Header Ads Widget

Chragh e drakhshan Epi 8 - by dua fatima

 

Chragh e Drakhshan

by dua fatima

Chragh e Drakhshan Part 2

Episode 8

شام گہری ہو چکی تھی ۔ ثانی اور ایش اس عمارت کے سامنے کھڑے تھے جس میں بھوتوں کا راج تھا۔ ثانی کے دل میں تھوڑا بہت خوف بھی تھا لیکن تھرل زیادہ تھا۔ اور ایش بھی اس کے ساتھ تھا۔ اس نے ایش کی طرف دیکھا۔ اس کے چہرے پر واضح لکھا تھا وہ واپس جانا چاہتا ہے 

"ڈرو مت ایش۔ میں ہوں تمہارے ساتھ " اس نے گردن اکڑائی۔ ایش اسے دیکھ کر رہ گیا۔ اس کی علاوہ اور وہ کچھ نہیں کر سکتا تھا۔ 

"ہمم۔ چلو۔" وہ دونوں گیٹ کی طرف بڑھے۔ گیٹ لوہے کی سلاخوں سے بنا ہوا تھا ۔ اس پر بڑا سا تالا لگا تھا۔ لیکن اسے کھولنا ایش کیلیے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔ وہ بھاری گیٹ کو دھکیل کر اندر داخل ہوئے تو ایک پراسرار سے خوف نے ثانیہ کو گھیرا۔ وہ نا محسوس انداز میں ایش کے قریب ہو گئی یہ الگ بات تھی کہ ایش محسوس کر کے مسکراہٹ دبا گیا تھا۔ وہ جیسے جیسے آگے بڑھتے گئے سیاہ بڑی سی عمارت ان کے قریب آتی گئی۔ اس کی چار منزلیں تھیں اور فرنٹ پر اس میں داخل ہونے کے کئی دروازے نظر آ رہے تھے۔ وہ جس روز پر سے گزر رہے تھے اس کے ارد گرد کئی درخت موجود تھے۔ ابھی وہ عمارت کے اندرونی دروازے سے کچھ دور ہی تھے کہ ایک درخت سے ایک عجیب سی آواز سے کوئی چیز برآمد ہوئی اور ثانی کے سر کے عین اوپر سے گزر گئی۔ ثانی چیخ کر ایش سے چپک گئی۔ ایش نے سر اٹھا کر دیکھا وہ ایک چمگاڈر تھی۔ 

"وہ چمگاڈر ہے۔ " اس نے ثانی کو بتایا تو وہ تیزی سے دھڑکتے دل پر ہاتھ رکھتی گہرے گہرے سانس لینے لگی۔ 

"ابھی تو اور بہت کچھ ہے جو ہمارے راستے میں آئے گا۔ تم ابھی سے ڈر گئی " ایش نے شرارتی نظروں سے اسے دیکھا۔ ثانی نے غصے سے اسے گھورا لیکن ایش جانتا تھا فی الحال وہ اسے مارے گی نہیں کیونکہ اسے ایش کی ضرورت تھی۔ 

"بکو مت اور آگے چلو "

"میں تمہیں ایک بار پھر کہتا ہوں ابھی بھی وقت ہے فیصلہ بدل لو۔واپس چلتے ہیں " 

"نہیں تم نے مجھے ڈرنے کا طعنہ دیا ہے اب تو جا کر ہی رہوں گی " وہ ہٹ دھرمی سے بولی۔ ایش نے کندھے اچکا دیے۔ 

"چلو پھر۔ " ایش نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔ ثانی نے گہری سانس اندر کھینچی اور اس کے ساتھ چل پڑی۔ دروازے کے قریب پہنچ کر ایش نے دروازے پر ہاتھ رکھا ہی تھا کہ وہ کھلتا چلا گیا۔ ثانی نے ایک دم سے ایش کو دیکھا۔ اس نے تعجب سے نفی میں سر ہلایا۔ جیسے کہہ رہا ہو میں نے یہ نہیں کیا۔ 

"کیا بھوت ہمارا استقبال کر رہے ہیں؟" ثانی نے خوفزدہ نگاہوں سے اندر جھانکا۔ 

"پتہ نہیں ۔ " اس نے قدم آگے بڑھائے۔ 

"آئی تھنک ہمیں واپس جانا چاہیے " ثانی نے خودکلامی کے سے انداز میں کہا۔ 

"اب تم فیصلہ نہیں بدل سکتی۔ " ایش نے اسے اندر کھینچا۔ ان کے سامنے ایک بڑا سا ہال تھا جس کے آخری حصے سے سیڑھیاں اوپر جاتی تھیں اور دائیں بائیں والی دیواروں میں کئی دروازے تھے ۔ ہال کی چھت پر ایک فانوس لگا تھا جس میں سے پھوٹتی مدھم روشنی سارے ہال میں اندھیرے کو نیم اندھیرے میں بدل رہی تھی۔  ہال کے وسط میں فرش پر ایک سٹیچو لگا ہوا تھا۔ وہ کسی میوزم کی طرح کی عمارت تھی۔ ایش نے سارے ہال میں نظریں دوڑائیں۔ 

"کچھ نظر آیا؟"

"نہیں۔ وہ شاید جان بوجھ کر میری نظروں سے اوجھل ہو گئے ہیں "

"کیوں؟" 

"تاکہ پیچھے سے ہم پر حملہ کر سکیں۔" ایش نے اندازہ لگایا۔ ثانی کا سانس رکا۔ 

"چلو یہاں سے ایش ۔ مجھے نہیں دیکھنا کچھ " اس نے ایش کا بازو جھنجھوڑا۔ 

"نہیں۔ دیکھنا میں انہیں کیسے گھماتا ہوں " اس نے ثانی کی طرف دیکھا تو اس کی آنکھیں پرپل رنگ میں تبدیل ہو چکی تھیں اور کسی ہیرے کی طرح جگمگا رہی تھیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دعا گھر پہنچی تو اس کے لیے وہاں ایک سرپرائز انتظار کر رہا تھا ۔ اس کے دونوں چھوٹے بھائی ایک دم سے اس کے سامنے  آئے تو وہ خوشی سے چیخ مارتی ان سے لپٹ گئی ۔ 

"ہم نے آپ کو بہت مس کیا آپی " ازبان اور ازلان ایک ساتھ بولے تھے۔ وہ بس مسکرا دی ۔ 

"آپ بھی کہیں نا ہمیں مس کیا؟" ازبان نے اسے گھورا۔ وہ ہنس پڑی۔ اس نے انہیں مس کیا تھا لیکن وہ بتانے والی نہیں تھی۔  

