ہر کسی پر مر مٹوں۔" اس نے منہ بنا کر گاڑی سٹارٹ کی۔ 

 "مطلب آپ اجالا پر مر مٹے ہیں " اس نے شاہ میر کی بات پکڑی۔ وہ خود کو کوس کر رہ گیا۔ اس معاملے میں وہ شرمیلا تھا ۔ 

 "ڈونٹ بی شائے۔ میں بہن ہوں آپ کی۔ مجھ سے کیا چھپانا۔ چلیں بتائیں واقعی آپ اسے پسند کرتے ہیں یا یہ صرف میرا اندازہ ہے۔ "

 "تم جان کر کیا کرو گی؟" 

 "بات آگے بڑھاؤں گی۔ اگر اجالا مان گئی تو ماما بابا کو ان کے گھر رشتہ لے کر جانے کا کہوں گی۔ اگر وہاں بھی ہاں ہو گئی تو آپ کی شادی کی تاریخ جلدی رکھواؤں گی۔ " وہ اس کی باتوں پر ہنس پڑا۔ 

 "بہت کام کی بندی ہو تم تو۔ " 

 "پھر بتائیں ۔" 

 "ہاں وہ مجھے اچھی لگتی ہے۔ لیکن مجھے نہیں لگتا یہ سب اتنی جلدی ہو پائے گا۔ "

 "چلیں جیسے خدا کو منظور۔ کوشش تو کریں نا۔" 

 "اگر اس نے انکار کر دیا تو۔ وہ کچھ مغرور سی لگتی ہے۔ " اس کے لہجے میں خدشہ تھا۔ 

 "میں اسے آپ کیلیے کنونس کرنے کی کوشش کروں گی " اس نے بھائی کو تسلی دی۔ وہ مسکرا دیا ۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سہ پہر کی سنہری دھوپ بیک گارڈن کے درختوں، پودوں اور گھاس پر پھس رہی تھی۔ فضا میں مختلف پھولوں کی خوشبو پھیلی ہوئی تھی اور پرندوں کے چہچہانے کی آواز مدھم سے سنائی دے رہی تھی۔ ابدال صاحب ایک طرف لگی کرسیوں میں سے ایک پر بیٹھے اپنے سیکرٹری کے ساتھ کچھ بات کر رہے تھے۔ وہ مؤدب سا ہاتھ باندھے ان کے قریب کھڑا تھا۔ میز پر اخبار اور چائے پڑی تھی۔  کچھ دیر بعد سیکرٹری واپس چلا گیا۔ ابدال صاحب نے دوبارہ چائے اور اخبار اٹھا لی۔ اسی پل انہیں حیان اپنے سامنے دکھائی دیا۔ وہ بری طرح چونک گئے۔ 

"ہائے انکل۔ کیا میں یہاں بیٹھ سکتا ہوں؟" حیان نے چہرے پر معصوم سی مسکراہٹ لاتے پوچھا۔ 

"ہاں ... بیٹھو۔ " وہ اس کے رویے پر تذبذب میں پڑے بولے۔ حیان ان کے سامنے بیٹھ گیا۔ وہ سفید قمیض شلوار میں ملبوس تھا۔ 

"آپ تو بہت بزی ہوتے ہیں۔ ٹھیک سے بات ہی نہیں ہو پاتی آپ سے۔ " وہ منہ بنا کر بولا۔ 

"سوری بیٹا ۔ دراصل میں ایک سیاستدان ہوں۔ اپنا نام اور مقام بنانے کیلیے محنت تو کرنی پڑتی ہے۔ بس اسی وجہ سے اپنی فیملی کیلیے بھی وقت نہیں ملتا۔ " وہ اپنے لہجے میں شفقت بھرتے بولے۔ 

"واہ۔ مجھے بھی سیاست پسند ہے۔ " وہ اشتیاق سے بولا۔ ابدال صاحب صرف مسکرا دیے۔ پھر کچھ سوچ کر حیان کی طرف دیکھا۔  

"چلو تمہارا یہ شکوہ دور کر دیتا ہوں کہ میں زیادہ بات نہیں کرتا۔ پرسوں میں تمہیں فارم ہاؤسز اور اپنی زمینوں دکھانے لے جاؤں گا۔ " انہوں نے سخاوت سے کہا۔ حیان نے چہرے پر خوشگوار مسکراہٹ لائی۔

