Header Ads Widget

Chragh e drakhshan Epi 6 - by dua fatima

 

Chragh e Drakhshan

by dua fatima

Chragh e Drakhshan Part 2

Episode 6

باب دوئم : محافظ 

(فلیش بیک….)

دعا پر جب پہلا حملہ ہوا تھا تو ابدال بابر کو کچھ لمحے ہی لگے تھے سمجھنے میں کہ اس میں کس کا ہاتھ تھا۔ وہ غصے سے بھرا اپنے کمرے میں آیا تھا سرتاج بیگم آئینے کے سامنے کھڑیں چہرے پر کوئی کریم ملنے میں مصروف تھیں۔

"تم نے دعا پر حملہ کروایا؟" ابدال نے سخت لہجے میں پوچھا۔ سرتاج تائی کچھ پل خاموشی سے انہیں دیکھتی رہی پھر گہری سانس لے کر چہرہ موڑا۔ 

"ہاں"

"کیوں کیا تم نے ایسا؟ " وہ غرائے۔ سرتاج بیگم نے نظریں چرائیں۔ 

" آبرو چاہتی تھی وہ مر جائے اور میں اس کی کوئی بات نہیں ٹال سکتی" انہوں نے کندھے اچکائے۔ 

"تمہارا دماغ تو نہیں پاگل ہو گیا۔ تمہیں پتہ ہے کہ میں اسے اپنے سیاسی کیریر کیلیے استعمال کرنا چاہتا ہوں۔ پھر بھی تم نے اپنی مرضی کی۔ کیوں؟"

"میں بتا چکی ہوں آبرو کیلیے میں کچھ بھی کر سکتی ہوں۔ اور آپ کو اس کی ذرا پروا نہیں ۔ "

"مجھے اس کی پروا ہے اسی لیے اس کی شادی طلال سے نہیں کروا رہا۔ "وہ جتا کر بولے۔ سرتاج بیگم چونکیں یا چونکنے کی اداکاری کی۔ 

"طلال ہماری بیٹی کے قابل نہیں ہے۔ وہ ایک عیاش اور بے غیرت مرد ہے۔ میں مر کر بھی اسے اپنی بیٹی نہ دوں۔ دعا کی وجہ سے میرا کام بن رہا ہے تو تم کیوں اسے خراب کرنے پر تلی ہوئی ہو " وہ اسے ملامتی نظروں سے دیکھ رہے تھے جیسے اس کی عقل پر تاسف کر رہے ہوں ۔ جبکہ سرتاج سوچ رہی تھی کہ اگلہ دفعہ دعا پر حملہ کرنے کے بعد کیا وجہ پیش کرے گی۔

(فلیش بیک اینڈڈ)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دعا نیناں اور اجالا کینٹین میں ایک میز کے گرد بیٹھی تھیں جب تہامی ان کے قریب آیا۔ 

"ہیلو۔ کیا میں یہاں بیٹھ سکتا ہوں۔ " اگر اجالا ان کے ساتھ نہ بیٹھی ہوتی تو بنا اجازت کے ہی بیٹھ جاتا۔ نیناں نے تعجب سے اسے دیکھا۔ 

"تم کب سے اتنے مہذب ہو گئے؟" 

"مطلب بیٹھ جاؤں " وہ دعا کی طرف دیکھ کر پوچھتا بیٹھ گیا۔ 

"کتنی جلدی میری خوش فہمی دور کر دی۔ شکریہ تمہارا۔ " نیناں نے ناک چڑھائی۔ وہ مسکراہٹ دبا گیا۔ 

"ویلکم۔ کیسا ہوا تم لوگوں کا پیپر؟" 

"تھیک ہو گیا تھا۔" نیناں نے جواب دینے کی زحمت نہیں کی تو دعا نے کہا۔ 

"تم لوگوں کو ایک سیکرٹ بتاؤں۔" وہ آگے کو ہوتا رازداری سے بولا۔ دعا نے بھنویں اچکائیں جبکہ نیناں گڑبڑا کر اسے گھورنے لگی۔ 

"نیناں تم نے انہیں بتایا نہیں تمہارا رشتہ آیا ہے۔ " تہامی نے کمینی مسکراہٹ لبوں پر سجاتے بتایا۔ 

"کیا!....واقعی؟"دعا نے حیرت سے نیناں کو دیکھا۔ 

"میں نے انکار کر دیا تھا۔ اس لیے تمہیں بتانا مناسب نہیں سمجھا۔ " نیناں نے کندھے اچکا کر کہا۔ 

"تمہارے انکار کی پروا کس کو ہے ۔ انکل آنٹی جلد تمہیں قائل کر لیں گے۔ " تہامی نے اسے چڑایا۔ دعا نے آنکھیں چھوٹی کر کے اسے دیکھا۔ 

"اور وہ رشتہ تم نے بھیجا؟" اس نے پوچھا۔ 

"بالکل بھی نہیں ۔ میرے پیرنٹس نے بس اطلاع دی تھی کہ تمہاری شادی نیناں کے ساتھ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ میں لاکھ چلایا لیکن میری کسی نے نہیں سنی۔ بالآخر میں نے ہتھیار ڈال دیے۔ " وہ مظلومیت سے کہہ رہا تھا اور نیناں دانت پیس رہی تھی۔ 

