Chragh e Drakhshan
by dua fatima
Chragh e Drakhshan Part 2
"تم کہاں تھی دعا اور فون بھی نہیں اٹھا رہی تھی ؟" وہ ہاسٹل کی طرف آ رہی تھی جب اسے نیناں راستے میں ملی۔ اسے یاد آیا اس کا فون تو اس کی ساتھ ہی گرا تھا۔ جانے چھت پر ہی گرا تھا یا نیچے۔ اس نے پہلے فون ڈھونڈنے کا سوچا اور کیمسٹری کے ڈیپارٹمنٹ کی طرف بڑھ گئی۔
"جواب کیوں نہیں دے رہی تم؟" نیناں نے جھلا کر کہا۔
"کچھ دیر صبر کر لو گی ؟" دعا نے رک کر اسے دیکھا۔ نیناں دانت پیس کر خاموش ہو گئی۔ دعا نے پہلے نیچے دیکھا لیکن وہاں اس کا فون نہیں تھا۔ وہ اوپر آ گئی۔ نیناں بھی اس کے ساتھ تھی۔
"اب یہاں کونسا چلا کاٹنا ہے " نیناں اکتائی سی کہہ رہی تھی جب دعا کی نظر اپنے فون پر پڑی جس ک سکرین ٹوٹی ہوئی تھی۔ وہ تیزی سے آگے بڑھی اور فون اٹھا کر چیک کیا۔
"تمہارا فون یہاں کیا کر رہا ہے؟" نیناں نے تعجب سے پوچھا۔ دعا نے گہری سانس لی۔
"آبرو نے مجھے یہاں بلایا تھا ۔ اور مجھے یہاں سے نیچے گرا دیا۔" اس نے بے تاثر لہجے میں بتایا۔
"واٹ؟" نیناں کی چیخ بے ساختہ تھی۔
"وہی ہے جس نے مجھ پر قاتلانہ حملے کروائے۔" وہ غصے سے بولی۔ نیناں ساکت سی اسے دیکھ رہی تھی۔
"اگر میں نے اسے روکنے کیلیے کچھ نہ کیا تو وہ دوبارہ مجھ پر حملہ کرے گی۔ "وہ کہہ کر آگے بڑھ گئی۔ نیناں بھی ہوش میں آ کر اس کے پیچھے لپکی تھی۔
"اس نے واقعی تمہیں دوسری طرف نیچے گرا دیا ؟" دعا کے ساتھ قدم ملانے کی کوشش کرتے نیناں بے یقینی سے پوچھ رہی تھی۔ دعا غصے میں بہت تیزی سے سیڑھیاں اتر رہی تھی ۔
"ہاں "
"کیسے؟ اور تم بچ کیسے گئی؟ "
"حیان!" دعا کے چہرے پر ایک خوبصورت مسکراہٹ ابھری۔ غصہ کہیں غائب ہو گیا۔ نیناں نے منہ کھولے اسے دیکھا۔
"اس نے تمہیں بچایا ؟ کیسے ؟"
"یہ کیسے کیسے کرنا بند بھی کرو۔" دعا نے چڑ کر کہا۔
"یار بتاؤ نا۔ کیا تم اس پر گر گئی تھی یا اس نے کیچ کر لیا تھا؟"
"مجھے نہیں پتہ۔ میں بے ہوش ہو گئی تھی۔" دعا نے جان چھڑائی۔
"یار ہو نہ ہو وہی تمہارا سول میٹ ہے۔ وہ پہلے ایک تمہیں ایک خواب یا کسی فینٹسی ورلڈ میں شہزادے کے روپ میں ملا پھر خود سے محبت کروا کر حقیقت میں سامنے آ گیا۔ "نیناں نے تجزیہ نگاری کی۔
"کاش ایسا ہی ہو۔ وہ شہزادہ ہو اور وہ میرا ہو۔" دعا نے دل میں خواہش کی۔
کچھ دیر بعد وہ دونوں آبرو کے کمرے میں پہنچ چکی تھیں۔ آبرو اپنے بستر پر بیٹھی کسی کو کال ملانے کی کوشش کر رہی تھی۔ اس کے ساتھ رہنے والی لڑکی کی دوستیں وہاں آئی ہوئی تھیں۔ دعا نے کسی کی بھی پروا نہیں کی اور رکھ کر ایک تھپڑ اسے رسید کیا۔ ایک لمحے کو ہر طرف سناٹا چھا گیا۔ وہ بستر پر کروٹ کے بل گری اور اس کے کمرے میں موجود سب لڑکیاں ساکت رہ گئی تھیں۔
"مجھے اندازہ نہیں تھا تم ایک شخص کیلیے اتنا گر جاؤ گی۔ " دعا کرائی تھی۔ آبرو نے سلگتی نگاہوں سے اسے دیکھا تھا۔
"میں بہن تھی تمہاری لیکن تم نے ہمارے بیچ سارے رشتے ختم کر دیے۔ اب مجھ سے یہ توقع مت رکھنا کہ میں تمہارے ظلم چپ کر کے برداشت کروں گی۔ اگر اب تم نے مجھے قتل کرنے کی کوشش کی تو پورا پورا بدلہ لوں گی۔ اگر میں نہ رہی تو میری دوستیں بدلہ لیں گی۔ یہ نہ سمجھنا کہ تم بچ جاؤ گی " دعا سرد آواز میں کہتی اس کے کمرے سے مکمل گئی ۔ نیناں بھی اس کے پیچھے ہو لی۔ جبکہ آبرو کے کمرے میں موجود لڑکیاں اب حیرت سے اس سے پوچھ رہی تھیں کہ وہ کیا کہہ گئی تھی۔ اور اس کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسد مرزا جزیل کو وہ جگہ دینے کیلیے تیار ہو گیا تھا جو اس نے ابدال کیلیے رکھی ہوئی تھی۔ اس نے اس جگہ کے مالک سے پہلے ہی دستخط لے لیے تھے اب جزیل کے پاس آ کر اس سے دستخط لے رہا تھا۔ جزیل اسے تیس کروڑ روپے بینک کے ذریعے ٹرانسفر کروا چکا تھا۔ اسے فون پر نوٹیفیکیشن مل گیا تھا۔ خوشی سے اس کی مسکراہٹ رک ہی نہیں رہی تھی۔ زمین کے کاغذات جزیل کے حوالے کر کے وہ اس کے آفس سے نکلا اور جھومتا ہوا اپنی گاڑی تک آیا۔ جزیل کے آفس سے وہ سیدھا بینک گیا تھا۔ اور وہاں اسے جو خبر ملی تھی وہ ناقابل یقین تھی۔ اس کے اکاؤنٹ میں تیس کروڑ روپے نہیں آئے تھے۔ اسے لگا بیک والوں کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہو گی۔ اس نے فون نکال کر انہیں میسج دکھایا ۔