"میں آپ کے ساتھ ضرور چلوں گا۔ " وہ بچوں کی طرح بولا تھا۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ثانی گل اور ایش پاکستان واپس آ چکے تھے۔ ثانی کو لندن میں گزارا فینٹسی سے بھرپور وقت یاد آ رہا تھا۔ اب وہ ایک نئی مہم پر جانے کا سوچ رہی تھی لیکن جانے ایش مانتا تھا یا نہیں۔ زیادہ چانسز نہ ماننے کے ہی تھے۔ وہ کپمیوٹر کے سامنے بیٹھی سکرین کو پر سوچ نظروں سے گھور رہی تھی جب ایش نے اس کے برابر آتے میز پر کافی رکھی۔ وہ تب بھی نہیں چونکی۔ 

"کیا ہوا؟ پھر تو نہیں کچھ الٹا سیدھا سوچ رہی؟" اس کے قریب ہی ایک سٹول پر بیٹھتے اس نے پوچھا اور کافی کا کپ لبوں سے لگایا

"تمہیں کیسے پتہ چلا؟ " ثانی نے کرسی اس کی طرف موڑی۔ ایش کو کھانسی لگی۔ 

"کہیں تم نے مجھ پر اپنا جادو تو نہیں آزمایا؟ بھول گئے میں نے تمہیں کتنی سختی سے منع کیا تھا میرے زہن کو پڑھنے کی کوشش کی تو میں تمہارا قتل کر سکتی ہوں۔" ثانی کو جلال آیا۔ ایش کچھ پل اسے تاسف سے دیکھتا رہا۔ 

"میں نے اندازہ لگایا تھا ۔ اب بتاؤ کیا سوچ رہی ہو" اس نے سنجیدگی سے کہا۔ 

"کیا تم مانو گے؟"

"یہ تمہاری بات سننے کے بعد فیصلہ کروں گا۔ " اس نے کندھے اچکائے۔ 

"تمہاری ہمت کیسے ہوئی یہ کہنے کی۔ تم بس ہاں کہو۔ " ثانی نے اسے آنکھیں دکھائیں۔ 

"میں بھی انسان ہوں ثانی۔ " اس نے مسکین سا منہ بنایا۔ 

"جادوگر۔ " ثانی نے تصحیح کی 

"کیا جادوگر انسان نہیں ہوتے؟" اس نے پوچھا۔ 

"میری نظر میں وہ روبوٹ ہوتے ہیں جو کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ "اس کی بات پر وہ گہری سانس بھر کر رہ گیا۔ 

"اچھا بتاؤ بات کیا ہے؟"

"میں مون پر جانا چاہتی ہوں۔ میٹا ورس کے ذریعے نہیں اصل میں۔ " اس نے ایش کے سر پر بم پھوڑا۔ وہ اسے ایسے دیکھنے لگا جیسے کوئی جوکر دیکھ لیا ہو۔ 

"تمہاری طبیعت تو ٹھیک ہے؟ جانتی ہو نا تم کیا کہہ رہی ہو؟"

"ہاں میں اپنے پورے ہوش و حواس میں ہوں۔ یہ میرا فیصلہ ہے اور تمہیں ماننا پڑے گا " اس کا لہجہ آخر میں التجائیہ ہو گیا ۔ 

"چاند پر ایسا کیا ہے جو تم وہاں جانے کیلیے مری جا رہی ہو؟" وہ جل کر بولا۔ 

"They are on the edge of crater and they are watching us " 

ثانی نے نیل آرم سٹرانگ کے الفاظ دہرائے جو اس نے چاند پر قدم رکھنے کے بعد کہے تھے۔ 

"یہ کتنی پراسرار بات ہے۔ جب میں نے پہلی بار یہ الفاظ سنے تو میرا دل کیا تھا چاند پر جا کر دیکھوں کون تھے کریٹر کے کنارے پر۔ اور مجھے چاند کی فار سائیڈ دیکھنے کا بھی بہت شوق ہے جو کبھی زمین کی طرف نہیں ہوئی۔ " وہ جذب کے عالم میں کہتی ایش کو ہونقوں کی طرح اسے دیکھنے پر مجبور کر گئی تھی۔ 