"فکر مت کرو تہامی۔ میں ہوں نا۔ میں انکار کروں گی۔ تم پر ظلم بالکل بھی نہیں ہونے دوں گی۔ " اس نے چبا چبا کر کہا تھا۔ 

"اب ایسی بھی بات نہیں۔ تم اتنی بری بھی نہیں ۔ اور پھر کسی نہ کسی کو تو تم سے شادی کرنی ہی ہے۔ میں یہ قربانی دینے کیلیے تیار ہوں۔ " اس نے سینے پر ہاتھ رکھا۔ دعا اور اجالا ان دونوں کو محظوظ سا مسکراتی دیکھ رہی تھیں۔ 

"تمہاری قربانی نہیں چاہیے۔ اپنے پاس رکھو۔ " نیناں نے نخوت سے کہا تھا ۔ 

"مت بھولو یہ فیصلہ ہم پر نہیں ہے۔ ہمارے بڑے فیصلہ کر چکے ہیں۔ "

"اگر تم میرا ساتھ دو تو ہم مل کر کوئی حل نکال لیں گے۔ "نیناں ٹیک چھوڑ کر آگے ہوئی۔ تہامی نے کچھ لمحے اسے پرسوچ نظروں سے دیکھا اور پھر کرسی کی پشت سے ٹیک لگاتا نفی میں سر ہلا گیا۔ 

"مجھے ابا سے جوتے نہیں کھانے۔ " اس کے جواب پر نیناں کو غصہ آیا۔ 

"اگر مجھ سے شادی ہو گئی تمہاری تو ہر روز جوتے کھاؤ گے مجھ سے۔ " اس کی بات پر وہ استہزائیہ مسکراتے ہلکی سی سانس خارج کر گیا۔ 

"لیٹس سی۔ " وہ کہہ کر اٹھ کھڑا ہوا۔ 

"کیا مطلب لیٹس سی۔ کیا تم مجھے جوتے مارنے کا ارادہ رکھتے ہو؟" نیناں بھی اس کے انداز پر تلملاتی اٹھی۔ 

"کیا ہو گیا ہے۔ میں معصوم سا لڑکا ہوں۔ جلاد نہیں ہوں تمہاری طرح ۔ " تہامی نے اس کی عقل پر تاسف سے کہا۔ نیناں گہری سانس لے کر کرسی پر بیٹھی۔ اسے تہامی کے خلاف کچھ بھی ایسا نہیں مل رہا تھا جسے بنیاد بنا کر وہ انکار کرتی۔ 

"یار تہامی میں کیا برائی ہے۔ مان جاؤ۔ " دعا نے اسے قائل کرنا چاہا۔ اس نے منہ بنایا۔ 

"یہ ابھی کتنا ستاتا ہے مجھے۔  شادی کے بعد تو پتہ نہیں کیا حال کرے گا۔ "

"مطلب تم اس سے خوفزدہ ہو؟" دعا نے مسکراہٹ دباتے اس کی غیرت جگائی۔ 

"بالکل بھی نہیں ۔ میں بس اپنی میرڈ لائف سکون سے گزارنا چاہتا ہوں۔ سارا دن لڑتے نہیں ۔" اس کی بات بھی ٹھیک تھی۔ دعا سر ہلا گئی۔ کچھ دیر بعد اسے ڈرائیور کی جانب سے میسج موصول ہوا تو وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔ اجالا اور نیناں بھی اسے گیٹ تک چھوڑنے آئیں۔ وہ اسے ایک پل بھی اکیلا چھوڑنا نہیں چاہتی تھیں۔ اب وہ انہیں کیا بتاتی اس پر گھر میں بھی یک بار حملہ ہو چکا تھا ۔ وہ ابھی گیٹ کے اندر ہی تھی کہ اس کی نظر سامنے سے آتے حیان پر پڑی۔ بلیک جینز شرٹ پر جیکٹ پہنے، سر پر پی کیپ پہنے وہ مگن سا چلتا کئی لڑکیوں کو اپنی طرف متوجہ کر گیا تھا۔ ان میں سے ایک دعا بھی تھی۔ وہ نہ ہوتی اگر وہ اسے شہزادے کے روپ میں اپنی محبت کا پابند نہ کر چکا ہوتا۔ اس کے قدم رکے۔ دھڑکن تھمی۔ نظریں اسی پر جم کر رہ گئیں۔ نیناں اور اجالا نے پہلے تعجب سے اسے دیکھا پھر اس کی نظروں کا تعاقب کیا۔ حیان کو دیکھ کر نیناں دعا کی کیفیت سمجھ گئی اور گہری سانس لی البتہ اجالا نے ناسمجھی سے پھر دعا کو دیکھا ۔ اسی دوران حیان کی نظر دعا پر پڑی تو اس کے چہرے پر شناسائی کا تاثر ابھرا۔ وہ اسی سے ملنے یونیورسٹی آیا تھا۔ کچھ ہی قدم چلنے کے بعد وہ اس کے عین سامنے کھڑا تھا۔ دعا اب بھی ارد گرد سے بیگانہ اسے دیکھ رہی تھی۔ 