"نہیں کہوں گی۔" وہ کہہ کر ماما بابا کی طرف بھاگی۔ شاہ میر بھی وہیں تھا جو مسکرا کر اسے ماما بابا کے ساتھ ملتے دیکھ رہا تھا ۔

"چہرہ کیوں اتنا کمزور لگ رہا ہے؟ ٹھیک سے کھانا نہیں کھا رہی نا تم۔ اسی لیے میں تمہیں یہاں اکیلا نہیں چھوڑنا چاہتی تھی لیکن تم نے میری بات نہیں مانی۔" ماما اس کے چہرے کو چھوتے فکر مند سی کہہ رہی تھیں۔ 

"ماما آپ کو تو میں کبھی صحت مند لگ ہی نہیں سکتی جتنا مرضی کھا لوں ۔" وہ بولی تو یحییٰ صاحب ہنس پڑے۔ تبھی سرتاج بیگم انہیں سہ پہر کی چائے پر بلانے کیلیے آ گئیں۔ ان سب نے بیج گارڈن میں کرسیوں پر بیٹھ کر ایک دوسرے سے گپ شپ کرتے چائے پی تھی۔ صرف آبرو وہاں نہیں تھی۔ یحییٰ اور ابدال بابر کی دعا کی شادی کے بارے میں بھی بات ہوئی۔ انہوں نے یحیٰی بابر سے کہا تھا کہ وہ کل پرسوں طلال اور اس کی فیلمی کو بلا لیں گے تاکہ وہ بھی ان سے مل لیں۔ اور دعا سوچنے لگی اگر طلال نے انکار نہ کیا تو وہ پھر کیا کرے گی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"یہ بہت خطرناک ہو سکتا ہے۔ ایک دفعہ پھر سوچ لو " جزیل نے حیان کی طرف دیکھتے سنجیدگی سے کہا تھا۔ 

"سوچ لیا جتنا سوچنا تھا۔ دعا کے پیرنٹس پاکستان آ چکے ہیں۔ ابدال اب بے دھڑک کچھ نہیں کرے گا۔" میز پر ٹکتے حیان نے کافی کا کپ لبوں سے لگایا۔ 

"لیکن اس کا خفیہ وار کامیاب ہو سکتا ہے۔"

"خفیہ پلان پہلے بنانا پڑے گا اسے۔ اگر ہم پہلے سے ہی اس کے پلان سے آگاہ ہو جائیں تو دفاع کا بندوبست کیا جا سکتا ہے۔ تمہارے آدمی اس کے گھر پر پہرہ دے رہے ہیں۔ پھر میں بھی وہاں ہوں گا تو اس کا پلان خفیہ نہیں رہ سکے گا " اس نے کہا تو جزیل نے سر ہلایا۔ 

"انکل سلطان سے اجازت لے لی تم نے ؟" حیان نے منہ بنایا 

"انہوں نے کہا تھا میں جو مرضی کروں وہ مجھے نہیں روکیں گے ۔ اب تم انہیں کچھ نہ بتا دینا۔ " 

"اگر انہوں نے کہہ دیا تھا کہ نہیں روکیں گے تو مسلہ کیا ہے؟" جزیل مسکرایا۔ 

"خوامخواہ پریشان ہوں گے۔ ان کے اپنے بھی بہت سے مسائل ہیں۔ "

"چلو ٹھیک ہے میں نہیں بتاؤں گا لیکن گارڈز بابر ہاؤس میں بھی تمہارے جائیں گیں۔ " حیان کو ایک دم سے کافی بہت کڑوی لگی۔ 

"میں بچہ نہیں ہوں جزیل ۔ اور مجھے اپنی فیصلے خود کرنے کا اختیار ہونا چاہیے " وہ احتجاج کر رہا تھا۔ جزیل ہنس پڑا۔ 

"یا پھر انکل سلطان کو تمہارے اس قدم کا بتانے دو یا سیکیورٹی گارڈز ساتھ رکھ لو۔ " اس نے کندھے اچکائے۔ حیان نے کہ ٹیبل پر پٹخا اور منہ ہی منہ میں کچھ بڑبڑاتا ٹیبل کے پیچھے کرسی پر بیٹھ کر لیپ ٹاپ کھول لیا 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایش اور ثانی ایک دم سے منظر سے غائب ہو گئے۔ بھوت منہ کھولے اپنی اپنی جگہوں سے نکل کر ہال میں پھیلنے لگے۔ بھوتوں کی سردار نے چیخ کر انہیں ایش اور اس کی ساتھی لڑکی کو ڈھونڈنے کا حکم صادر کیا۔ اس عمارت میں بھوتوں کا جو قبیلہ رہتا تھا اس کا ایش کی فیملی سے گہری دشمنی تھی۔ ایش کا تعلق کسی بھوت فیملی سے تو نہیں تھا لیکن اس کی فیملی کے پاس کچھ پاورز تھیں جس کے ذریعے وہ جنوں سے بھی انٹریکٹ کر سکتے تھے۔ ان کی اور وہاں رہنے والے جن قبیلے کی لڑائی بہت پرانی چلی آ رہی تھی۔ اسی لیے ایش وہاں نہیں جانا چاہتا تھا لیکن ثانی نے اس کی ایک نہ چلنے دی۔ اور اب اسے واپس چلنے کا کہہ رہی تھی لیکن ایش اپنی فیملی کے دشمنوں کو پیٹھ دکھا کر بھاگنا نہیں چاہتا تھا۔ وہ ایک دفعہ ان کا دماغ گھمانا چاہتا تھا۔ وہ ایک بھوت پیچھے ظاہر ہوا اور اس کی پیٹھ پر لات رسید کی۔ وہ ہوا میں کلابازی کھاتا فرش سے ٹکرایا ۔ اس کے منہ سے نکلنے والی چیخ نے دوسروں کو اس طرف متوجہ کیا لیکن ایش غائب ہو چکا تھا ۔ ثانی اس کے ساتھ تھی لیکن اس نے ثانی کو ظاہر نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ وہ خوفزدہ بھی تھی اور بھوت کو لات کھاتے دیکھ کر اسے ہنسی بھی آئی تھی۔ 