"وہ سب ٹھیک ہے لیکن وہ ڈراؤنا بھی ہو گا۔ تم پچھلا تجربہ بھول گئی ہو؟ اس وقت تو ہم زمین کے قریب تھے تمہارا یہ حال ہوا تھا سوچو زمین سے کروڑوں میل دور جا کر کیسے واپس آؤ گی اگر تمہیں در لگ گیا تو؟" ایش نے اسے جتا کر کہا۔ وہ خفگی سے ایش کو دیکھنے لگی۔ 

"تم کس مرض کی دوا ہو "

"میرے پاس محدود انرجی ہوتی ہے اور مجھے نہیں لگتا اس انرجی کے ذریعے میں چاند تک پہنچ پاؤں گا اور تمہیں بھی ساتھ لے جا سکوں گا اگر یہ ہو بھی گیا تو وہیں میری انرجی ختم ہو جائے گی اور ہماری قبریں وہیں بنیں گی۔" اس نے کہا تو ثانی نے جھرجھری لی

"اچھا تم ایسا کرو آج سے اپنی انرجی جمع کرنا شروع کر دو۔ تھوڑی تھوڑی کر کے۔ کبھی نا کبھی تو وہ اتنی ہو جائے گی کہ ہم چاند پر جا سکیں۔ " ثانی نے اسے مشورہ دیا۔ ایش کو روز ایک انرجی ملتی تھی جو اسے پورے دن میں استعما کرنی ہوتی تھی۔ اکثر وہ دن ختم ہونے سے پہلے ہی ثانی کی چاکری کرتے انرجی ختم کر دیا کرتا تھا اور کبھی پورا دن گزرنے کے بعد بھی اس کی انرجی کچھ باقی رہتی تھی جو وہ اگلے دن یا کبھی بھی استعمال کر سکتا تھا۔ 

"ٹھیک ہے۔ تم ہاتھ ہولا رکھو تو یہ کام ہو سکتا ہے لیکن کب ہو گا یہ میں یقین سے نہیں کہہ سکتا۔ سو فی الحال یہ بات اکنے دماغ سے نکال دو "

"تم بھی یہ بات اپنے دماغ میں بٹھا لو کہ میں چاند پر ضرور جاؤں گی چاہے بڑھاپے میں ہی کیوں نہ جاؤں اور تم مجھے لے کر جاؤ گے " وہ دھونس بھرے لہجے میں بولی۔ ایش مسکراہٹ چھپاتا سر ہلا گیا۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

طلال اور مبرہ بابر ہاؤس آ چکے تھے۔ منیبہ نے خوشدلی سے ان کا استقبال کیا تھا ۔ منیبہ کو وہ ظاہری طور پر اچھے لگے تھے۔ اوپر سے انہوں نے اخلاق کچھ دیر کیلیے خود ہی اچھا کیا ہوا تھا۔ منیبہ کو ان میں کوئی برائی نہیں دکھی تھی ۔ وہ دوسروں کے بارے میں برے اندازے لگانی والی عورت نہیں تھیں۔ جو جیسا دکھتا اسے ویسا ہی سمجھتیں۔ دوسری پاکستانی ماؤں کی طرح بیٹی کے ہونے والے سسرال سے وہ بہت اچھا سلوک کر رہی تھیں۔ انہیں لاؤنج میں بٹھا کر کچھ دیر باتیں کرنے کے بعد وہ دعا کو بلانے اس کے کمرے میں آ گئیں۔ انہوں نے دعا کو بتایا بھی تھا کہ اس کے سسرال والے آج آئیں گے۔ وہ خود ہی لاؤنج میں آ جائے لیکن وہ نہیں آئی تھی۔ 

"دعا! بھول گئی کیا؟ میں نے تمہیں لاؤنج میں آنے کا کہا تھا۔ چلو اب۔ تمہارے سسرال والے آئے ہوئے ہیں ۔" دعا کے ہاتھ سے کتاب لیتے انہوں نے کہا تو دعا کا منہ بگڑا جیسے کڑوا بادام کھا لیا ہو۔ 

"کیا ماما ؟ ابھی تو انہیں میرا سسرال نہ کہیں۔ اور میں نہیں جا رہی کہیں۔ مجھے پیپر کی تیاری کرنی ہے۔ " وہ کتاب واپس لیتے بولی۔ 

"یہ کیا بات ہوئی؟ تمہیں ان کے آنے کی خوشی نہیں ہے؟ دوسری لڑکیاں تو جانے کیا کیا تیاریاں کرتی ہیں اور ایک تم ہو...." وہ اس کے لاپروا انداز پر افسوس سے بولیں ۔ 