"کیا ہم بات کر سکتے ہیں؟" اس نے ایک نظر نیناں اور اجالا پر ڈالتے کہا۔ دعا ہوش میں آئی۔ اس کے الفاظ زہن میں ایک یاد کو جگا گئے۔ آنکھوں میں نمی چمکی۔ وہ خاموشی سے سر اثبات میں ہلا گئی۔ کچھ دیر بعد وہ دونوں ایک الگ تھلگ گوشے میں ایک بینچ پر کچھ فاصلے سے بیٹھے تھے۔ 

"آپ کی جان کو سخت خطرہ ہے۔" حیان سامنے دیکھتا کہہ رہا تھا۔ 

"جانتی ہوں " دعا نے گہری سانس لی۔ 

"کوئی بندوبست کیا پھر؟" اس نے چہرہ موڑ کر دعا کو دیکھا۔ 

"ہاں۔ تایا جان نے نئی کمپنی کے سیکیورٹی گارڈز ہائر کیے ہیں۔ میرے ساتھ یہاں تک بھی دو گارڈز آئے ہیں " وہ نجانے اسے کیوں بتا رہی تھی اور وہ نجانے کیوں پوچھ رہا تھا۔ کیا وہ صرف اس کیلیے ہی اتنا فکر مند تھا یا سب کیلیے ایسے ہی فکر مند ہوتا تھا۔ وہ جاننا چاہتی تھی۔ 

"اگر حملہ آور ان گارڈز میں شامل ہو جائے پھر؟" حیان نے خدشہ ظاہر کیا۔ دعا نے تھوک نگلا۔ بالکل ایسے ہی جیسے کہانی میں جب وہ حویلی میں تھی اور اس کے کمرے کے دروازے کے باہر کھڑے ایک محافظ میں حملہ آور شامل تھا۔ 

"تو پھر دوسرا محافظ مجھے بچا لے گا۔ "وہ کھوئے کھوئے سے لہجے میں بولی۔ حیان نے بھنویں اچکا کر اسے دیکھا۔ 

"آپ صورتحال کی سنگینی کو سمجھ نہیں رہیں دعا!" حیان نے ہاتھ جھلایا۔ اس کے اسے دعا کہہ کر پکارنے پر اس کی دھڑکنیں منتشر ہوئیں۔ 

"آپ پر کہیں سے بھی حملہ ہو سکتا ہے۔ آپ کو ضرورت سے زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے۔ ہو سکتا ہے حملہ آور آپ کا کوئی بہت قریبی ہو۔ ایسی صورت میں بچنے کے امکانات بہت کم ہوتے ہیں " وہ تشویش سے کہہ رہا تھا۔ دعا نے حیرت سے اسے دیکھا۔ 

"میرے قریبی لوگوں میں کون مجھے مروانا چاہے گا؟" اس نے بے یقینی سے پوچھا۔ حیان نے کندھے اچکا دیے۔ 

"کوئی بھی ہو سکتا ہے۔ آپ کو ایسے حالات میں اپنے سائے پر بھی بھروسہ نہیں کرنا چاہیے۔ " وہ کہنیوں کو گھٹنوں پر رکھتا آگے کو جھکا۔ 

"میں نے کبھی کسی کا برا نہیں چاہا۔ کوئی وجہ تو ہو حملہ کرنے والے کے پاس " وہ الجھ کر بولی۔ " حیان اس کی بات پر ذرا سا مسکرا دیا۔ 

"قتل کرنے کی وجہ صرف حسد بھی ہو سکتا ہے۔ " اس کی بات پر دعا کے دماغ میں کچھ کلک ہوا۔ آجکل آبرو اس سے سخت ناراض تھی بلکہ وہ اس سے نفرت کرنے لگی تھی لیکن وہ اتنا بڑا قدم نہیں اٹھا سکتی تھی۔ اس نے خالی خالی نگاہوں سے حیان کو دیکھا ۔ وہ اٹھ کھڑا ہوا۔ 

"میرا کام تھا آپ کو خطرے سے آگاہ کرنا۔ اب آپ کا کام ہے اپنے ارد گرد پر گہری نگاہ رکھنا اور اپنی حفاظت یقینی بنانا۔ میں اپنے کسی بھی مریض کے ساتھ برا ہوتا نہیں دیکھ سکتا۔ اپنا خیال رکھیے گا۔ " وہ کہہ کر آگے بڑھ گیا۔ جاتے جاتے اس کی خوشفہمی بھی دور کر گیا۔ وہ اسے بس ایک مریض سمجھ کر اس کی فکر کر رہا تھا۔ اسے کچھ بہت برا لگا تھا۔ وہ شخص جس کیلیے وہ سب کچھ تھی اب صرف ایک مریض تھی۔ لیکن یہ کنفرم تو نہیں تھا کہ وہ شہزادہ ہی ہو۔ اس نے گہری سانس لی اور نم آنکھیں بند کر گئی۔ 