"یہ کسی اور نے میسج سینڈ کیا ہے آپ کو " کاؤنٹر کے پیچھے کھڑے لڑکے نے بتایا۔ وہ سمجھ نہ سکا یہ کیا ہو رہا تھا۔ لڑکے نے اسے بتایا کہ کوئی ہیکر ایسا کر سکتا ہے۔ آپ کو نوٹیفکیشن ملے گا کہ آپ کے اکاؤنٹ میں پیسے ٹرانسفر ہوئے ہیں لیکن اصل میں نہیں ہوئے ہوتے۔ ہیکر صرف آپ کو میسج بھیجتا ہے۔ وہ اور بھی نجانے کیا کیا کہہ رہا تھا لیکن اسد مرزا کی سماعت نے کام کرنا بند کر دیا تھا۔ وہ دھڑم سے زمین پر گرا تھا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
شاہ میر کی حالت اب پہلے سے کافی بہتر تھی۔ وہ دعا کے منع کرنے کے باوجود اسے یونیورسٹی چھوڑنے آیا تھا۔ اسے گیٹ پر ہی اجالا مل گئی تھی۔ اسے دیکھ کر شاہ میر کی آنکھیں چمک اٹھی تھیں جو دعا نے بھی محسوس کی تھیں۔
"کیا ہوا بھائی؟ کوئی ہفت کلیم دیکھ لیا ہے جو اتنے خوش ہو رہے ہیں " اجالا کی طرف بڑھتے دعا نے شرارت سے پوچھا۔ وہ گڑبڑا گیا۔
"نہیں تو۔ تم کیوں ایسا کہہ رہی ہو؟" وہ گردن پر ہاتھ پھیرتا بولا۔
"آپ کی آنکھوں کی چمک یکدم بڑھی ہے۔ " دعا نے جتا کر کہا اور اجالا کی طرف متوجہ ہوئی۔
"ہائے کیسی ہو؟"
"میں ٹھیک تم سناؤ۔" دعا نے مسکرا کر اس سے ہاتھ ملایا۔
"میں بھی ٹھیک۔ آپ کیسے ہیں۔" اجالا شاہ میر کی طرف متوجہ ہوئی تو اس کے دل کی دھڑکنیں بڑھیں۔
"بہتر ہوں اب۔" وہ ہاتھ پیچھے باندھے اور سر ذرا سا جھکائے بھنویں اچکائے اسے دیکھ رہا تھا۔ اس کی آنکھوں کی چمک اجالا بھی محسوس کر گئی تھی۔
" لیکن ابھی آپ کو سفر نہیں کرنا چاہیے تھا " وہ اسے کیا بتاتا کہ اسے دیکھنے کیلیے ہی تو یہ سفر کیا تھا سو خاموش رہا۔ اجالا دعا کے ساتھ اندر چلی گئی۔ وہ وہیں کھڑا اجالا کے سحر کو اپنے ارد گرد محسوس کرتا رہا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسد مرزا کو ہوش آیا تو وہ ہاسپٹل کے ایک کمرے میں موجود تھا ۔ اسے اپنا نقصان یاد آیا تو دل کیا چیخ چیخ کر روئے۔
"میں تمہیں چھوڑوں گا نہیں جزیل ذکریا۔ " وہ بڑبڑا رہا تھا جب اس کی نظر جزیل پر پڑی۔ وہ اس کے دائیں طرف ایک کرسی پر بیٹھا تھا۔ اسد حیرت سے آنکھیں پھاڑے اسے دیکھنے لگا۔ اسے دھوکہ دینے کے بعد وہ کیسے دھڑلے سے اس کے سامنے یوں سکون سے بیٹھ سکتا تھا۔
"یو... یو باسٹرڈ! تم نے مجھے دھوکہ دیا۔ " وہ چیختے ہوئے اٹھا بیٹھا۔
"جیسے تم نے تو کبھی کسی کو دھوکہ نہیں دیا " جزیل نے ٹانگ سے ٹانگ اتاری ۔ اسد نے گڑبڑا کر یہاں وہاں دیکھا۔
"میں... میں تمہارے حلق میں ہاتھ ڈال کر پیسے نکلواؤں گا یاد رکھنا " وہ غرایا۔ جزیل مسکرایا۔
"یہ تو مشکل ہے۔ البتہ ایک اور کام ہو سکتا ہے "اس کی بات پر وہ چونکا۔
"کیا ؟"اس نے بے اختیار پوچھا۔ جزیل نے آگے کو جھک کر گھٹنے پر کہنیاں رکھیں۔
"تم اپنا نقصان مجھ سے نہیں ابدال بابر سے پورا کرو گے " اس نے ٹھہر ٹھہر کر کہا۔ اسد مرزا کو اس کی بات سمجھنے میں چند پل لگے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دعا ایک لیکچر لے کر ڈیپارٹمنٹ سے باہر آ رہی تھی جب اسے کسی نے ایک جھٹکے سے ایک طرف کھینچا تھا۔ اس کی ہلکی سی چیخ نکلی لیکن طلال نے اس کے منہ پر ہاتھ جما دیا ۔ اس کی کمر درخت سے لگی تھی اور وہ حیرت اور غصے سے طلال کو دیکھ رہی تھی جو خباثت سے مسکرا رہا تھا۔ اس نے شرر بار نظروں سے اسے گھورتے اس کی پسلی میں مکا مارا تو وہ کراہ کر پیچھے ہٹا۔
"ہاؤ ڈئر یو۔" وہ بیگ کندھے سے اتار کر اسے مارنے لگی۔ طلال سے اسے سنبھالنا مشکل ہو گیا ۔
"یہ کیا ہو رہا ہے " اس آواز پر دعا تھمی پھر کرنٹ کھا کر پلٹی۔ وہ حیان تھا۔