"میں دوسری لڑکیوں کی طرح نہیں ہوں۔ " اس نے منہ بنا کر کہا۔ 

"لیکن بیٹا کچھ معاملوں میں معاشرے کے رسم و رواج پر چلنا پڑتا ہے۔ چلو اٹھ کر جلدی سے حلیہ درست کرو اور باہر آؤ۔ صرف کچھ دیر ہی تو رکنا ہے۔ پھر واپس آ جانا۔ اگر نہ گئی تو وہ لوگ ناراض بھی ہو سکتے ہیں۔ " منیبہ یہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی اسے طلال پسند نہیں ہو گا کیونکہ اس نے خود ہی تو اپنی پسند بتائی تھی۔ دعا اپنی ماں کے بھولے پن پر گہری سانس بھر کر رہ گئی اور ان کے جانے کے کچھ دیر بعد لاؤنج میں آ گئی۔ اس نے رسمی انداز میں مبرہ کو سلام کیا البتہ طلال کی طرف دھیان نہیں دیا جس پر نظر پڑتے ہی اس کا موڈ خراب ہو چکا تھا۔ اور طلال اسے دیکھ کر خباثت سے سے مسکرانے لگا تھا۔ اس کا دل کیا طلال کا منہ توڑ دے لیکن خود پر ضبط کرتی صوفے پر بیٹھ گئی۔ اس کے چہرے کے بگڑے زاویے دور سے ہی حیان دیکھ چکا تھا۔ وہ ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھا دوپہر کا کھانا کھا رہا تھا۔ ڈائینگ ہال کے سامنے گلاس وال تھی پھر راہداری اور اس کے پار لاؤنج تھا۔ لاؤنج کے سامنے بھی گلاس وال تھی۔ دعا کے چہرے کے تاثرات دیکھ کر اسے لگا تھا کہ دعا اس رشتے پر خوش نہیں اور زبردستی اس کی شادی کی جا رہی ہے۔ 

"میں یہ کیوں سوچ رہا ہوں۔ " اس نے خود کو کوسا اور کھانا جلدی جلدی ختم کر کے کمرے میں جانے کیلیے ڈائننگ ہال سے نکلا۔ ادھر دعا بھی پیپر کی تیاری کا بہانہ بنا کر اٹھ کر لاؤنج سے نکلی تھی۔ دروازے سے نکلتے ہی وہ چکنے فرش پر لڑکھڑائی۔ حیان اس سے دو قدم دور تھا لیکن اس کے لڑکھڑاتے ہی ہاتھ بڑھا کر اس کے بازو کو تھاما پھر تیزی سے اس کے قریب ہوتا اس کے دوسرے بازو کو بھی تھام گیا۔ دعا کا دل گرنے کے خوف سے اپنی جگہ سے ہل کر رہ گیا تھا لیکن جب اسے سہارا ملا تو اس کی جان میں جان آئی۔ اس نے چہرہ موڑ کر اپنے پیچھے کھڑے حیان کو دیکھا تو اپنی حالت میں واپس آتا دل ایک بار پھر رفتار پکڑ گیا۔ وہ ایک پل کیلیے ساکت ہوئی۔ نظریں اس شہزادے کی سنہری آنکھوں پر جمیں۔ پھر وہ تیزی سے سیدھی ہوتی اس سے ایک قدم دور ہوئی اور لاؤنج میں دیکھا۔ منیبہ، مبرہ اور طلال انہیں ہی دیکھ رہے تھے۔ اسے طلال دانت کچکچاتا محسوس ہوا۔ اسے جہاں شرمندگی محسوس ہوئی وہیں طلال کی حالت سے دل میں ٹھنڈ بھی پڑی۔ 

"شکریہ۔" اس نے حیان کی طرف مسکراتے ایسے کہا کہ طلال اسے مسکراتا دیکھ سکتا۔ اسے پتہ تھا طلال بل کھا رہا ہو گا۔ 

"اپنا خیال رکھا کریں۔ ہر وقت میں میسر نہیں ہو سکتا آپ کو۔ " وہ شرارت سے کہہ کر آگے بڑھ گیا۔ درپردہ وہ اسے یاد دلا گیا تھا کہ وہ بہت بار اس کی مدد کر چکا ہے۔ لیکن دعا اس کی بات پر ساکت سی وہیں کھڑی رہی۔ 