"کیا کہا اس نے۔ " نیناں کی آواز پر اس نے آنکھیں کھولیں۔ اس کے سامنے نیناں اور اجالا کھڑی تھیں۔ 

"کہہ رہا تھا میرے ارد گرد خطرہ موجود ہے۔ "دعا اٹھ کھڑی ہوئی۔ دونوں نے منہ کھول کر اسے دیکھا۔ پھر ایک دوسرے سے نظروں کا تبادلہ کیا ۔ یہ بات حیان کیسے جان پایا تھا۔ 

"اسے کیسے پتہ چلا ؟" نیناں نے حیرت سے پوچھا۔ دعا اسے نہیں بتانا چاہتی تھی کہ گھر میں بھی اس پر حملہ ہوا تھا سو آگے چل پڑی۔ 

"مجھے کیا پتہ؟" 

"کیا مطلب ؟ تم نے پوچھا نہیں اس سے اتنا اہم سوال۔ " نیناں اس کے ہمقدم ہوئی۔ اجالا اس کے دوسری طرف آئی ۔ 

"نہیں۔ یاد نہیں رہا۔ " دعا نے بہانہ بنایا۔ نیناں نے تعجب سے اسے گھورا۔ 

"اسے دیکھ کر پھر بس اسے دیکھنا ہی یاد رہتا ہے تمہیں۔" وہ دھیمی آواز میں بڑابڑائی۔ اس کی بڑبڑاہٹ اجالا نہیں سن پائی تھی۔ اس نے اجالا کو یہ کہا تھا کہ حیان اس کا کزن ہے۔ 

"ویسے وہ تمہاری اتنی فکر کیوں کر رہا ہے؟" نیناں نے اسے آنکھیں چھوٹی کر کے دیکھا۔ 

"کیونکہ میں اس کی مریض رہ چکی ہوں " دعا نے دانت پیس کر کہا۔ نیناں ہنسی۔ 

"ایسا ڈاکٹر ہو تو کون کافر بیمار نہ ہو۔ " اس نے شرارت سے کہتے دعا کو ستایا۔ دعا نے سر جھٹکا۔ دیدار یار کیلیے وہ تو بیمار ہونے سے رہی۔ محبت اپنی جگہ لیکن وہ اپنی صحت پر کوئی کمپرومائز نہیں کر سکتی تھی۔ 

"وہ تمہارے ساتھ بہت اچھا لگ رہا تھا دعا۔ تم طلال سے شادی مت کرو۔ " اجالا نے اچانک کہا تو دعا سٹپٹائی۔ 

"قسمت میں جو لکھا ہوا ہو جائے گا۔ "وہ کہہ کر رفتار تیز کرتی گیٹ پار کر گئی۔ کچھ ہی دور ڈرائیور گاڑی کے ساتھ اس کے انتظار میں کھڑا تھا ۔ گارڈز کی ایک گاڑی بھی ساتھ تھی۔ وہ ارد گرد پر توجہ دینے بنا چلتی گاڑی تک آئی۔ سڑک کے دوسری جانب موجود ایک گاڑی میں جزیل ذکریا بیٹھا تھا۔ وہ اسی کے انتظار میں تھا ۔ ایک نظر اسے دیکھنے کی خواہش اتنی شدت اختیار کر گئی کہ اسے ٹین بوائز کی طرح دعا کی یونیورسٹی کے سامنے آنا پڑا۔ جلد وہ اس کی نظروں سے اوجھل ہو گئی اور گاڑی آگے بڑھ گئی۔ وہ کئی پل وہیں نظریں جمائے رہا ۔ 

اجالا جو مڑنے ہی والی تھی کہ ایک شناسا چہرے نے اسے روک لیا۔ وہ یک ٹک جزیل کو دیکھنے لگی ۔ وہ اس سے بہت دور تھا لیکن وہ اسے پھر بھی پہچان گئی تھی۔ وہ صورت تو اس کے دل و دماغ میں نقش ہو چکی تھی اسے وہ کیسے نہ پہچانتی۔ جزیل کی نظریں ایک پل کو اس سے ملی تھیں پھر وہ آنکھیں پر گلاسز لگاتا گاڑی آگے بڑھا گیا تھا۔ وہ دسوں خیر لمحات بہت مختصر تھے۔ کاش وہ ساری زندگی اسے اپنے سامنے دیکھ سکتی۔ اس کے دل میں خواہش ابھری تھی۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کورٹ میں معمول کا رش تھا۔ جج صاحب اپنی سیٹ پر آ چکے تھے۔ کٹہرے میں ایک شخص کھڑا تھا جس سے پراسیکوٹر ذوالکفل سوالات پوچھ رہا تھا۔ ایک طرف ابدال بابر اپنے وکیل اور سیکرٹری کے ساتھ بیٹھا تھا۔ ہال میں رپورٹرز کی بھی ایک بڑی تعداد تھی۔ سب کا دھیان جرح کی طرف تھا۔ ایسے میں کوئی بہت خاموشی سے پچھلی قطار میں ایک خالی کرسی پر آ بیٹھا۔ چہرے پر گھنی داڑھی اور موٹے فریم کا چشمہ لگائے، سر پر پی کیپ پہنے وہ حیان تھا لیکن اس وقت اپنی اصل شکل میں نہیں تھا۔ پراسیکوٹر سوالات مکمل کرنے کے بعد اپنی جگہ پر بیٹھا تو وکیل میدان میں آیا اور اس نے اپنی لمبی زبان سے ایسے ایسے دلائل دیے کہ سب ماننے پر مجبور ہو گئے ابدال بابر بالکل بے قصور ہے۔ وکیل نے کچھ دیر بعد ڈیٹس آل کہہ کر پراسیکیوٹر کو فاتحانہ نظروں سے دیکھا۔ 