"کیا یہ آپ کو ہراس کر رہا تھا ؟" اس نے طلال کی طرف اشارہ کرتے پوچھا۔ دعا کا دل کیا سر اثبات میں ہلایا اور حیان طلال کو ایک زوردار پھینٹی لگائے۔
"اوئے۔ زیادہ ماما بننے کی ضرورت نہیں۔ فیانسی ہے یہ میری " طلال نے نتھنے پھلا کر کہا۔ حیان شہد رنگ آنکھیں دعا کی طرف موڑیں ۔ وہ آنکھیں میچ گئی۔ وہ یہ بات کبھی بھی حیان کو نہیں بتانا چاہتی تھی۔ اس نے دل ہی دل میں طلال کو گالیاں دیں۔
"آپ کی چوائس کافی بری ہے ۔" حیان ناک سکوڑ کر آگے بڑھ گیا۔ اسے کچھ بہت برا لگا تھا لیکن اس نے ظاہر نہیں ہونے دیا تھا البتہ طلال پر تبصرہ کر کے اپنی اس بیڈ فیلنگ کو تھوڑا کم کرنے کی کوشش ضرور کی تھی۔ دعا نے منہ کھولے اسے جاتے دیکھا تھا۔ کیسا ری ایکشن دے کر گیا تھا وہ۔ کیا وہ اس کیلیے جیلس ہوا تھا یا نہیں۔ اسے سمجھ نہیں آئی تھی۔ اس نے مڑ کر طلال کو دیکھا جو غصے سے حیان کو دیکھ رہا تھا۔ دعا نے اپنا منصوبہ آگے بڑھانے کا سوچا جو اس نے پے در پے حملوں کی وجہ سے روک دیا تھا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"ہاں تو کوئی پسند آیا " ثانی گل سے ویڈیو کال پر بات کرتے جزیل نے صوفے کی پشت سے ٹیک لگائی۔ ثانی نے زبان دانتوں تلے دباتے کچھ سوچا اور بیک کیمرہ سیٹ کیا تو جزیل کو ایش نظر آیا۔ اس وقت ایش اور ثانی ایک کیفے میں کچھ دوستوں کے ساتھ موجود تھے۔ ثانی کو کال آئی تو وہ ان سے کچھ دور آ گئی تھی۔
"اچھا ہے۔ پھر کروں بات اس سے۔" جزیل نے کچھ دیر ایش کو غور سے دیکھا پھر کہا۔
"میں خود کر لوں گی " ثانی نے منہ بنایا۔
"بالکل نہیں ۔ اس سے میں ہی بات کروں گا اور چیک کروں گا کہ وہ تمہارے قابل ہے یا نہیں۔ تمہیں اس کا سوالی بننے کی ضرورت نہیں ۔" جزیل کے کہنے پر وہ مسکرائی۔
"ٹھیک ہے جیسے آپ چاہیں۔" وہ کال کاٹ کر واپس آئی تو سب کافی پیتے خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ ان میں چار لڑکے تھے اور دو لڑکیاں۔ دو لڑکے ایش کے دوست تھے۔ اور لڑکیاں ثانی کی بھی دوستیں تھیں۔
"کیا کہہ رہے تھے بھائی؟" ایک لڑکی نے اس سے پوچھا۔ ایش نے بھی اس کی طرف دیکھا۔ ثانی نے دل ہی دل میں اس سے معذرت کی۔ وہ شادی سے بچنے کیلیے اسے استعمال کر چکی تھی۔
"بس ویسے ہی خیریت پوچھنی تھی " اس نے بات ٹال دی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حیان بائیک تیزی سے بھگاتا جزیل کے گھر کی طرف جا رہا تھا جب اسے ایک کال موصول ہوئی۔ اس نے ایک ہاتھ سے بائیک کا ہینڈل سنبھالتے دوسرے ہاتھ سے بلیوٹوتھ جیب سے نکال کر کان میں لگائی ۔
"ہمم بولو۔" دوسری طرف سے مانوس آواز سن کر اس نے کہا۔
"سر! پراسیکیوٹر ذوالکفل کو اغوا کر لیا گیا ہے۔ " یہ خبر غیر متوقع نہیں تھی۔ اس نے گہری سانس لی تھی۔ اور فون نکال کر بائیک روکے بنا جزیل کو کال ملائی۔
"ذوالکفل کو جعفر نے اغوا کر لیا ہے۔ " اس نے اطلاع دی۔
"میں پتہ کرواتا ہوں اس کی لوکیشن۔ اور بندے بھیجتا ہوں۔ " جزیل نے تشویش سے کہا۔
"مجھے بھی اس کی لوکیشن سینڈ کرنا۔ "
"کوئی ضرورت نہیں ۔ لڑکوں کی کمی نہیں ہے اس کام کیلیے۔ "
"لیکن وہ میری وجہ سے خطرے میں گیا ہے۔ میں پیچھے نہیں رہ سکتا۔ " حیان نے دوٹوک لہجے میں کہا۔ جزیل پھر انکار نہیں کر سکا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ذوالکفل کے ہاتھ پیچھے بندھے تھے اور دو لوگ اسے گھسیٹتے جعفر کے سامنے لائے تھے۔ ایک نے اس کے کندھے پر دباؤ ڈال کر اسے گھٹنوں کے بل بٹھایا۔ جعفر طنزیہ اور حقارت آمیز نظروں سے اسے گھور رہا تھا ۔ جواباً ذوالکفل بھی ڈھٹائی کا مظاہرہ کر رہا تھا۔
"مجھے سمجھ نہیں آتی تم لوگوں کے پاس اتنی طاقت نہیں کہ میرا مقابلہ کر سکو۔ مجھ سے پنگا لے کر کیا ملتا ہے آخر؟ موت ؟ کیا موت اتنی پیاری ہے تم لوگوں کو؟" وہ حیرت سے پوچھ رہا تھا۔ ذوالکفل استہزائیہ مسکرایا ۔
"ہاں۔ شہادت کی تمنا ہر مسلمان کو رکھنی چاہیے۔ " اس نے کندھے اچکائے۔ جعفر نے نے بھنویں اچکائیں۔