"کاش تم میسر ہو جاؤ۔ " اس کے دل نے خواہش کی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نیناں اور تہامی کمپئرنگ کی تیاری کر رہے تھے۔ وہ ایک آڈیوٹرم میں موجود تھے۔ تہامی ایک کرسی پر بیٹھا تھا اور نیناں اس کے سامنے کھڑی ایک صفحے پر لکھے الفاظ پڑھ رہی تھی ۔ 

"تقریر نہیں کرنی۔ کمپئرنگ کرنی ہے۔ " تہامی نے اسے ٹوکا تو اس نے تہامی کو گھورا ۔ 

"پتہ ہے۔ باپ کو مت سکھا۔ " اس نے تہامی کو چڑانے کیلیے ڈائیلاگ بولا۔ 

"واٹ!" تہامی نے تعجب سے کہا۔ نیناں اس کی حالت پر ہنس پڑی۔ 

"ہنس لو جتنا ہنسنا ہے ایک دفعہ شادی ہو لینے دو۔ پھر سارے بدلے لوں گا۔ " وہ بڑبڑایا لیکن آواز اتنی زیادہ تھی کہ نیناں با آسانی سن پاتی۔ 

"کیا مطلب ؟ میں تم سے شادی نہ کرنے کیلیے ہی تو یہ سب کر رہی ہوں میں بتا رہی ہوں اگر تم مکرے تو میں تمہیں گنجا کر دوں گی۔ " وہ انگلی اٹھا کر اسے قارن کرتی بولی۔ تہامی نے مسکراہٹ دبائی۔ اسے گنجا ہونا منظور تھا۔ 

"اگر تم چاہتی ہو کہ میں نہ مکروں تو جیسا میں کہوں اس پر عمل کرو۔ میری بات کے جواب میں بحث کرنا چھوڑ دو۔" تہامی نے چہرے پر سنجیدگی لاتے کہا۔ 

"یہ کیا بات ہوئی۔ " نیناں رونے والی ہو گئی۔ اب کی بار تہامی ہنسا۔ نیناں دانت پیستی اسے مارنے کو لپکی تو وہ اٹھ کر بھاگا ۔ وہ دونوں کرسیوں کے ارد گرد بھاگ رہے تھے۔ نیناں تہامی کی صلواتیں سنا رہی تھی اور تہامی کے قہقہے آڈیو ٹرم میں گونج رہے تھے۔ وہ کرسیوں کے اوپر سے پھلانگ کر کبھی اس طرف ہو جاتا تو کبھی اس طرف جبکہ نیناں کو زمین پر چل کر ہی اس کا پیچھا کرنا پڑتا۔ اس نے سوچا کیوں نہ وہ بھی تہامی کی طرح جمپ لگائے۔ بعد کی بعد میں دیکھی جائے گی۔ وہ ایک کرسی پر چڑھی اور تہامی کہ طرف دیکھا۔ وہ اسے روکنا چاہتا تھا لیکن وہ پہلے ہی اپنے منصوبے پر عمل کر چکی تھی۔ نتیجتاً وہ تہامی پر گری۔ اسے تو کوئی خاص چوٹ نہ آئی البتہ تہامی کی کراہ نکل گئی تھی ۔ نیناں کا ایک گھٹنا اس کی پسلی میں لگا تھا 

"اوہ .... اوہ زیادہ لگ گئی کیا؟" نیناں پیچھے کھسکتی بولی۔ تہامی نے سر اثبات میں ہلا دیا اور چہرے پر آئے درد کے تاثرات کو برقرار رکھا۔ 

"کہاں لگی ہے؟" نیناں نے پریشانی سے پوچھا ۔ 

"رہنے دو۔ کیا فائدہ تمہیں بتانے کا۔ تم تو بس درد دینا ہی جانتی ہو۔" وہ اٹھ کر دروازے کی طرف بڑھ گیا جبکہ نیناں ہونق سی بیٹھی رہ گئی۔ یہ بھلا کیا کہہ گیا تھا وہ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