"کیا کر رہے ہو چلو یہاں سے " اس نے ایش کو روکنا چاہا۔ 

"رکو تھوڑی دیر۔ تھوڑا ایڈونچر کر لیں۔ " ایش مسکرایا اور بھوتوں کے سردار کے سامنے حاضر ہو کر اس کے منہ پر زوردار تھپڑ مارا۔ وہ ایک طرف کو گرا لیکن اس نے گرتے ساتھ ہی ایش پر اپنا جادو پھینکا۔ اگر ایش وہاں سے غائب ہو کر کسی اور جگہ ظاہر نہ ہوتا تو اس کا کام تمام بھی ہو سکتا تھا۔ اس نے ایک لمحے میں ہی یہ دونوں کام کیے تھے اور بچ گیا تھا۔ البتہ ثانی کی چیخ نکل گئی تھی اور سردار کو اس کی چیخ سے ان کی سمت معلوم ہو گئی تھی۔ اس نے اپنے قبیلے کو ان کے تعاقب میں بھیجا۔ وہ طوفان کی طرح ان کی طرف بڑھے۔ ایش ثانی کے ساتھ وہاں سے ایک سیکنڈ کے اندر اندر بہت اونچائی پر جا پہنچا جہاں سے ثانی کو بادل اپنے برابر محسوس ہوئے تھے۔ ایش نے اس کی کمر کے گرد ایک بازو حمائل کیے اسے خود سے لگا رکھا تھا۔ کیونکہ وہ تو فضا میں سفر کر سکتا تھا ثانی نہیں۔ 

"واؤ۔ کاش میرا بادلوں میں ایک گھر ہوتا۔" وہ ارد گرد نگاہ دوڑاتے بولی تھی۔ 

"چاہیے؟" ایش نے اس کی آنکھوں میں دیکھا۔ ثانی نے کچھ سوچ کر سر ہلا دیا۔ ایش نے اس کے پاؤں کے نیچے میجک پھینکا۔ ایک سکٹنگ بورڈ جیسا تختہ اس کے پیروں کے نیچے آ گیا۔ پھر اس سے دور ہوا۔ ثانی نے ڈرتے ہوئے اپنا بیلنس قائم رکھنے کی کوشش کی لیکن جلد ہی وہ پتہ چل گیا سی نہیں گرے گی۔ اس فضا میں ہی ایسے حرکت کرنے لگی جیسے برف پر سکیٹنگ کر رہی ہو۔ 

"واؤ۔ یہ کتنے مزے کا ہے۔ مجھے اب تک پتہ کیوں نہیں چلا " وہ خوشی سے چلا رہی تھی۔ ایش نے مسکراتے ہوئے بادلوں کے ایک گھنے جھنڈ کی طرف رخ کیا اور کچھ ہی دیر میں وہاں فیری ٹیلز کے جیسا خوبصورت سا گھر بنا دیا۔ ثانی اسے دیکھ کر مبہوت رہ گئی۔ ایش اس کا ہاتھ تھام کر گھر کے اندر لے آیا۔ ثانی کو ایک اینیمیشن مووی یاد آئی جس میں ایک بوڑھا آدمی اور ایک بچہ بالون کی مدد سے اڑنے والے گھر میں سفر کرتے ہیں۔ اسے اسی گھر والی فیلنگ آ رہی تھی۔ وہ گھر لکڑی کا بنا ہوا تھا ۔ چھوٹا سا مگر خوبصورت گھر۔ اس کی کھڑکیوں سے باہر بادل نظر آ رہے تھے۔ 

"اب مجھے کوئی کچھ نہ کہے۔ کوئی کام نہیں۔ میں اس گھر میں اکیلے سکون سے رہنا چاہتی ہوں " وہ کمرے میں پہنچ کر بیڈ پر گرتے ہوئے بولی۔ 

"مطلب میں چلا جاؤں۔" ایش نے کان کھجایا۔ 

"ہاں ....نہیں" اسے یاد آیا اکیلے تو اسے ڈر لگ سکتا تھا۔ ایش نے مسکراہٹ دبائی۔ 

تم اس گھر کے ساتھ ایک اور گھر بناؤ اور دونوں کے اوپر بالون لگا دو۔ یہ نہ ہو بادل برسیں تو ہم نیچے گر پڑیں " وہ اس کی بات پر ہنس کر سر ہلا گیا۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"میں یہاں سے گزر رہا تھا تو سوچا تمہاری خیریت معلوم کرتا جاؤں۔" شاہ میر کے ساتھ عمارت کے اندرونی حصے کی طرف جاتے ہوئے حیان نے کہا۔ وہ اس وقت سفید فل سلیو شرٹ اور بلیک جینز میں ملبوس تھا۔ آنکھوں کا شہد رنگ اور سنہری بال اسے غیر معمولی خوبصورت بنا رہے تھے۔ 

"میں تو اب بالکل ٹھیک ہوں۔ میرے پیرنٹس آئے ہوئے ہیں۔ ان کے سامنے میرے ایکسیڈینٹ کا ذکر مت کرنا۔ میں انہیں بتاؤں گا کہ تم میرے دوست ہو۔" شاہ میر نے کہا تو اس نے مسکرا کر سر ہلا دیا۔ وہ اینٹرینس سے اندر داخل ہوئے تو لاؤنج میں بیٹھے یحییٰ صاحب کی نظر ان پر پڑی۔ ان کے ساتھ ابدال بابر بھی بیٹھے لیکن ان کا رخ دوسری طرف تھا سو وہ حیان کو نہیں دیکھ سکے تھے۔ 

"چلو میرے بابا سے مل لو پہلے" شاہ میر اسے لاؤنج میں لے آیا۔ یحییٰ صاحب کی آنکھیں حیان پر جم کر رہ گئی تھیں۔ وہ چہرہ جو وہ کبھی نہیں بھول سکتے تھے حیان کے چہرے سے بہت ملتا تھا۔ ان کا بھائی جس کا قتل ہو گیا تھا اور اس کا بیٹا جو کھو گیا تھا ۔ وہ کیسے یہ سب بھول سکتے تھے۔ 

"بابا یہ میرا دوست ہے۔ بازل " شاہ میر نے حیان کا تعارف کروایا۔ وہ تب بھی یک ٹک اسے دیکھتے رہے 

"اسلام علیکم ۔" حیان نے شریف بچوں کی طرح ابدال اور یحییٰ دونوں کو جواب دیا جبکہ اس کے دماغ میں تو کچھ اور ہی گھوم رہا تھا ۔ ابدال کیلیے نفرت اور یحییٰ صاحب کے چہرے کے تاثرات سے وہ اخذ کر رہا تھا کہ اس کا پلان کامیاب ٹھہرا تھا۔ 

"وعلیکم السلام ۔ پورا نام کیا ہے تمہارا ؟" یحییٰ صاحب نے گہری سانس کھینچتے پوچھا۔ 

"بازل مصطفیٰ" یحییٰ صاحب کا دل تیزی سے دھڑکا۔ وہ اٹھ کھڑے ہوئے۔ ابدال صاحب بھی چونک اٹھے تھے۔ 