"چلو بھائی اسے شہید کرنے کی سعادت حاصل کرو" جعفر نے اپنے ساتھ کھڑے شخص کو اشارہ کیا۔
"تم کتنے لوگوں کو مارو گے۔ تمہارا اصل دشمن تو کوئی اور ہے۔ میں مارا گیا تو میری جگہ کوئی اور پراسیکیوٹر لے لے گا۔" ذوالکفل نے اسے زہنی جھٹکا دیا۔ اس کی بات پر یقین نہ کرنا اس کے بس میں ہی نہیں تھا۔ اسے وہ رپورٹر ابھی تک نہیں بھولا تھا جو بھرے مجمعے میں اس کی بے عزتی کر گیا تھا۔ جس شخص نے اس رپورٹر کو بھیجا تھا وہی اس پراسیکیوٹر کے پیچھے تھا۔
"ٹھہرو۔ اسے تہ خانے میں لے جاؤ اور اس شخص کا نام اگلواؤ "
"مجھے نہیں پتہ اس کا نام۔ اگر پتہ ہوتا تو بھی نہ بتاتا۔ تم مجھے مار دو۔" ذوالکفل نے سکون سے کہا۔ جعفر نے غصے میں آ کر ایک ٹھوکر اس کی پسلی میں لگائیں وہ کراہ کر ایک طرف کو ہوا لیکن جلادوں نے اسے پکڑ کر پھر سیدھا کر دیا۔ اس بار جعفر نے اس کے منہ پر پاؤں مارنے کیلیے اٹھایا لیکن اچانک کوئی طوفان کی طرح اس پر نازل ہوا اور اس کی اٹھی ٹانگ پر ایسی ٹھوکر ماری کہ وہ گھوم کر زمین پر گر پڑا۔ جعفر کے آدمی ایک پل کو سن ہوئے اور اس طرف دیکھا جہاں ایک لڑکا ماسک پہنے ذوالکفل کے ارد گرد کھڑے جلادوں کی طرف متوجہ ہو چکا تھا۔ اس کے اسلحہ بردار ساتھی ان سب پر پسٹلز تان چکے تھے اور انہیں اپنی بندوقیں سیدھی کرنے کا موقع بھی نہیں ملا تھا۔ کچھ ہی لمحوں میں ذوالکفل اپنے ارد گرد کھڑے جلادوں سے چھٹکارا پا چکا تھا اور وہ سب جعفر کے آدمیوں پر نشانہ باندھے پیچھے ہٹنے لگے تھے۔ جلد ہی وہ گیٹ کے قریب پہنچ گئے۔
"منہ کیا دیکھ رہے ہو۔ چلاؤ گولی " جعفر چلایا۔ اس کے آدمیوں نے بندوقیں سیدھی کر کے ٹریگرز دبا دیے۔ وہ لوگ خطرے کی زد سے بس نکلنے ہی والے تھے لیکن اس سے پہلے ایک گولی حیان کے بازو میں پیوست ہو گئی۔ اس نے تیزی سے کراہ دبائی اور گیٹ سے نکل گیا۔ اس کے دونوں گارڈز بھی اس مہم میں اس کے ساتھ تھے۔ ان کا کام صرف حیان کو پروٹیکٹ کرنا تھا لیکن قسمت میں اس کیلیے جو تکلیف لکھی تھی وہ اسے اس سے بچا نہیں سکے تھے۔ وہ سب اپنی گاڑیوں میں آ کر بیٹھے تو حمزہ کو تب پتہ چلا وہ زخمی ہے۔
"یہ ... یہ کب لگی؟ آپ نے بتایا کیوں نہیں ہمیں؟ اندر ہے یا نکل گئی ہے؟" اس نے متوحش زدہ سا ہو کر پوچھا تو کامل بھی اس کی طرف متوجہ ہو گیا۔
"نکل گئی ہے۔ بس چھو کر گزری ہے " حیان کی تکلیف اپنی جگہ لیکن جزیل سر جو ان کا حال کرنے والے تھے وہ انہیں سخت پریشان کر گیا تھا۔ حیان ان کی حالت سمجھ کر سکون سے سیٹ کی پشت سے ٹیک لگا گیا ۔
"یہ وجہ کافی ہے تم دونوں کو فارغ کرنے کیلیے۔ کیا خیال ہے " اس نے محظوظ انداز میں کہا۔
"سر! رحم کریں کیوں ہماری نوکریوں کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔ " حمزہ نے روہانسا ہو کر کہا۔
"چلو ایک ڈیل کر لیتے ہیں۔ تم دونوں آئیندہ سے میرا حکم مانو گے جزیل کا نہیں ۔ اور میں اسے اس بارے میں نہیں بتاؤں گا " حیان نے کہا تو دونوں نے نفی میں سر ہلایا۔
"ہم جزیل سر کے ساتھ غداری نہیں کر سکتے " ان کا ایک ہی جواب تھا۔ حیان نے دانت پیسے ۔
"میں اس کا دشمن ہوں کیا؟"
"لیکن ہمیں پتہ ہے آپ الٹا حکم ہی دیں گے۔ اس سے بہتر ہے ہم ان کا غصہ برداشت کر لیں ۔ " کامل نے پختہ لہجے میں کہا تھا۔ حیان کا دل کیا اس کا منہ توڑ دے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دعا فون کان سے لگائے تہامی سے اپنے منصوبے کے بارے میں بات کرنے کے ساتھ ساتھ کمرے میں ٹہل بھی رہی تھی۔
"یہ میرے بس سے تو باہر کی بات ہے۔ ہو سکتا ہے ثانی گل کچھ کر سکے " تہامی کی آواز سپیکر سے گونج رہی تھی۔
"تو پھر کرو اس سے بات بلکہ مجھ سے بات کروا دو اس کی۔ ملوانا تو ہے نہیں تم نے۔"
"اچھا ٹھہرو میں اسے کال کرتا ہوں۔ تم خاموش رہنا۔ " تہامی نے اس سے کال ڈسکونیکٹ کیے بنا ثانی کو کال ملائی ۔ تیسری بیل پر اس نے اٹھا لی۔ اس وقت وہ فری تھی اور لالی پاپ سے انصاف کر رہی تھی۔