طلال کال کرنے کے بہانے لاؤنج سے اٹھا اور دعا کے کمرے کی طرف بڑھا ۔ وہ آبرو سے دعا کے کمرے کے بارے میں پہلے ہی پتہ کر چکا تھا۔ اس نے آبرو کو کہا تھا کہ وہ دعا کو سبق سکھانا چاہتا ہے کیونکہ دعا نے اس کے ساتھ ایک پرینک کیا تھا۔ وہ بری طرح ڈر گیا تھا یہ اس نے نہیں بتایا تھا۔ آبرو مان گئی تھی اور اسے دعا کے کمرے کی لوکیشن بتا دی تھی۔ طلال کی ہر بات پر آنکھ بند کر کے عمل کرنا وہ فرض سمجھتی تھی ۔ 

"دیکھتا ہوں کتنی بڑی جادوگرنی ہو تم۔" وہ دل ہی دل میں دعا سے مخاطب ہوتا اس راہداری میں آیا جہاں دعا کا کمرہ تھا۔ ایک پل رک کر وہ آگے بڑھا کہ اچانک ایک آواز نے اس کے قدم جکڑ لیے۔ 

"رکو" اس نے کرنٹ کھا کر دائیں طرف جاتی راہداری میں دیکھا۔ اس کے سامنے حیان کھڑا تھا۔ اس کے چہرے پر ایک دم سے ہوائیاں اڑنے لگی لیکن پھر اسے خیال آیا وہ کیوں حیان سے ڈر رہا تھا 

"شاید تم راستہ بھول گئے ہو۔ " حیان نے طنزیہ لہجے میں اسے جتایا۔ اس نے دانت پیسے۔ 

"تم سے مطلب ۔ تم اپنا راستہ ناپو " اس نے بدتمیزی سے کہا۔ حیان نے ناگواری سے ناک چڑھائی۔ اسے دعا کا فیانسی پہلی نظر میں ہے برا لگا تھا اب اس کے اخلاق کو دیکھ کر اسے حیرت ہو رہی تھی دعا نے کیسے اس کی ساتھ منگنی کر لی۔ اسے اپنا اندازہ درست لگنے لگا کہ دعا کے ساتھ زبردستی ہو رہی ہے۔ 

"یہ میرا گھر ہے۔ یہاں کا ہر راستہ میرا ہے۔ " وہ دو قدم چل کے اس کے قریب آیا اور ٹھہر ٹھہر کر بولا۔ 

"اور تم یہاں اجنبی ہو۔ میرا فرض بنتا ہے تمہیں تمہاری اوقات میں رکھوں۔" اس نے بھگو کر طلال کو ماری تھی ۔ وہ سلگ اٹھا۔ 

"تم ہوتے کون ہو مجھے میری اوقات میں رکھنے والے؟ میں فیانسی ہوں دعا کا اور اسی سے ملنے جا رہا ہوں۔ تم مجھے روک نہیں سکتے " وہ تڑخ کر کہتا آگے بڑھنے ہی لگا تھا کہ حیان نے اس کے کندھے پر ہاتھ جماتے ہلکا سا پیچھے کی طرف دھکیلا ۔ 

"میں تمہیں روک سکتا ہوں۔ فیانسی ہونے کا یہ مطلب نہیں تم منہ اٹھا کر دعا کے کمرے میں چلے جاؤ۔ کسی سے اجازت لی تم نے؟" اس کا لہجہ اب سخت ہو چکا تھا۔ 

"مجھے کسی کی اجازت کی ضرورت نہیں ۔ سمجھے۔ "

"دعا میری فیملی سے تعلق رکھتی ہے۔ میں کسی کی بری نظر اپنی فیملی پر نہیں پڑنے دے سکتا۔ "

"واہ فیملی۔ کہیں تمہارا دعا کے ساتھ خود تو چکر نہیں چل رہا۔" طلال نے اسے شک بھری نظروں سے دیکھا۔ حیان استہزائیہ مسکرایا۔ 

"میرا کوئی چکر ہو نہ ہو اب تمہارا تو بالکل بھی نہیں چلنے والا۔ تمہاری گھٹیا طرز گفتگو کو دیکھ کر میں نے فیصلہ کیا ہے کہ دعا کی شادی تم سے نہ ہی ہو تو بہتر ہے۔ چلو اب نکلو یہاں سے۔ " وہ اس پل طلال کو دعا کا دادا ابا لگا جس کے فیصلے گھر پر چلتے ہوں۔ 