"تمہارے باپ کا پورا نام کیا ہے؟" وہ بیتابی سے پوچھ رہے تھے۔ 

"مصطفیٰ بابر۔ " اس نے چہرے پر تعجب لاتے کہا۔ یحییٰ صاحب ایک دم سے آگے بڑھ کر اسے گلے لگا گئے۔ حیان کو یہ توقع نہیں تھی۔ اس کی بھنویں اوپر کو اٹھیں۔ شاہ میر کی بھی آنکھیں حیرت سے پھیلیں۔ 

"حیان! میرے بھتیجے۔ میرے بھائی کی نشانی  تم کہاں تھے؟ "ان کی آواز بھرا گئی تھی۔ ان کی بات پر ابدال بابر کے سر پر جیسے چھت آ گری تھی۔ وہ اضطراب میں اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ جبکہ یحییٰ صاحب اب حیان کو غور سے دیکھ رہے تھے ۔ 

"میں انکل سلطان کے ساتھ ابروڈ چلا گیا تھا " اس نے بتایا۔ سلطان کا نام سن کر وہ چونکے۔ سلطان ان کا اور ان کے بھائی مصطفیٰ کا دوست تھا۔ ان تینوں نے ایک ساتھ یونی میں تعلیم مکمل کی تھی۔ سلطان کسی وجہ سے گھر والوں سے ناراض ہو کر ملک ہی چھوڑ گیا تھا اور کبھی کسی سے رابطہ نہیں کیا۔ لیکن وہ حیان کو اپنے ساتھ لے کر گیا تھا۔ یہ بات اطمینان بخش تھی۔ اس کا مطلب حیان اب تک محفوظ ہاتھوں میں ہی رہا تھا۔ 

"سلطان! وہ کیسا ہے؟" 

"ٹھیک ہیں۔ " 

"مجھے پہچانا تم نے؟" یحییٰ نے پوچھا تو وہ مسکرایا۔ 

"جی آپ یحییٰ انکل ہیں نا۔" اس نے معصومیت سے کہا۔ یحییٰ صاحب خوشی سے نہال ہو گئے۔ وہ بچہ تھا اور ایک دو دفعہ ہی ان سے ملا تھا لیکن انہیں پہچان گیا تھا۔ 

"مجھے چاچو کہو۔ میں تمہارا بابا کا بھائی ہوں۔ سگا نہ سہی لیکن بھائی تو ہوں۔ اور یہ تمہارے تایا۔ ابدال بابر " انہوں نے کہہ کر ابدال صاحب کا اس سے تعارف کروایا جن کے چہرے پر عجیب سے تاثرات آ جا رہے تھے۔ حیان نے ان کی طرف منتظر نگاہوں سے دیکھا لیکن وہ کچھ نہ بولے تو حیان نے یحیٰی صاحب کی طرف نظریں پھیریں۔ انہیں بھی ابدال کا رویہ عجیب لگا لیکن انہوں نے یہ سوچا کہ اچانک ملنے والی خوشی نے انہیں منجمند کر دیا ہے۔ ابدال صاحب بھی ہوش میں آئے اور خود کو سنبھال کر حیان کو گلے لگا لیا۔ حیان کے چہرے کے تاثرات سخت ہوئے تھے۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دعا اپنے کمرے میں بند پیپر کی تیاری کر رہی تھی۔ پہلے ہی اذلان اور ازبان کے ساتھ باتیں کرتے وہ کافی وقت ضائع ہر چکی تھی۔ اسے پیپر کی ٹینشن تھی ورنہ سارا دن ان کے ساتھ باتیں ہی کرتی رہتی۔ ابھی بھی اسے کمرے میں آئے زیادہ دیر نہیں ہوئی تھی کہ دروازہ بجنے لگا۔ 

"اب کیا ہے " وہ بڑبڑا کر دروازے پر آئی اور اسے کھولا۔ توقع کے مطابق سامنے ازلان ازبان ہی کھڑے تھے۔ 

"آپی! " ازبان نے پہلے بولنا شروع کیا تھا لیکن ازلان نے اس کی بات کاٹ کر خود اسے بتانا شروع کیا۔

"آپی آپ کو پتہ چلا ...." 

"نہیں مجھے نہیں پتہ چلا۔ اب جاؤ مجھے پیپر کی تیاری کرنی ہے " دعا نے اس کی بات کاٹ کر دروازہ بند کرنا چاہا۔ ازبان جو ازلان کو غصے سے گھور رہا تھا دعا کی بات پر دانت نکالنے لگا۔ 

"آپی سنیں تو سہی۔ ہمارے ایک نیو کزن آئے ہیں۔ " ازلان تیزی سے بولا تو وہ دروازہ بند کرتے کرتے رکی۔

"نیو.... کوئی نیو بارن بے بی آیا ہے؟" اس نے اشتیاق سے پوچھا۔ وہ دونوں ہنس پڑے ۔

"ارے نہیں آپی۔ وہ تو بالکل جوان ہیں۔ " ازبان نے کہا۔ 

"اور بہت پیارے بھی۔" ازلان نے معلومات میں اضافہ کیا۔ 

"ان کی آنکھوں اور بالوں کا رنگ یونیک سا ہے گولڈن۔" ازبان نے بھی لقمہ دیا۔اس بات پر دعا کا دل دھڑکا۔ کیا وہ حیان تھا۔ 

"کہاں ہے وہ ؟" اس نے ان دونوں کے طرف باری باری دیکھا ۔

"لاؤنج میں ماما بابا اور تایا جان کے ساتھ بیٹھے ہیں۔ " وہ دونوں اس کے ساتھ لاؤنج کی طرف بڑھے۔ کچھ ہی لمحوں میں وہ ایک گلاس ڈور کے پار لاؤنج میں دیکھ رہے تھے۔ حیان کو وہاں دیکھ کر اس کی آنکھیں حیرت سے پھیلی تھیں۔ وہ کیسے اچانک اس کا کزن نکل آیا تھا۔ اسے یہ بات سمجھ نہیں آ رہی تھی۔ 

"ماما نے بتایا ہمارے ایک تایا جو جوانی میں ہی وفات پا گئے تھے یہ ان کے بیٹے ہیں۔ " ازلان نے حیان پر نظریں جمائے کہا تھا۔ دعا نے حیرت سے اسے دیکھا۔ اسے تو یہ نہیں پتہ تھا۔ اس نے حیان سے اس بارے میں پوچھنے کا ارادہ کر لیا تھا ۔ 