"ہاں بولو کیا ہے؟" وہ بولی ایسے ہی تھی جیسے بہت مصروف ہو۔
"تمہاری دلچسپی کا ایک کام ہے میرے پاس " تہامی نے کہا تو اس کی بھنویں اوپر کو اٹھیں۔
"کیا؟"
"سائیکو کو ڈرانا ہے۔"
"وہی جس نے دعا کے ساتھ پنگا لیا تھا ؟"
"ہاں۔ لیکن اب دعا کہ فیملی کی طرف سے اس کا پروپوزل ایکسیپٹ ہو چکا ہے۔ اور اس نے دعا کو بلیک میل کر کے سب کے سامنے یہ بھی کہلوا دیا ہے کہ وہ اسے پسند کرتی ہے۔ "
"ہاؤ ڈئیر ہی۔ میری کلائنٹ کے ساتھ وہ ایسا کیسے کر سکتا ہے۔ تم نے پہلے مجھے سب کیوں نہیں بتایا۔" ثانی نے غصے سے اٹھ بیٹھی۔ خاموشی سے ان کی باتیں سنتی دعا نے نچلا لب دانتوں میں دبایا۔
"غصہ بعد میں کر لینا پہلے میری بات سنو۔ "
"نہیں تم مجھے یہ بتاؤ یہ دعا بلیک میل کیسے ہو گئی " ثانی اٹھ کر ٹہلنے لگی۔
"اپنی دوست کی وجہ سے۔ طلال نے نیناں کو اغوا کر لیا تھا۔ " تہامی کا لہجہ سخت ہوا۔ اس وجہ سے تو وہ بھی طلال پر سخت غصے تھا۔ اس نے دعا سے کہا بھی تھا وہ نیناں کی حفاظت کرے گا لیکن یہ حقیقت تھی کہ وہ ایسا نہیں کر سکتا تھا۔ وہ ہر وقت اس کے ساتھ نہیں رہ سکتا تھا ۔ شادی سے پہلے تو بالکل بھی نہیں۔
"اس کی تو..." ثانی کو طلال جیسے لوگوں پر سخت غصہ آتا تھا۔
"اب وہ چاہتی ہے کہ یا تو طلال خود اس سے شادی سے انکار کرے یا اسے کوئی بہانہ ملے انکار کرنے کا جیسے کہ اسے کوئی مینٹل پرابلم ہو اور دعا کو جب پتہ چلے تو وہ انکار کر دے۔ "
"پلان تو اچھا ہے۔ ویسے کس قسم کا مینٹل پرابلم؟"ثانی نے دلچسپی سے پوچھا۔
"طلال کو جن بھوتوں سے ڈر لگتا ہے۔ وہ اسی پر کام کر رہی ہے۔ دو تین دفعہ اسے ڈرا چکی ہے۔ اب اسے لوگوں کے سامنے پاگل ثابت کرنا ہے لیکن اسے تھوڑا مزید ڈرانا ہو گا۔ دعا چاہتی ہے کہ اس کے کمرے میں کسی دیوار پر کسی جن یا چڑیل کی تصویر بنے ایک دو لمحے کیلیے "
"ہمم یہ مشکل تو ہے پر میں کر لوں گی۔ " ثانی نے ایش کے بارے میں سوچتے کہا تھا۔ وہ کس کام کا تھا اگر یہ بھی نہ کر پاتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حیان جزیل کے گھر جانے کی بجائے فارم ہاؤس پر آ گیا تھا۔ اس نے جزیل کو گولی لگنے کے بارے میں نہیں بتایا اور خود ہی مرہم پٹی کر لی۔ فرحان جب کافی لے کر اس کے کمرے داخل ہو رہا تھا تو وہ ایک لمحہ پہلے ہی خون میں بھیگی روئیاں ڈسٹبن میں پھینکا چکا تھا۔
"آپ ٹھیک نہیں لگ رہے مجھے " اس کے چہرے پر درد کے باعث تھکاوٹ کے اثرات تھے۔ فرحان غور سے اسے دیکھ رہا تھا۔
"بس تھکاوٹ ہو گئی ہے۔ کافی پیوں گا تو ٹھیک ہو جاؤں گا۔ تم جاؤ اور جو کام کہا تھا اسے پورا کرو " حیان کافی کا کپ اٹھاتے کہا۔
"مجھے خون کی بو آ رہی ہے اور آپ بائیں ہاتھ سے کپ کیوں اٹھا رہے ہیں۔" فرحان نے شکی نظروں سے اسے دیکھا۔
"خدا کا واسطہ ہے یہ اپنی جیمز بانڈ جیسی صلاحیتیں میرے سامنے مت آزمایا کرو۔ جاؤ۔" وہ اکتا کر بولا تو فرحان واقعی ہی اپنی جیمز بانڈ جیسی صلاحیتیں سلاتا کمرے سے بھاگ گیا۔ حیان نے مسکراتے کافی کا کپ اٹھایا اور ہلکے ہلکے سپ لیتے دیوار پر لگی ایل سی ڈی آن کی۔ ایک نیوز چینل پر خبریں چل رہی تھیں۔ وہ چینل بدلنے والا تھا کہ ایک خبر پر رک گیا۔ ابدال بابر کو عدالت نے نا اہل کر دیا تھا لیکن وہ ضمانت پر رہا ہو گیا تھا اور سپریم کورٹ میں اپنی نااہلی پر اپیل بھی دائر کر دی تھی۔ حیان نے گہری سانس لی۔ ان مجرموں کو قانون کے ذریعے پکڑنا اتنا مشکل کیوں تھا۔ وہ دانت پیستا سوچنے لگا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابدال ابھی ایک جھٹکے سے سنبھل نہیں پایا تھا کہ ایک اور دکھ اس کا منتظر تھا۔ پراپرٹی ڈیلر نے اسے دھوکہ دیا تھا ۔ وہ ایک دن پہلے ہی اس سے ملا تھا اور بتایا تھا کہ ایک پارٹی اس جگہ کی ڈیمانڈ کر رہی ہے جسے وہ خریدنا چاہتا ہے۔ اگر اس نے جلدی نہ خریدی تو وہ اسے بیچ دے گا۔ ابدال نے آدھے پیسے کل اسے ٹرانسفر کروائے تھے اور آدھے آج صبح ۔ اس نے زمین کے کاغذات پر دستخط بھی کیے تھے لیکن اسے اب پتہ چلا تھا کہ وہ کاغذات جعلی تھے۔ اور اس زمیں پر کسی اور کا قبضہ پہلے سے ہو چکا تھا۔ اس کا دماغ گھوم گیا تھا۔ اس نے دھاڑنا چاہا لیکن آواز گلے میں ہی پھنس کر رہ گئی۔ اسے کھانسی آنے لگی۔ سرتاج بیگم نے دوڑ کر اسے پانی کا گلاس پیش کیا۔ دو تین گھونٹ پینے کے بعد اسے کچھ آرام آیا۔