"رئیلی؟" ذوالکفل اٹھ کر اس کے سامنے آیا۔ 

"یس "

"میں ایک بار پھر پوچھتا ہوں۔ از دیٹ آل؟" ذوالکفل نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کچھ اس طرح کہا کہ وکیل کے دل میں خدشے جاگے۔ وہ تو پورا ہوم ورک کر کے آیا تھا۔ ایسا کیا رہ گیا تھا جس پر ذوالکفل گرفت کر سکتا تھا۔ وہ سوچ میں پڑ گیا۔ ابدال نے بھی بے چینی سے پہلو بدلا۔ 

"یس۔" وہ کنفیوز سا کہہ کر اپنی سیٹ پر بیٹھ گیا۔ 

"یور آنر! میرے معزز دوست کہہ چکے ہیں کہ ان کے پاس اپنے کلائنٹ کے حق میں جتنے دلائل تھے وہ سب دے چکے ہیں ۔ اور واقعی دلائل زبردست تھے۔ اس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ مسٹر ابدال بے قصور ہیں لیکن میرے پاس ایک ایسا ثبوت موجود ہے جو ابدال بابر کو قصور وار ثابت کرتا ہے۔ " ذوالکفل نے پر اعتماد لہجے میں کہتے ایک فائل جج کی طرف بڑھائی ۔ 

"یہ ابدال صاحب کی بیٹی کے اکاؤنٹ کی تفصیلات ہیں۔ وہ دو ماہ پہلے ہی اٹھارہ سال کی ہوئی ہیں۔ ظاہر ہے وہ تو کوئی کاروبار یا جاب نہیں کر رہیں ۔ پھر ان کے بیک اکاؤنٹ میں تھری ہنڈرڈ ملین روپیز کیسے آئے۔ " اس کے سوال پر ابدال بابر ایک دفعہ ہل کر رہ گیا تھا۔ وہ بہت جلد یہ پیسے سوس اکاؤنٹ میں بھجوانے والا تھا لیکن اسے دیر ہو چکی تھی۔ وکیل کے پریشانی سے ابدال کو دیکھا۔ یہ بات تو ابدال نے اسے بتائی ہی نہیں تھی۔ اگر بتا دیتا تو وہ اسے بھی کہیں نہ کہیں فٹ کر کے دلائل دے دیتا لیکن وہ اعتراف کر چکا تھا کہ وہ سب کچھ کہہ چکا تھا۔ جج نے وکیل سے پوچھا کہ کیا اس کے پاس ابدال کے دفاع میں کچھ کہنے کیلیے ہے۔ اس کا ذہن خالی تھا تاہم وہ اٹھا اور مرے مرے قدموں سے جج کے سامنے آیا۔ ذوالکفل نے مسکراہٹ دباتے اسے دیکھا تھا۔ وکیل نے کچھ کمزور سے دلائل دیے لیکن ظاہر تھا وہ کافی نہیں تھے۔ جج صاحب نے فیصلہ اگلی تاریخ پر ڈالا اور اٹھ کر چلے گئے۔ ان کے جاتے ہی کورٹ مچھلی بازار بن گیا لیکن اس سے پہلے حیان وہاں سے نکل چکا تھا۔ وہ جانتا تھا اب نیوز چینل پر ابدال کے بارے میں بریکنگ نیوز نشر ہو رہی ہوں گیں۔ وہ مگن سا نچلا لب دانتوں میں کچہری کی راہداریوں سے گزرتا باہر آ گیا تھا۔ اس نے ارد گرد دیکھا تو نظر کامل اور حمزہ پر پڑی ۔ اس نے دانت پر دانت جماتے کچھ سوچا اور ان کی طرف بڑھا۔ وہ دونوں گڑبڑا گئے۔ حمزہ نے تیزی سے گاڑی سٹارٹ کی اور اس کے قریب پہنچنے سے پہلے اڑن چھو ہو گئے۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ ایلیٹ کلاس کی کسی پارٹی کا منظر تھا۔ مرد اور عورتیں قیمتی لباسوں میں ملبوس گروہوں میں کھڑے خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ ان لوگوں میں جزی ذکریا نمایاں لگ رہا تھا جو جوس کے گلاس میں سے ہلکے ہلکے سپ لیتا کسی سے باتیں کرنے کے ساتھ ساتھ ایک شخص پر نظر بھی رکھے ہوئے تھا۔ وہ اسد مرزا تھا ۔ ایک کامیاب پراپرٹی ڈیلر جس کے تعلقات ابدال بابر جیسے عگوں سے تھے۔ اس کے پاس یسے اور طاقت دونوں کی کمی نہیں تھی لیکن پھر بھی وہ زیادہ سے زیادہ پیسے کمانے کے چکر میں رہتا تھا۔ اور اس کی اسی کمزوری کو جزیل استعمال کرنے جا رہا تھا۔ اس کے بارے میں معلومات ثانی نے فراہم کی تھیں۔ پلان حیان کا بنایا ہوا تھا اور اس پر ایکٹ جزیل کر رہا تھا۔ 