دوسری جانب منیبہ بھی حیان پر صدقے واری جا رہی تھی۔ وہ بھی یونی میں یحییٰ صاحب کے ساتھ پڑھتی تھی اور ان تین دوستوں کے گروپ میں شامل تھی۔ سلطان اور مصطفیٰ اس کے بھائیوں جیسے تھے جبکہ یحییٰ صاحب سے اس کی منگنی ہو چکی تھی۔ وہ سلطان کے حالات سے بھی واقف تھی اور مصطفیٰ کی محبت کی بھی گواہ تھی۔ ان کی موت نے اسے بہت غمزدہ کیا تھا۔  اس نے حیان کو اصرار کر کے بابر ہاؤس رکنے پر راضی کر لیا تھا۔ حیان بھی یہی چاہتا تھا لیکن تکلف دکھانا نہیں بھولا تھا۔ ابدال صاحب کی حالت دیکھنے والی تھی ۔ جتنی دیر وہ وہاں رہا وہ اضطراب سے پہلو بدلتے رہے۔ پھر یحییٰ صاحب نے اسے شاہ میر کے ساتھ اپنا سامان وہاں لانے کا کہا تو وہ سعادت مندی سے سر ہلا کر شاہ میر کے ساتھ پورچ کی جانب بڑھ گیا۔ 

"تم نے تو سرپرائز دے دیا۔ ایسا تو فلموں میں ہوتا ہے۔ بچھڑے ہوئے اچانک مل جاتے ہیں۔ " شاہ میر نے تبصرہ کیا تو وہ بس مسکرا دیا تھا۔ وہ اپنا سامان پہلے ہی ایک سوٹ کیس میں پیک کر کے جزیل کے گھر چھوڑ چکا تھا۔ شاہ میر نے باہر ہی اس کا گاڑی میں انتظار کیا ۔ وہ کچھ ہی دیر میں سوٹ کیس لے کر باہر آ گیا ۔ وہ بابر ہاؤس واپس پہنچے تو رات کے کھانا ٹیبل پر لگایا جا چکا تھا۔ اس کیلیے ایک کمرہ سیٹ کروا دیا گیا تھا۔ ملازم کے ہاتھ اس کا سوٹ کیس کمرے میں پہنچا دیا گیا اور وہ ڈائننگ ٹیبل پر آ گیا۔ اتفاق سے اسے دعا کے عین سامنے کرسی ملی۔ وہ تعجب سے منہ بنائے اسے گھور رہی تھی جیسے کچھ کھوجنا چاہ رہی تھی ۔ اس نے دعا کی طرف زیادہ توجہ نہیں دی اور یحییٰ صاحب کے ساتھ ہی باتوں میں مصروف رہا۔ یحییٰ صاحب نے اس کا سب سے باقاعدہ تعارف کروایا اور بتایا کہ وہ آج سے وہیں رہے گا۔ دعا کو قسمت کے اس کھیل پر حیرت نہیں ہوئی تھی۔ آثار بتا رہے تھے اس کی کہانی دعا سے جڑنے والی تھی۔ دعا منتظر تھی کب ایسا ہو گا اور کیسے۔ جب محبوب سامنے ہو تو کس کی توجہ کھانے پر ہو۔ اس کا بھی یہی حال تھا۔ وہ اب ایسے ہی حیان کے لیے محسوس کر رہی تھی جیسے کبھی شہزادے نے اس کیلیے جذبات محسوس کیے تھے۔ شہزادے کو یاد کر کے اس کی آنکھوں میں نمی ابھری لیکن اس نے خود کو سمجھایا وہ ایک خواب تھا جس کی تعبیر اس کے سامنے تھی۔ اس نے گہری سانس لی تھی۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اجالا گاڑی ڈرائیو کرتی اپنی ایک دوست سے مل کر واپس ہاسٹل جا رہی تھی جب اچانک ایک سنسان سڑک پر اس کی گاڑی رک گئی ۔ 

"شٹ۔" اس نے دانت پیس کر گاڑی دوبارہ چلانے کی کوشش کی لیکن ناکام رہی۔ اس نے کھڑکی سے باہر ارد گرد دیکھا۔ رات کے اندھیرے میں سٹریٹ لائٹس کی مدھم سے روشنی پھیلی ہوئی تھی۔ ایک دو منٹ بعد کوئی گاڑی اس سڑک سے گزر جاتی تھی۔ اس نے باہر نکل کر گاڑی چیک کرنے کا سوچا۔ وہ اپنے خوف پر قابو پاتی ابھی باہر نکلی ہی تھی کہ کہیں سے دو آوارہ لڑکے ٹپک پڑے۔ 

"ہائے کیا کمال لڑکی ہے" وہ پہلے دانت نکالتے اس کی طرف بڑھے تو وہ سہم کر پیچھے ہٹی۔ 

"دور رہو ۔" وہ لڑکھڑائی تو لڑکے ہنسنے لگے ۔

"بے بی ڈرو نہیں ۔ ہم بھی تمہاری طرح کے انسان ہیں۔ کوئی جن بھوت نہیں ۔ " وہ اس کے قریب پہنچ گئے تبھی ایک گاڑی ان کے قریب رکی۔ اجالا کی سانس میں سانس آئی۔ وہ گاڑی سے نکلنے والے شخص کے قریب آ گئی۔ 

"ہیلپ میں پلیز۔ " وہ پریشانی سے کہہ رہی تھی جب اس کی نظر جزیل کے چہرے پر پڑی۔ وہ یکدم خاموش ہو گئی۔ وہ یوں اچانک اس کے سامنے آ جائے گا اس نے کبھی سوچا نہیں تھا۔ اور تب جب اسے ایک محافظ کی ضرورت تھی۔ 

"اپنی خیریت چاہتے تو شکل گم کر لو اپنی۔" وہ بھاری لہجے میں سختی سے ان لڑکوں سے بولا تو وہ اپنا سا منہ لے کر چلے گئے۔ 

"کوئی مسلہ ہو گیا ہے آپ کی گاڑی کو ؟" اس نے اجالا کی طرف رخ کرتے پوچھا۔ اس کے چہرے پر شناسائی کی کوئی رمق نہیں تھی۔ 

"ہاں۔ یہ اچانک سے بند ہو گئی۔" اس نے بمشکل جزیل کے چہرے سے نظریں ہٹائیں۔ جزیل مزید کچھ کہے بنا اس کی گاڑی کی طرف بڑا اور بونٹ اٹھا کر چیک کرنے لگا۔ اجالا اسے یک ٹک دیکھنے لگی۔ وہ کتنا خوبصورت تھا۔ لفظ خوبصورت بھی اس کیلیے کم تھا۔ وہ دل ہی دل میں سوچنے لگی۔ 