"کیا ہوا ہے؟" سرتاج نے پوچھا ۔
"میں لٹ گیا۔ میرا بہت بڑا نقصان ہو گیا " ابدال کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ اس نے طبیعت ذرا سنبھلنے کے بعد سیکرٹری کو کال ملائی اور اسے حکم دیا کہ اسد مرزا جہاں بھی اسے ڈھونڈ کر لاؤ لیکن اسد مرزا بھی بچہ نہیں تھا۔ وہ دوپہر کی فلائٹ سے ملک چھوڑ چکا تھا ۔
ابدال کو یہ خبر ملی تو اس کا دل کیا سب کچھ رہا نہس کر دے۔ چیزیں اس کے ہاتھ سے نکلتی جا رہی تھیں۔ کوئی تھا جو اسے برباد کرنے پر تلا ہوا تھا اور وہ نہیں جانتا تھا کہ وہ کون تھا ۔ وہ یکدم خود کو اس بھری دنیا میں اکیلا محسوس کرنے لگا تھا ۔ اسے بے اختیار اپنے بیٹے کی یاد آئی تھی جسے وہ دنیا کی بھیڑ میں چھوڑ آیا تھا۔ تب وہ خود جوان تھا۔ اسے اولاد کی قدر معلوم نہیں تھی لیکن اب وہ سوچ رہا تھا کہ اگر اس کا بیٹا اس کی پاس ہوتا تو اس کا دایاں بازو ہوتا۔ وہ سیاست میں اس کا جانشین بن سکتا تھا اور اس کے دشمنوں سے لڑ سکتا تھا لیکن اب یہ ممکن نہیں تھا۔ اس نے ایک دفعہ اپنے بیٹے کو ڈھونڈنے کی کوشش کی تھی لیکن وہ اسے نہیں ملا تھا۔ نجانے وہ کہاں تھا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
طلال سارا دن آوارہ گردی کر کے گھر آیا تو کھانا کھائے بغیر کمرے میں آ گیا۔ وہ بے ڈھنگے انداز میں بستر پر پڑا تھا جب کمرہ اچانک تاریکی میں ڈوب گیا۔ وہ حیرت سے اٹھ بیٹھا۔ ایسا تو پہلے کبھی نہیں ہوا تھا کہ ان کے گھر کی لائٹ جائے۔ شاید خراب ہو گئی ہو۔ اس نے سوچا اور جیب سے فون نکالنے لگا تبھی اسے اپنے سامنے والی دیوار پر ایک خوفناک صورت نظر آئی۔ پہلے اسے لگا اس کا وہم ہے لیکن وہ تصویر ختم ہو کر دوبارہ دیوار پر نمودار ہوئی تو اس کی بے ساختہ چیخ نکلی گئی۔ ایک اور کریہہ صورت دوسری دیوار پر نظر آئی تو وہ اٹھ کر دروازے کی طرف بھاگا۔ چیختے ہوئے وہ نیچے گرا لیکن خوفناک تصویریں بڑھتی گئیں۔ اور اس کی چیخیں بھی لیکن کمرہ ساؤنڈ پروف تھا۔ باہر سے کوئی بھی اس کی مدد کو نہیں آیا۔ وہ کانپتے جسم کے ساتھ دروازہ کھول کر کمرے سے باہر بھاگا۔ ملازموں تک اس کی چیخیں پہنچی تو وہ دہل کر اس کی طرف لپکے۔ جب تک اس کے والدین آئے وہ سب کے سامنے تماشہ بن چکا تھا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"یہ دیکھنا ذرا ایش!" ثانی نے ایش کے قریب آتے اسے اپنے فون کی سکرین دکھائی جہاں فیس بک کی ایک پوسٹ دکھائی دے رہی تھی۔ اس میں ایک ایسی عمارت دکھائی گئی تھی جس کے بارے میں لوگوں کا کہنا تھا کہ اس میں بھوت رہتے ہیں۔ وہ عمارت لندن میں ہی تھی اور ثانی گل جہاں ٹھہری ہوئی تھی وہاں سے زیادہ دور نہیں تھی۔
"ہاں یہ سچ ہے۔ یہاں واقع بھوت رہتے ہیں۔" ایش نے کہا تو وہ پرجوش ہوئی۔
"کیوں نا ہم اس عمارت کی سیر کرنے چلیں " ایش نے اسے ایسے دیکھا جیسے اس کی عقل پر ماتم کر رہا ہو۔
"کیوں اپنی جان کی دشمن بن رہی ہو۔ اپنا نہیں تو میرا ہی خیال کر لو " اس نے سراپا احتجاج بنتے کہا پھر ثانی کی گھوری سے نظریں بچاتا ادھر ادھر دیکھنے لگا۔
"تم بھوتوں سے ڈر رہے ہو؟"
"ایسی بات نہیں ہے۔ وہ کوئی عام بھوت نہیں ہے۔ ایک پورا گینگ رہتا ہے اس عمارت میں اور ان کے پاس بلیک پاورز ہیں۔ اگر تم ان کے بارے میں جاننا چاہتی ہو تو مجھ سے پوچھ لو "
"نہیں مجھے ان کے پاس جا کر ایکسپیرینس کرنا ہے۔ میں نہیں ڈرتی کالی طاقتوں سے ۔ " ثانی نے کندھے اکڑا کر کہا۔
"مجھے بھی مروائے گی یہ لڑکی۔" وہ بڑبڑاتے ہوئے کرسی کا رخ پھیر گیا۔
"چلو نہ چلتے ہیں۔" وہ ایسے کہہ رہی تھی جیسے دو گلیوں کے فاصلے پر کسی پارک جانا ہو۔