کچھ دیر گزری تھی کہ ایک شخص اس کے قریب آیا۔ وہ جس سے باتیں کر رہا تھا معذرت کر کے آنے والے شخص کے ساتھ چل پڑا۔ کچھ دیر بعد وہ اسد مرزا سے اس کا تعارف کروا رہا تھا۔ 

"یہ جزیل ذکریا ہیں۔ ٹاپ ٹین بزنس ٹائیکونز میں شامل ہیں۔ " اسد مرزا نے خوشدلی سے مسکرا کر اس کے ساتھ مصافحہ کیا۔ 

"اور یہ اسد مرزا ہیں۔ ایک کامیاب پراپرٹی ڈیلر ۔" 

"اچھا واقعی؟ مجھے کچھ پراپرٹی خریدنی تھی۔ سوچ رہا تھا کسی پراپرٹی ڈیلر سے رابطہ کروں لیکن آجکل دھوکہ دہی بہت ہو گیا ہے۔ کسی پر اتنی جلدی اعتبار بھی نہیں کیا جا سکتا" جزیل نے کہا تو اسد مرزا کا دل خوشی سے جھوم اٹھا۔ 

"آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں لیکن میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ میں ایک قابل اعتبار پراپرٹی ڈیلر ہوں۔ اگر فریبی ہوتا تو کامیاب پراپرٹی ڈیلر بن ہی نہ سکتا۔ " اسد مرزا نے دلیل دی۔ جزیل نے سر ہلایا۔ 

"مجھے آپ پر یقین ہے۔ "

"پھر ایک میٹنگ رکھ لیتے ہیں۔ میں آپ کو جگہیں دکھا دوں گا جو ان دنوں بکنے کیلیے اویل ایبل ہیں۔ "

"شیور " جزیل مسکرا دیا تھا ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لیکچر شروع ہونے والا تھا۔ لیکچرار کلاس میں داخل ہو چکے تھے۔ وہی وقت تھا جب دعا کو آبرو کی طرف سے ایک میسج ملا تھا اور وہ کوئی لمحہ ضائع کیے بنا اٹھ کر کلاس روم سے بھاگی تھی۔ اس کے چہرے پر خوف تھا۔ اگلے منظر میں وہ سیڑھیاں چڑھ رہی تھی۔ چوتھی منزل جو ٹاپ فلور تھی پر پہنچنے تک اس کا سانس بری طرح پھول چکا تھا لیکن اسے اپنی پروا نہیں تھی۔ اس نے پریشانی سے ارد گرد دیکھا تو چھت کے ایک کنارے پر جہاں جنگلہ نہیں تھا آبرو کھڑی نظر آئی۔ وہ تیزی سے اس کے قریب آئی۔ 

"پاگل لڑکی۔ یہ کیا ہے ؟" وہ غصے اور خوف سے بولی تھی۔ "دیکھ نہیں رہی۔ تمہاری وجہ سے میں خودکشی کرنے جا رہی ہوں۔ " وہ اس پر الزام لگا رہی تھی۔ اس لیے کہ وہ اسے طلال سے بچا رہی تھی۔ 

"میری بات سنو۔ تم جیسا چاہو گی ہو گا۔ یہاں سے پیچھے ہٹو۔" دعا نے اس کی طرف ہاتھ بڑھایا۔ آبرو سرد مہری سے اسے دیکھتی رہی ۔ 

"تم طلال سے منگنی توڑ دو گی اور کبھی ہمارے درمیان نہیں آؤ گی۔ " اس نے حکمیہ لہجے میں کہا۔ 

"آبرو تم سمجھتی کیوں نہیں۔ وہ تمہارے لیے ٹھیک نہیں ہے۔ " دعا نے روہانسے ہوتے کہا۔ وہ ایک اس کے قریب آ چکی تھی ۔ 