"آئے بڑے فیصلہ کرنے والے۔ تمہیں تو میں دیکھ لوں گا " طلال دانت کچکچاتا واپس ہو لیا۔ ابدال ہاؤس سے جانے سے پہلے وہ منیبہ بیگم سے حیان کے متعلق شکایت لگانا نہیں بھولا تھا۔ اس نے منیبہ سے کہا تھا کہ حیان نے اس کی بے عزتی کی ہے۔ منیبہ کو یقین نہیں آیا تھا۔ جب سے وہ حیان سے ملیں تھیں اسے ایک شریف اور نہایت اچھے اخلاق کا مالک پایا تھا۔ انہوں نے سوچا طلال کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہو گی اور حیان سے کوئی باز پرس نہیں کی۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اجالا نے ماما کو فون کیا تو انہوں نے بتایا اسے ایک پارٹی میں اس کے ساتھ چلنا ہے۔ اس کا بالکل بھی موڈ نہیں تھا لیکن ماما کو انکار نہ کر سکی اور ہاسٹل سے ہی تیار ہو کر سیدھا وہاں پہنچ گئی جہاں پارٹی دی جا رہی تھی۔ بڑے سے بنگلے میں ہر چیز اپنی قیمت خود بتا رہی تھی۔ وسیع لان میں سے بل کھا کر گزرتی ایک روش، قطار در قطار درخت، عظیم و الشان عمارت کا خوبصورت سا فرنٹ، سیکیورٹی گارڈز اور خوبصورت لباسوں میں ملبوس مہمانوں کے بیچ چلتے ویٹر۔ سب مہمان ایلیٹ کلاس سے تعلق رکھتے تھے۔

اجالا بلیک میلسی میں ملبوس بالوں کا ایک سائیڈ پر ڈھیلا سا جوڑا باندھے بلیک ہائی ہیل ست ٹک ٹک کرتی روش پر چل رہی تھی۔ اسے دور سے ہی ماما نظر آ گئی تھیں۔ وہ تیزی سے ان کی طرف بڑھ آئی۔ سویرہ بیگم کچھ عورتوں سے اس کا تعارف کروانے لگیں۔ آجکل وہ اجالا کیلیے کو رشتہ ڈھونڈ رہی تھیں لیکن کوئی اچھا لڑکا نظر میں نہیں آ رہا تھا۔ انہیں تو ایسا لگ رہا تھا جیسے ایلیٹ کلاس میں اچھے لڑکے ختم ہو گئے تھے۔ انہوں نے اپنی کچھ دوستوں سے بھی اس بارے میں کہہ رکھا تھا۔ وہ بھی اس پارٹی میں شریک تھیں۔ انہیں حیرت ہو رہی تھی کہ ایلیٹ کلاس سے تعلق رکھنے کے باوجود سویرہ بیگم خود اجالا کیلیے لڑکا ڈھونڈ رہی تھیں حالانکہ ان کے بچے تو خود ہی پسند کر کے انہیں بتاتے تھے۔ 

اجالا ایک شناسا لڑکی نظر آنے پر اس کی طرف بڑھی گئی تو مسز وقار نے عام سے لہجے میں بات شروع کی۔ 

"بیٹی تو ماشاء اللہ بہت پیاری ہے تمہاری ۔ تم کیوں اس کیلیے پریشان ہو رہی ہو۔ اس سے تو بہت سے لوگ شادی کی خواہش رکھتے ہوں گے۔ "

"ہاں یہ تو ہے لیکن وہ میرے معیار کے مطابق نہیں۔ میں ہوں ہی آنکھ بند کر کے اپنی بیٹی ہو کسی کے ساتھ جاتا نہیں دیکھ سکتی۔ کل کو وہ مشکل میں ہو گی تو تکلیف مجھے ہو گی۔ اس لیے پہلے ہی احتیاط کرنا بہتر ہے۔ "

"تمہیں کیسا لڑکا چاہیے؟" ایک عورت نے ذرا طنزیہ لہجے میں پوچھا۔

"مخلص ۔ جو کبھی میری بیٹی کو ہرٹ نہ کرے ۔" دنیا کی ساری مائیں یہی چاہتی تھیں لیکن بیٹیوں کی نصیب میں دکھ لکھا ہو تو وہ انہیں بدل نہیں سکتیں۔ سویرا بیگم کی بیٹی اپنے لیے دکھ کی راہ خود چن چکی تھی۔ 