"کیا ابھی ہی چلنا ہے؟" ایش نے جل کر پوچھا۔
"کہتے ہو تو چلے جاتے ہیں۔" وہ دل جلانے والی مسکراہٹ اس کی طرف پھینکتی بولی۔ ایش کا دل جلا یا نہیں البتہ وہ کچھ پل کیلیے مبہوت ہوا تھا۔
"ارے نہیں بھئی۔ کل پرسوں جانے کا سوچیں گے۔"
"سوچنا نہیں بلکہ جانا ہے اور خبردار اگر تم نے بھائی کو کسی طرح انفارم کرنے کی کوشش بھی کی تو " وہ رعب جماتی اپنے کمپیوٹر کے سامنے جا بیٹھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
طلال ایک بینچ پر بیٹھا فون استعمال کر رہا تھا جبکہ کوئی دھپ سے اس کے پاس آ بیٹھا۔ اس نے سہم کر بائیں جانب دیکھا۔ تہامی دانت نکالتا اسے ہی دیکھ رہا تھا۔ طلال کے ماتھے پر بل پڑے۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ سخت کہتا تہامی بول پڑا۔
"غصہ مت ہونا طلال۔ میں تم سے ایک ضروری بات کرنے آیا ہوں۔ اس میں تمہارا ہی فائدہ ہے۔" وہ بہت ہمدردی اور لگاوٹ سے کہہ رہا تھا۔ طلال کے منہ کے زاویے بگڑے۔
"مجھے نہیں ضرورت کسی فائدے کی۔ چلتے بنو یہاں سے " وہ حقارت سے بولا۔
"چلا جاؤں گا لیکن تمہیں وہ ضروری بات بتائے بنا نہیں رہ سکتا۔ " وہ کہہ رہا تھا جب طلال اٹھ کر وہاں سے جانے لگا۔
"دعا جادوگرنی ہے۔" تہامی کے الفاظ اس کے قدم زنجیر کر گئے۔ اس نے مڑ کر پھٹی پھٹی نگاہوں سے تہامی کو دیکھا۔
"اس کے پاس بہت سے جن مؤکل ہیں۔ وہ ان سے کچھ بھی کروا سکتی ہے۔ وہ نیناں کو بتا رہی تھی کہ کل اس نے تمہارے کمرے میں جن بھیجے تھے۔ میں نے چھپ کر اس کی باتیں سنیں۔ انسانیت کے ناطے میرا فرض تھا تمہیں حقیقت سے آگاہ کرنا۔ اب آگے تمہاری مرضی۔ چاہے اس جادوگرنی سے شادی کر کے ساری زندگی جہنم بنا لو یا ابھی سے اس سے پیچھا چھڑا لو ۔" تہامی نے سکون سے کہا اور اٹھ کر چلا گیا۔ طلال کئی پل ساکت سا کھڑا رہ گیا تھا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
طلال اور تہامی کی گفتگو دعا اور نیناں نے بھی سنی تھی۔ جب تہامی طلال سے بات کر رہا تھا تو اس کی جیب میں پڑے فون پر کال چل رہی تھی۔
"کیا لگتا ہے طلال پیچھے ہٹ جائے گا اب ؟" نیناں نے کال بند کرتے کہا تھا ۔
"پچاس فیصد امکان ہے۔ اگر اسے تہامی کی بات پر یقین نہ آیا تو مجھے ایک اور ضرب لگانی پڑے گی۔ " دعا اٹھ کھڑی ہوئی۔
"کہاں جا رہی ہو؟"
"دوسرے جہان نہیں جا رہی۔ اب مجھے کوئی خطرہ نہیں سو تمہیں میرے ساتھ چپکے رہنے کی بھی کوئی ضرورت نہیں ۔" دعا ناک سکوڑ کر کہتی آگے بڑھ گئی۔ نیناں منہ کھولے صدمے سے اسے جاتا دیکھتی رہ گئی ۔ دعا کا رخ ہاسپٹل کی طرف تھا۔ نیناں کو سمجھ آ گئی اس کے گریز کی کیا وجہ تھی۔
"تو یوں کہو نا شہزادے سے ملنے جانا ہے۔" وہ مسکرا دی تھی۔
دعا ہاسپٹل میں پہنچی تو سوچا کیا اسے واقعی حیان سے ملنا چاہیے یا نہیں ۔ وہ تذبذب میں مبتلا دھیرے سے قدم اٹھاتی حیان کے آفس کے طرف جا رہی تھی۔ ہاسٹل لے کاریڈورز میں خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ کسی کمرے سے کچھ لوگوں کی باتیں کرنے کی آواز آ رہی تھی۔ اس ہاسپٹل میں کم لوگ ہی آتے تھے اس لیے زیادہ رش نہیں تھا۔ وہ حیان کے آفس کے سامنے آئی تو نظر دروازے کے اوپر لگی تختی پر پڑی جہاں نیوروسرجن بازل مصطفیٰ لکھا ہوا تھا۔ اس کی آنکھیں حیرت سے بڑی ہوئیں ۔ شہزادے کے باپ کا نام بھی مصطفیٰ تھا۔ بہت سی چیزیں فینٹسی سے میچ کر رہی تھیں اور یہ ٹھیک نہیں تھا۔ وہ خدشوں میں گرنے لگی۔ اسے دروازہ ناک کرنا بھی یاد نہ رہا ۔ تھوڑی دیر گزری تو دروازہ خود ہی کھل گیا۔ اس نے چونک کر نظریں اٹھائیں ۔ سامنے حیان کھڑا تھا، جینز شرٹ پر اوور آل پہنے وہ ہمیشہ کی طرح گریس فل لگ رہا تھا۔ وہ دعا کو اپنے سامنے دیکھ کر حیران ہوا تھا ۔ دعا نے پلکیں جھپکتے یہاں وہاں دیکھا۔
"مجھے آپ سے کچھ کہنا تھا۔" اس نے آہستہ آواز میں کہا۔ حیان نے دروازہ کھول کر اسے اندر آنے کا اشارہ کیا اور اپنے میز کی طرف مڑ گیا۔ دعا اس کے پیچھے آئی۔ حیان چئیر پر بیٹھتا کرسی کی پشت سے ٹیک لگا گیا۔ اس کی سوالیہ نظریں دعا پر جمی تھیں۔