"مطلب تم نہیں مانو گی " آبرو نے خطرناک نگاہوں سے اسے دیکھا۔  اگلے ہی پل دعا کو ایک جھٹکا لگا تھا۔ آبرو جان گئی تھی اسے مارے بغیر چارہ نہیں۔ اس نے دعا کو کنارے کی طرف دھکا دیا اور وہ چھت سے نیچے جا گری  ۔ ایک خوفناک چیخ اس کے منہ سے نکلی تھی۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حیان کو قائد اعظم یونیورسٹی کے ساتھ بنے ایک ہاسپٹل میں جاب ملی تھی۔ وہ فری وقت میں تہامی سے ملنے چلا آیا تھا ۔ وہ ایک ڈیپارٹمنٹ کی پچھلی طرف سے گزر رہا تھا جب چوتھی چھت پر اسے دو لڑکیاں نظر آئی تھیں۔ اس نے آنکھیں سکیڑیں۔ وہ پہچان گیا کہ وہ دعا تھی۔ وہ وہاں کیا کر رہی تھی ؟ وہ ابھی یہی سوچ رہا تھا کہ اچانک دوسری لڑکی نے دعا کو جنگلے کی طرف دھکا دیا تھا۔ جنگلہ دو فٹ سے کچھ اوپر تھا سو وہ دعا کو گرنے سے نہ بچا سکا اور وہ فضا میں نیچے کا سفر طے کرنے لگی۔ اگر وہ زمین سے ٹکراتی تو یقیناً اس کی ساری ہڈیاں ٹوٹ جاتیں اور وہ زندہ نہ رہ پاتی۔ حیان ایک پل کیلیے اس حیران کن منظر پر ششدر رہا پھر دیوانہ وار اس کی طرف بڑھا۔ جس پل وہ رکا اسی پل وہ اس کے بازوؤں میں گری تھی۔ اس نے گہری سانس لی۔ پھر دعا کو دیکھا ۔ وہ ڈر کے مارے بے ہوش ہو چکی تھی۔ اس نے چہرہ اٹھا کر اوپر دیکھا اور آبرو کو نیچے جھانکتا دیکھ کر سمجھ گیا دعا پر قاتلانہ حملے کون کروا رہا تھا ۔ اسے لگا تھا آبرو چھوٹی ہے ۔ وہ ایسا نہیں کر سکتی لیکن اس نے اس کی غلط فہمی دور کر دی تھی۔ آبرو حواس باختہ ہو کر پیچھے ہٹی تو وہ دعا کو لیے ہاسپٹل کی طرف بڑھ گیا ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ثانی گل اور ایش ایک سینما ہال میں بیٹھے کوئی رومینٹک فلم دیکھ رہے تھے۔ بہت ایموشنل سین چل رہا تھا ۔ ہیرو ہیروئن کیلیے رو رہا تھا۔ کئی لوگوں کی آنکھیں تھی یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ صرف ایک مووی تھی۔ ایش بھی ہیرو کیلیے بہت سیڈ فیل کر رہا تھا لیکن ثانی منہ میں لالی پاپ ڈالے اس سین کو ایسے انجوائے کر رہی تھی جیسے کوئی فنی سین ہوں۔ 

"تمہیں نہیں لگتا زندگی میں کوئی ایسا ہونا چاہیے جس کے ہونے نہ ہونے سے آپ کو فرق پڑتا ہو۔ " ایش مدھم سے لہجے میں پوچھ رہا تھا۔ ثانی نے تعجب سے اسے دیکھا۔ 

"تم بھی جذبات رکھتے ہو ایش؟ حیرت ہے؟" اس کے جواب پر وہ بدمزہ ہوا۔ 

"کیوں ؟ میں پتھر ہوں کیا؟" اس نے صدمے سے پوچھا ۔ ثانی نے بس کندھے اچکانے پر اکتفا کیا۔ 

"اچھا بتاؤ نا جو میں نے پوچھا۔ "

"میرا نہیں خیال یہ فائدہ مند ہے۔ کسی سے اتنی امیدیں لگا لے بندہ کہ اس کے نہ ہونے پر رونا آئے۔ مجھے نہیں یہ پسند نہ میں یہ کبھی کروں گی۔ " ثانی نے منہ بنا کر کہا۔ 

"اور اگر تم سے کوئی یہ امید لگائے تو؟" ایش نے محتاط انداز میں سوال پوچھا۔ 

"یہ اس کا قصور ہے۔ میرا تو نہیں " ثانی نے لالی پاپ منہ سے نکال کر اسے گھورتے جواب دیا۔ ایش سر دھیرے سے ہلا گیا۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دعا نے پلکیں جھپکتے آنکھیں کھولیں تو خود کو ہاسپٹل کے ایک کمرے میں پایا۔ وہ چند پل خالی خالی نظروں سے چھت کو دیکھتی رہی پھر ارد گرد دیکھا۔ اس کی نظر حیان پر پڑی۔ وہ اوور آل پہنے ایک سٹول پر بیٹھا فون میں مصروف تھا۔ اس کے سنہرے بال خوبصورتی سے ماتھے پر گر رہے تھے اور آنکھوں پر ایک نازک سے فریم والا چشمہ تھا۔ وہ یک ٹک سی اسے دیکھنے لگی۔ حیان نے اس کی نظروں کو خود پر محسوس کیا تو اس کی طرف متوجہ ہوا۔ 

"جاگ گئیں آپ؟ " وہ اٹھ کر اس کے قریب آیا۔ 

"تم نے مجھے بچایا؟" دعا کی نظریں ابھی بھی اس پر تھیں۔ 

"ہمم۔ میں وہاں سے گزر رہا تھا جہاں آپ گری تھیں۔ " حیان نے اس کی نبض چیک کرتے بتایا۔ دعا نے آنکھیں بند کر لیں اور سوچا کیوں بار بار ان کا ٹکراؤ ہو رہا تھا۔ وہی کیوں بار بار اسے بچا رہا تھا۔ کیا وہی شہزادہ تھا ؟ اگر نہیں تھا تو اس کے راستے میں کیوں آ رہا تھا۔ 