اپنی دوست سے بات کرتی اجالا کی نظر جزیل پر پڑی تو وہ گلاس لب پر رکھے ساکت رہ گئی تھی۔ وائٹ سوٹ میں ملبوس اونچے قد خوبصورت نقوش کا مالک وہ عاہد سے کچھ کہتا سامنے سے چلا آ رہا تھا۔ اس کا ڈرسنگ سٹائل سیم ہوتا تھا لیکن۔ ہر بار اسے پہلے سے زیادہ خوبصورت لگتا۔ وہ بار بار اس کے سامنے آ رہا تھا۔ قسمت کو بھی شاید ان کا ساتھ منظور تھا۔ اجالا سوچ کر مسکرائی تھی۔ پھر دوست سے معذرت کی اور اپنی ماں پر ایک نظر ڈالتی جزیل کی طرف بڑھی۔ جزیل کا دھیان سامنے نہیں تھا۔ سو اجالا کر اس سے ٹکرانے میں آسانی ہوئی۔ وہ تیزی سے اس کی کمر کے گرد بازو حمائل کرتا اسے گرنے سے بے اختیار بچا گیا۔ جبکہ اجالا اپنے اس عمل پر حیران تھی۔ وہ اتنی گری سوچ کی مالک تو نہیں تھی لیکن محبت نے اس سے یہ بھی کروا دیا تھا۔ دل میں اس سے بات کرنے کو خواہش مچلی اور دماغ نے لبیک کہتے اسے ایک راہ بھی سجھا دی۔ 

"سوری وہ میں …." وہ سیدھی ہوتی پیچھے ہٹی۔ جزیل نے ایک نظر ارد گرد ڈالی۔ کئی لوگ ان کی طرف متوجہ تھے۔ اجالا کے چہرے پر خجالت کی سرخی آئی۔ 

"یوں کسی اجنبی سے ٹکرایا نہیں کرتے۔ " وہ تو آگے بڑھ گیا لیکن اسے شرمندگی کے سمندر میں ڈبو گیا۔ وہ جان گیا تھا کہ وہ جان بوجھ کر اس سے ٹکرائی تھی۔ اسے اپنے گالوں سے آگ نکلتی محسوس ہوئی۔ 

"افف۔ " اس کا بس نہیں چل رہا تھا وہ وہاں سے غائب ہو جائے۔ اس میں پلٹ کر جزیل کو دیکھنے کی ہمت بھی نہیں رہی تھی۔ وہ تیزی سے ایک تاریک گوشے کی طرف بڑھ گئی۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دعا ناشتہ کرنے کی بعد کمرے میں آئی اور شولڈر بیگ اٹھا کر باہر آئی۔ تب تک حیان بھی ناشتہ کر کے باہر کی طرف بڑھ چکا تھا۔ داخلی دروازے سے نکلتے ہی وہ ہم قدم ہو گئے ۔ دعا نے ایک نظر حیان کو دیکھا پھر سامنے دیکھنے لگی۔ وہ خاموشی سے اس کا اپنے ساتھ ساتھ چلنا محسوس کر رہی تھی ۔ 

"ایک بات تو بتائیں۔" حیان نے بائیک کی چابی اچھالتے پوچھا۔

"کیا؟" دعا نے اس کی طرف دیکھا۔ 

"آپ کی زبردستی شادی ہو رہی ہے کیا ؟" اس نے غور سے دعا کا چہرہ دیکھا۔ دعا نے پلکیں جھپکیں۔ اور ان کی حرکت کے ساتھ حیان کے دل کی دھڑکنیں بھی ہم آہنگ ہوئیں۔ دماغ نے دل کو سمجھایا اتنا بھی غور سے نہ دیکھو۔ 

"ہاں بھی اور نہیں بھی ۔" وہ تذبذب سے بولی۔ 

"کیا مطلب ؟" 

"چھوڑو تم نہیں سمجھو گے۔ " وہ سر جھٹک گئی۔ 

"اگر میں سمجھنا چاہوں تو؟" وہ پورچ میں داخل ہو چکے تھے۔ دعا نے رک کر اسے دیکھا۔ کچھ پل ان کی نظریں ملی رہیں۔ 

"میں پھر بھی نہیں بتاؤں گی۔ " وہ اس سے مزید مدد نہیں لینا چاہتی تھی سو اسے نہیں بتایا ۔ اور گاڑی کی طرف بڑھ گئی 

"اوکے ۔ میں خود جان لوں گا۔ " حیان نے کندھے اچکا دیے اور ثانی کو ایک ٹیکسٹ سینڈ کر دیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Post a Comment

0 Comments