"تھینکس آپ نے میری بہت مدد کی " وہ اس کے سامنے کرسی پر بیٹھتے بولی تھی۔
"بس یہی کہنا تھا ؟" اس نے بھنویں اچکائیں۔ وہ نروس ہوئی ۔
"ہاں اور یہ کہ اگر کبھی موقع ملا تو میں آپ کے احسان کا بدلہ اتارنے کی کوشش ضرور کروں گی پھر بھی آپ کا احسان بہت بڑا ہے ۔ میں شاید زندگی بھر نہ اتار سکوں " وہ نظریں جھکائے اپنے ہاتھوں کو دیکھ رہی تھی اور حیان اس کی جھکی آنکھوں کی خوبصورتی کو غور سے دیکھ رہا تھا ۔ بات کا اختتام کر کے اس نے نظریں اوپر اٹھائیں تو اسے اپنی طرف دیکھتے پا کر دل تیزی سے دھڑکا لیکن حیان نے نظریں نہیں ہٹائیں۔
"چھوٹا بڑا کچھ نہیں ہوتا۔ بس اپنی بات پر پکی رہیے گا۔ ہو سکتا ہے مجھے کبھی آپ سے فیور لینے کی ضرورت پڑ جائے۔ " وہ کندھے اچکا کر بولا۔ دعا نے ناسمجھی سے سر ہلا دیا۔ نجانے ایسا کوئی موقع آنا بھی تھا یا نہیں لیکن وہ ایسے کہہ رہا تھا جیسے اسے یقین ہو وہ اس سے فیور ضرور لے گا۔ وہ توقع کر رہی تھی کہ وہ کہے گا نہیں اس کی ضرورت نہیں ۔ آپ کی جان بچانا میرا فرض تھا وغیرہ وغیرہ لیکن اس کا مزاج شہزادے سے مختلف شو ہو رہا تھا۔ شکر تھا ایک چیز تو مختلف ہوئی۔ اسے کچھ سکون ہوا تھا ۔
"آپ کی کزن کا کیا ری ایکشن تھا؟" حیان نے پوچھا تو وہ ذرا سا مسکرائی ۔
"وہ شاکڈ رہ گئی تھی۔ مجھے نہیں لگتا اب وہ مجھ پر دوبارہ حملہ کروا سکے گی۔ میں نے دھمکیاں دی ہیں اسے۔"
"پھر بھی آپ کو احتیاط کرنی چاہیے۔ وہ کچھ اور بھی کر سکتی ہے۔" وہ ایک فائل چیک کرتا عام سے انداز میں کہہ رہا تھا۔ لیکن دعا کو اس کا وہ انداز پھر بھی خاص لگ رہا تھا اور کمرے کے دروازے کے باہر کھڑا جزیل اس کی باتوں سے پہچان گیا تھا کہ وہ دعا تھی۔ اس کے دل نے ایک بیٹ مس کی۔ اس کا دل کیا ایک لمحے کی تاخیر کیے بنا اندر چلا جائے لیکن دعا اسے بابر ہاؤس میں دیکھ چکی تھی ۔ وہ حیان کے حوالے سے اس کے سامنے نہیں آ سکتا تھا۔وہ حیان کو جھاڑ پلانے آیا تھا۔ اسے کچھ دیر پہلے پتہ چلا تھا حیان کو گولی لگی تھی لیکن حیان نے اسے نہیں بتایا تھا۔ کچھ پل بعد دعا آفس سے باہر آئی تو وہ ایک طرف ہو گیا۔ دعا مخالف سمت چل پڑی۔ وہ کچھ پل اسے جاتا دیکھتا رہا پھر آفس میں داخل ہو گیا۔
"ارے تم یہاں؟" حیان نے فون سے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا۔
"تمہاری ہمت کیسے ہوئی مجھ سے کچھ چھپانے کی۔" وہ جارحانہ انداز میں اس کی طرف بڑھا۔ حیان ایسے ہی سکون سے بیٹھا رہا ۔
"بندے کی کوئی اپنی پرائیویسی ہوتی ہے۔ " اس کے جواب پر جزیل کے ماتھے پر پڑے بل گہرے ہوئے۔
"گولی کا زخم بھی تمہاری پرائیویسی میں شامل ہے؟" وہ بیلٹ پر ہاتھ ٹکاتا اسے گھور رہا تھا۔
"ہر وہ بات جو انسان دوسرے کو نہ بتانا چاہے پرائویسی کہلاتی ہے۔" اس نے پرائویسی کی تعریف کر کے اسے مزید جلایا۔
"تمہیں لگا تھا مجھے پتہ نہیں چلے گا اگر تم نہیں بتاؤ گے تو..."
"کوشش تو کی تھی پھر جو خدا کو منظور ۔"
"اچھا دکھاؤ کہاں لگی ہے۔" وہ اس سے باتوں میں نہیں جیت سکتا تھا۔
"سوری میں مصروف ہوں۔ " وہ فون کی طرف متوجہ ہوا۔ جزیل اس کی طرف بڑھا تو وہ اٹھ کھڑا ہوا۔
"کیا ہو گیا ہے۔ یہ ہاسپٹل ہے۔ کسی نے دیکھ لیا مجھے شرٹ اتارتے ہوئے تو سو باتیں بنیں گیں۔" وہ منہ بنا کر بولا۔ جزیل گہری سانس لے کر رہ گیا۔ وہ باتوں کی پروا تو کرنے والا نہیں تھا بس اس وقت اسے اپنا زخم نہیں دکھانا چاہتا تھا۔ ایک ضد جو وہ باندھ لیتا تھا اس سے پیچھے نہیں ہٹتا تھا ۔
"زیادہ گہرا نہیں ہے زخم۔ دیکھو تمہارے سامنے صحیح سالم کھڑا ہوں۔ " حیان نے اسے تسلی دی۔
"اب تین گارڈز جھیلنا " جزیل سخت لہجے میں کہہ کر چلا گیا ۔
"کیا یار!" اس نے پیچھے سے احتجاج بلند کیا لیکن جزیل نے قدم نہیں روکے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
0 Comments