"وہ کون تھی جس نے آپ کو دھکا دیا۔ " وہ سٹول اس کے قریب کھسکا کر بیٹھا۔ دعا نے آنکھیں کھولیں لیکن جواب نہ دے سکی البتہ آنکھوں میں نمی ابھری۔ وہ لڑکی جسے وہ اپنی بہن سمجھتی تھی اس کی جان کی دشمن بن گئی تھی ایک برے انسان کیلیے۔ 

"بتاؤ دعا" اس کا لہجہ حکمیہ ہوا۔ دعا نے چونک کر اسے دیکھا پھر بے اختیار آبرو کا نام لے دیا۔ 

"یہ آپ کی کزن ہے نا؟" اس نے پوچھا۔ دعا نے سر ہلایا تو ایک آنسو اس کی آنکھ سے چھلکا۔ حیان کچھ پل کیلیے مبہوت ہوا۔ پھر سر جھٹکا۔ 

"تو کیا آپ صرف مظلوم ہونے کا کردار نبھائیں گی یا بدلے میں کچھ کریں گی ؟" اس نے طنزیہ انداز میں پوچھا۔ وہ اداسی سے مسکرائی۔ 

"میں کیا کر سکتی ہوں۔ اپنوں سے تو انسان بدلہ بھی نہیں لے پاتا۔ " 

"جو اپنے ہوتے ہیں وہ ایسا نہیں کرتے۔ اگر آپ چپ رہیں گی تو وہ پھر آپ پر حملہ کروائے گی۔ وہ حملہ آور اسی نے دو بار بھیجا تھا۔ "اس کے یقین سے کہنے پر دعا کی آنکھیں حیرت سے پھیلیں۔ یہ تو اس نے سوچا ہی نہیں تھا۔ واقعی وہ حملہ آور وہی بھیج سکتی تھی۔ اس نے مٹھیاں زور سے بھینچیں۔ 

"میں اسے چھوڑوں گی نہیں۔ " اس نے دانت پیسے۔ حیان نے مسکراہٹ دبائی تھی۔ وہ لڑکی اسے دوسری لڑکیوں سے مختلف لگی تھی۔ اس کی جگہ کوئی اور ہوتی تو ایک ہی قاتلانہ حملے پر ہفتہ بخار میں پڑی رہتی لیکن وہ تین حملوں کے بعد بھی نارمل تھی۔ وہ واقعی نارمل تھی یا ایسا ظاہر کر رہی تھی۔ وہ جاننا چاہتا تھا ۔

"آپ ٹھیک ہیں ؟" اس نے کچھ پل توقف کے بعد پوچھا۔ دعا نے اس کی آنکھوں میں دیکھا۔ زہن میں کئی مناظر گزرے۔ 

"ہاں میں ٹھیک ہوں۔ " وہ مبہوت سی اسے دیکھنے لگی۔ وہ کھنکارا اور فون کی طرف متوجہ ہوا۔ دعا نے گڑبڑا کر نظریں پھیریں تھیں اور جانے کیلیے اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جزیل ذکریا اسد مرزا کے سامنے ایک صوفے پر بیٹھا تھا۔ اسد نے ایک نقشہ ٹیبل پر پھیلا رکھا تھا اور اسے کچھ جگہوں دکھا رہا تھا جو وہ خرید سکتا تھا۔ جبکہ جزیل ایک خاص جگہ پر نظریں جمائے ہوئے تھا۔ 

"یہ جگہ اویل ایبل ہے؟" اس نے اس جگہ اشارہ کرتے پوچھا۔ 

"نہیں ۔ یہ ابھی بکی تو نہیں لیکن ایک بائر نے خریدنے کا کہا ہوا ہے۔ " اسد نے نرمی سے بتایا۔ یہ جگہ ابدال بابر خریدنا چاہتا تھا ۔ 

"مجھے یہ جگہ ٹھیک لگ رہی ہے۔ میں اس کیلیے منہ مانگی قیمت دینے کیلیے تیار ہوں ۔" جزیل نے اصرار کیا۔ 

"دیکھیں میں کمٹمنٹ کر چکا ہوں ۔" اسد اس کی ناراضگی مول نہیں لینا چاہتا تھا سو اس کا لہجہ لجاجت آمیز تھا ۔ 

"قیمت کتنی ہے اس کی؟" جزیل نے پرسوچ انداز میں پوچھا ۔ 

"تیس کروڑ " اسد نے اصل قیمت سے کچھ زیادہ بتائی تھی۔ ابدال سے وہ کوئی بہانہ بھی کر سکتا تھا لیکن جزیل اسے منہ مانگی قیمت دینے کا کہہ رہا تھا ۔ 

"ٹھیک ہے۔ مجھے یہی جگہ چاہیے۔ "وہ دو ٹوک لہجے میں بولا تھا۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Post a Comment

0 Comments