"ٹھیک ہو گئی ہے ۔ چیک کر لیں " کچھ دیر بعد اس نے بونٹ بند کرتے کہا تو وہ ہوش میں آئی۔ 

"تھینک یو اینڈ سوری " وہ آخری الفاظ تیزی سے بولی تھی۔ 

"سوری!" جزیل نے رک کر تعجب سے اسے دیکھا۔ 

"میں نے اس دن آپ کا پیچھا کیا اور آپ کو پریشان کیا" اجالا نے شرمندگی سے کہا۔ جزیل نے کچھ پل یاد کرنے میں لیے ۔ 

"اوہ تو آپ وہ ہیں۔ " وہ کہہ کر اپنی گاڑی کی طرف بڑھ گیا جبکہ اجالا صدمے سے منہ کھولے اسے دیکھ رہی تھی۔ کیا وہ اتنی معمولی تھی کہ وہ اسے بھول گیا تھا۔ وہ خفت سے لب چباتی گاڑی میں بیٹھ گئی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حیان اپنے کمرے کی طرف بڑھ رہا تھا کہ راستے میں اسے دعا کھڑی نظر آئی۔ وہ کاریڈور کی دیوار سے ایک کندھا ٹیکے اور سینے پر بازو باندھے سر ترچھا کیے اسے دیکھ رہی تھی۔ وہ ایک دفعہ تو گڑبڑا ہی گیا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا دعا اس پر شک کر رہی تھی۔ 

"یہ کیا چکر ہے؟ تم کیسے اچانک سے میرے کزن نکل آئے؟" اس نے بھنویں اچکا کر پوچھا۔ حیان نے ایک ابرو پر انگلی پھیری ۔ 

"کیا آپ مجھ پر کسی قسم کا شک کر رہی ہیں؟" اس کے دل میں چور تھا تبھی یہ سوال پوچھا تھا۔ 

"کیا مجھے کرنا چاہیے؟" وہ ٹیک چھوڑ کر سیدھی کھڑی ہوئی۔ 

"نہیں ۔ " اس نے معصومیت سے کہا۔ 

"پھر بتاؤ تم میرے کس تایا کے بیٹے ہو؟" اس نے پوچھا۔ حیان کی آنکھیں میں ماضی کے کسی بھیانک منظر کی کرچیاں ابھریں۔ وہ جواب دیے بنا نظریں پھیر گیا۔ دعا ایک پل کو سن ہوئی تھی۔ کہیں ... کہیں اس کے باپ کا بھی تو قتل نہیں ہوا تھا اور وہ قتل کا بدلہ لینے واپس آیا تھا۔ جیسے شہزادہ حیان آیا تھا 

"تمہارے بابا کا قتل ہوا تھا؟" اس نے دھڑکتے دل کے ساتھ پوچھا ۔ حیان نے جواب نہیں دیا اور آگے بڑھ گیا۔ دعا نے جلدی سے اس کا بازو تھاما۔ حیان نے مڑ کر اسے دیکھا۔ 

"جواب دے کر جاؤ " اس کے لہجے میں سختی تھی۔ حیان کو ذرا پسند نہ آئی۔ 

"کیوں جواب دوں۔ میں آپ کا جوابدہ نہیں ۔" اس نے کندھے اچکائے اور قدم آگے بڑھا دیا۔ 

"کیا تم کسی مقصد کے تحت یہاں آئے ہو؟" دعا دل میں مچلتے خدشے کو لبوں پر آنے سے نہ روک سکی۔ حیان کے قدم زمین نے جیسے جکڑ لیے۔ وہ لڑکی کیا تھی۔ کیسے یہ محسوس کر گئی تھی کہ وہ کسی مقصد کے تحت وہاں آیا تھا۔ اسے دعا کو ٹالنے کیلیے کچھ کرنا چاہیے تھا۔ وہ مڑا اور مسکرایا۔ 

"کہیں آپ کو یہ تو نہیں لگ رہا میں آپ کے پیچھے یہاں آیا ہوں؟" اس نے لبوں پر طنزیہ مسکراہٹ لاتے پوچھا ۔ دعا کے تو سر پر لگی تلوں پر بجھی۔ یہ تو اس نے نہیں سوچا تھا پر ایسا ہو بھی سکتا تھا۔ 

"مجھے کیا پتہ۔ یہ تو تم بتاؤ " دعا نے کندھے اچکانے۔ 

"میرے پاس اتنا فالتو وقت نہیں ہے ۔ " وہ ناک چڑھا کر کہتا پلٹ گیا تھا ۔ دعا دانت پیس کر رہ گئی تھی۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ثانی گل کی زندگی میں بہت سے خوبصورت لمحات آئے تھے لیکن بادلوں میں گھر بنا کر رہنا اسے سب سے زیادہ پسند آیا تھا۔ وہ کتنی ہی دیر کھڑکی سے باہر دیکھتی رہی تھی۔ ایش نے اس کے ساتھ ہی اپنا گھر بنا لیا تھا اور اس کے کمرے کی کھڑکی ثانی گل کے کمرے کی کھڑکی کے قریب تھی۔ اس نے اپنے کمرے کی کھڑکی میں آ کر دیکھا تو ثانی کو کھڑکی میں ہی پایا۔ اس نے ہاتھ ہلا دیا ۔ ثانی مسکرا دی۔ پھر کچھ دیر کھڑکی کے باہر کے مناظر دیکھنے کے بعد بستر پر آ گئی۔ اسے یقین تھا یہاں اسے بہت اچھی نیند آئے گی۔ نیند تو اسے اچھی ہی آئی لیکن آدھی رات کو بادلوں میں کڑکنے والی بجلی نے اسے ہڑبڑا کر اٹھنے پر مجبور کر دیا۔ اسی پل کھڑکی کے پار بجلی بہت قریب سے گزری کہ اس کا دل دہل گیا۔ وہ چیخ اٹھی۔ تبھی ایش اس کے سامنے آ گیا۔ 

"میں ہوں۔ ڈرو نہیں ۔" اس نے ثانی کا ہاتھ تھاما۔ 

"چلو یہاں سے ۔ مجھے نہیں رہنا یہاں " ثانی نے گھٹی گھٹی آواز میں کہا تو ایش نے کندھے اچکا دیے اگلے ہی پل وہ زمین پر اس گھر میں تھے جہاں وہ انگلینڈ آنے کے بعد سے رکے ہوئے تھے۔ ثانی بیڈ پر گرنے والے انداز میں بیٹھ گئی۔ 

"اتر گیا بھوت ایڈوینچر کا۔ اب مجھے کہیں لے جانے کا مت کہنا۔" ایش کمر پر ہاتھ رکھے اسے گھور رہا تھا۔ ثانی بچوں کی طرح لب چباتی شرمندگی سے نیچے دیکھ رہی تھی۔ 

"ذرا سی بجلی نہیں برداشت ہوتی اور شوق ہے ایڈوینچرز کا۔ ہونہہ ۔"

"وہ ذرا سی بجلی نہیں تھی ۔ اور اب بس کرو۔ ٹھیک ہے میں نے غلط کیا پر مجھے کیا پتہ تھا کہ وہ اتنا ڈراؤنا ہو گا۔ " وہ چڑ کر بولی۔ ایش مسکراہٹ دباتا سر جھٹک گیا۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔

منیبہ بیگم دعا کے پاس سونے کیلیے آ گئی تھیں ۔ وہ کب سے اپنی بیٹی سے دور تھیں۔ اب اس سے ڈھیروں باتیں کرنا چاہتی تھیں۔ دعا پیپر کی تیاری مکمل کر کے آئی تو ان کے سات لیٹ کر کندھے پر سر رکھ لیا۔ منیبہ اس کے سر میں انگلیاں چلانے لگی۔ 

"ماما یہ جو ہمارا نیا کزن آیا ہے یہ کس تایا کا بیٹا ہے؟" اس نے پرسوچ انداز میں پوچھا ۔ 

"ان کا نام مصطفیٰ تھا۔ وہ تمہارے بابا کے سگے بھائی نہیں تھے۔ " ماما کی بات سن کر اس کا دل سکڑ کر پھیلا تھا۔ حیان مصطفیٰ ۔ سب کچھ کہانی کی طرح ہو رہا تھا ۔ 

"ان کی وفات کیسے ہوئی ؟" اس نے اپنے لہجے کا ارتعاش چھپاتے کہا۔ منیبہ کچھ پل چپ رہیں۔ 

"بتائیں نا ماما۔" اس نے چہرہ اونچا کر کے انہیں دیکھا۔ 

"ایک حادثے میں مارے گئے تھے وہ " 

"کیسا حادثہ؟"

"مجھے زیادہ نہیں معلوم ۔ ان کی بیوی بھی اس حادثے میں ماری گئی تھی۔ وہ یہاں نہیں رہتے تھے ہمیں دیر سے خبر ملی۔ تب تک حیان کہیں جا چکا تھا۔ " دعا کو حیان کی آنکھوں میں ابھرنے والی تکلیف یاد آئی۔ اس کی آنکھیں بھی بھر آئیں۔ اس کے دکھ پر وہ کیسے دکھی نہ ہوتی۔ 

"ان کا قتل ہو تھا ماما؟" اس نے کچھ پل توقف کے بعد پوچھا۔ منیبہ حیران ہوئی۔ 

"تمہیں کس نے بتایا؟" ان کے لہجے نے دعا کو بتا دیا ایسا ہی ہوا تھا۔ دعا کا دل ڈوبا۔ تو حیان اپنے ماں باپ کے قتل کا بدلہ لینے یہاں آیا تھا۔ جیسا کہانی میں ہوا تھا۔ اگر آگے بھی کہانی کے مطابق ہی ہوتا تو اس کے والدین کے قتل میں اس کے چچا شریک تھے۔ کیا اس کے بابا... اس نے گھبرکر نفی میں سر ہلایا۔ اس کے بابا تو اتنے اچھے تو وہ کبھی کچھ غلط کر ہی نہیں سکتے تھے اسے یقین تھا۔ تو کیا پھر تایا جان نے ایسا کیا ؟ ایک اور سوال ابھرا۔ لیکن وہ ان کے بارے میں بھی ایسا نہیں سوچ سکتی تھی ۔ اس نے دعا کی مزید ایسا کچھ نہ ہو جو سٹوری میں ہوا تھا۔ لیکن ساری رات اضطراب نے اسے جگائے رکھا۔ اگر اس کے بابا یا تایا میں سے کوئی مجرم ہوا تو کیا وہ حیان کو ان سے بدلہ لیتے دیکھے گی یا اسے روک پائے گی ۔ اسے حیان کو روکنا تھا۔ وہ مزید کچھ ایسا نہیں ہونے دینا چاہتی تھی جو کہانی میں ہوا تھا کیونکہ کہانی کا اختتام شہزادے کی موت کے ساتھ ہوا تھا۔ وہ حقیقت میں۔ یہ بالکل بھی برداشت نہیں کر سکتی تھی۔ اس نے ایک لمبی سانس اندر کھینچی۔ فجر کی نماز کے بعد وہ بیک گارڈن میں آ گئی۔ یہاں سے ایک گلاس ڈور کے پار وہ کاریڈور نظر آتا تھا جس میں حیان کا کمرہ تھا۔ وہ جب بھی چلتے ہوئے اس طرف رخ کرتی تو حیان کے کمرے پر نظر جاتی۔ کچھ دیر ہی گزری تھی کہ وہ اسے کمرے سے نکلتا نظر آیا۔ وہ بے اختیار اس کی طرف بڑھی۔ 

"حیان" وہ اپنے کمرے سے نکل کر کچھ قدم ہی آگے بڑھا تھا کہ پیچھے سے دعا کی آواز آئی۔ وہ رک کر پلٹا۔ دعا اس کی آنکھوں میں دیکھتی اس کی قریب آئی۔ حیان کو ایسے لگا جیسے وہ اس کا راز جان چکی ہے۔ اگلے ہی پل اس کا یہ خدشہ درست ثابت ہو چکا تھا۔ 

"تمہارے بابا کا قتل ہوا تھا نا؟ اور تم ان کا بدلہ لینے یہاں آئے ہو؟" اس نے مدھم آواز میں پوچھا تھا۔ حیان کا سر گھوما۔ وہ کیسے جان گئی تھی۔ وہ کیسے جان سکتی تھی۔ کیا وہ کوئی جادوگرنی تھی۔ اسے جادوگروں پر یقین نہیں تھا لیکن اب اسے اپنا نظریہ بدلتا محسوس ہو رہا تھا۔ وہ منہ کھولے اسے یک ٹک دیکھ رہا تھا۔ 

"بولو؟" دعا نے بھنویں اچکائیں۔ 

"کیا کہہ رہی ہو مجھے سمجھ نہیں آ رہا؟" اس نے بہت مہارت سے اپنے تاثرات پر قابو پا لیا تھا۔ دعا نے چہرہ پھیر کر سانس خارج کی۔

"انجان مت بنو۔ تم جانتے ہو میں کیا کہہ رہی ہوں۔"

"میرے پیرنٹس ایک حادثے میں فوت ہوئے تھے۔ میں ان کا بدلہ کس سے لوں گا؟ خدا کی امانت تھے وہ۔ خدا نے لے لیے۔ میں کیا کر سکتا ہوں۔ " وہ کچھ ایسی معصومیت سے بولا کہ دعا کو اس کا ہر لفظ سچا لگا۔ 

"تم نے ایسا کیوں کہا؟" حیان نے سینے پر بازو باندھے۔ دعا نے یہاں وہاں دیکھا۔ 

"کہیں تم کوئی جادوگرنی تو نہیں ؟" اس نے زہن میں کلبلاتا سوال پوچھ ہی لیا۔ دعا نے تعجب سے اسے گھورا۔ 

"جادو گرنیوں کے چہرے میرے جیسے ہوتے ہیں کیا؟ " اس نے معصومیت سے پوچھا۔ حیان کچھ پل خاموشی سے اسے دیکھتا رہا پھر سر جھٹک کر مسکراہٹ دباتا آگے بڑھ گیا۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پیپرز کے بعد یونی میں ایک ایونٹ تھا جس میں تہامی اور نیناں کو کمپیئرنگ کرنے کیلیے چنا گیا تھا۔ پچھلی بار بھی انہوں نے کی تھی اور بہت پسند کی گئی تھی۔ اس دفعہ نیناں سے پوچھے بغیر اس کا نام ڈال دیا گیا تھا۔ تہامی سے اس کے بارے میں پوچھا گیا تو اس نے اس کے لیے بھی ہاں کہہ دی اور اب نیناں یہ خبر سن کر ہتھے سے اکھڑ گئی تھی ۔ آجکل اس کی تہامی سے سرد جنگ چل رہی تھی۔ وہ کیسے دشمن کے ساتھ مل کر کام کر سکتی تھی۔ 

"مجھے کچھ نہیں پتہ۔ میں نہیں کرنے والی کمپئرنگ تمہارے ساتھ ۔ میری طرف سے انکار سمجھو " وہ قطعیت سے بولی تھی۔ 

"تم کرو گی۔ " تہامی نے سکون سے کہا۔ 

"زبردستی ہے کیا؟"

"نہیں ایک آفر ہے اگر تم میرے ساتھ کمپئرنگ کرو تو میں شادی سے انکار کر دوں گا " وہ بولا تو نیناں کی آنکھیں چمکیں۔ 

"واقعی؟"

"ہاں ۔" اس نے نچلا لب دبایا۔ 

"ٹھیک ہے۔ مجھے منظور ہے۔" وہ اچھلی۔ تہامی اسے دیکھ کر رہ گیا۔ پتہ نہیں اس میں ایسی کیا خامی تھی کہ وہ اس سے شادی کرنے پر راضی ہی نہیں ہو رہی تھی۔ اس نے بھی ارادہ کر لیا تھا اسے اپنی محبت میں گرفتار کرنے کا اور اسے امید تھی کہ اس کے ساتھ تیاری کی دوران اسے کچھ وقت مل جائے گا۔ بس اسے اس وقت کو ٹھیک طرح سے استعمال کرنا تھا ۔ نیناں خوش خوش اپنے ڈیپارٹمنٹ آئی تو اسے دعا کلاس میں جاتی نظر آئی۔ 

"دعا۔" وہ اسے پکارتی اس کے ساتھ ہو لی۔ 

"کیا ہوا؟ بڑی خوش لگ رہی ہو؟" دعا نے اسے چہرہ موڑ کر دیکھا۔ 

"تہامی نے مجھے ایک آفر کی ہے۔ اس نے کہا اگر میں اس کے ساتھ کمپئرنگ کروں تو وہ شادی سے انکار کر دے گا۔" نیناں نے چہک کر کہا۔ دعا اس کی بیوقوفی پر مسکرا دی لیکن کہا کچھ نہیں ۔ 

"اور تم کچھ کھوئی کھوئی سی لگ رہی ہو۔ کہیں دیدارِ یار تو نہیں کر لیا؟" نیناں نے شرارت سے مسکرا کر پوچھا۔ دعا کے لبوں پر گہری مسکراہٹ نمودار ہوئی۔ پھر وہ سنجیدہ ہو گئی۔ 

"بہت حیران کن واقعہ ہوا ہے۔" 

"کیا؟" نیناں جو اس کے چہرے کے اتار چڑھاؤ دیکھ رہی تھی تجسس سے بولی۔ وہ دونوں کلاس میں پہنچ چکی تھیں اور اب اپنی سیٹوں کی طرف بڑھ رہی تھیں ۔ 

"حیان میرا کزن ہے۔ "

"واٹ؟" نیناں چیخی۔ ارد گرد کے لوگ رک کر اسے دیکھنے لگے۔ وہ زبان دانتوں میں دبا گئی۔ 

"وہ میرے تایا کا بیٹا ہے اور ان کا نام مصطفیٰ تھا۔ " اس نے بتایا تو نیناں کی آنکھیں مزید پھیلیں۔ 

"مجھے پہلے اس بارے میں نہیں پتہ تھا۔ ماما نے بتایا ان کا اور ان کی بیوی کا جوانی میں قتل ہو گیا تھا۔ تب سے حیان غائب تھا۔ "

"اوہ یہ تو کہانی سے ملتا جلتا ہے۔ " وہ سنسی خیز لہجے میں بولی تھی۔ 

"اسی بات نے تو مجھے مضطرب کر دیا۔ مجھے لگا اس کے والد کے قتل میں کہیں تایا یا میرے بابا کا ہاتھ نہ ہو۔ وہ کہیں بدلہ لینے واپس نہ آیا ہو۔ میں نے اس سے پوچھا لیکن اس نے ٹھیک طرح سے جواب نہیں دیا "اس نے منہ بنایا 

"کیا مطلب کیا جواب دیا؟" 

"میں نے پوچھا کہ وہ کسی مقصد کے تحت آیا ہے تو کہتا کہیں تمہیں یہ تو نہیں لگ رہا میں تمہارے پیچھے آیا ہوں " دعا نے ناک چڑھاتے کہا۔ نیناں ہنس پڑی۔ 

"کہاں شہزادہ تھا جو تمہاری اتنی عزت کرتا تھا اور یہ تو بغیر کوئی لحاظ کیے بات سیدھی منہ پر مارتا ہے۔ " نیناں نے ہنسنے کے دوران کہا۔ دعا نے خود کو کوسا۔ اسے نیناں کو یہ بالکل بھی نہیں بتانا چاہیے تھا۔ لیکن اب کیا ہو سکتا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Post a Comment

0 Comments