Chragh e Drakhshan
by dua fatima
Chragh e Drakhshan Part 2
"تم نے کیوں اس پیشنٹ کی سرجری کی تھی اس کی فیملی کے سائن لیے بنا؟" ہیڈ آف سٹاف حیان کو غصے سے دیکھ رہے تھے جو ڈھیٹوں کی طرح ہاتھ پیچھے باندھے کھڑا تھا۔
"کیونکہ مجھے پتہ تھا اگر بروقت سرجری نہ کی جاتی تو وہ مر جاتا"
"اور اگر آپریشن کے دوران مر جاتا تو ؟ "
"وہ نہیں مر سکتا تھا۔ سرجری پیچیدہ نہیں تھی۔ " اس نے پریقین لہجے میں کہا۔ اس کا یہ یقین بے جا نہ تھا۔ وہ کئی سال اس ہنر پر لگا کر یہاں آیا تھا۔ وہ ان کے ہاسپٹل کیلیے ایک بہترین ڈاکٹر تھا لیکن وہ اپنی مرضی کا مالک تھا۔ پہلے بھی دو تین بار اپنی مرضی کر چکا تھا لیکن اس بار ہیڈ کی برداشت جواب دے گئی تھی۔
"واٹ ایور۔ تم اپنا استعفیٰ دو اور جاؤ یہاں سے۔ " ہیڈ نے گہری سانس لی اور اپنی کرسی پر بیٹھ گئے۔
"میں دے چکا ہوں۔ " وہ کہہ کر ہیڈ کو منہ کھولنے پر مجبور کر گیا تھا۔
ہاسپٹل سے نکلنے سے پہلے اس نے شاہ میر کی ساری ڈیٹیلز لے لی تھیں اور گاڑی میں آ کر اسے فون کیا۔
شامیر اپنے بستر پر نیم دراز کسی سوچ میں گم تھا جب اس کا فون بجا۔ اس نے اٹھا کر ان ناؤن نمبر دیکھا اور کان سے لگایا۔
"ہیلو مسٹر شاہ میر ۔ میں ڈاکٹر بازل بول رہا ہوں۔ کیسے ہیں آپ؟" حیان کی آواز سن کر اسے خوشگوار حیرت ہوئی تھی۔
"میں ٹھیک ہوں۔ آپ کیسے ہیں " وہ سیدھا ہو کر بیٹھ گیا۔
"میں تو فٹ فاٹ۔ آپ کے چیک اپ کیلیے ملنا چاہتا ہوں۔ "
" آپ زحمت مت کریں ۔ میں ہاسپٹل آ جاؤں گا "
"زحمت نہ کرنے کی آپ کو ضرورت ہے۔ ویسے بھی میں نے ہاسپٹل سے ریزائن کر دیا ہے۔ وہاں تو میں آپ کا معائنہ نہیں کر سکوں گا۔ "
"آپ نے میری وجہ سے تو ریزائن نہیں کیا؟" شاہ میر کو دعا سے معلوم ہوا تھا کہ ڈاکٹر بازل نے ہیڈ سٹاف کی اجازت کے بغیر اس کا آپریشن کیا تھا۔ اسے ہاسپٹل سے نکالا بھی جا سکتا ہے۔
"نہیں نہیں۔ انہیں مجھ سے پہلے ہی بہت مسلے تھے۔ " حیان نے ایسے انداز میں کہا کہ اسے یقین کرنا ہی پڑا۔
"ٹھیک ہے آپ جب چاہیں آ جائیں۔ "
"میں ایک گھنٹے میں پہنچ رہا ہوں " اس نے کال کاٹ کر گاری سٹارٹ کر دی تھی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"ڈاکٹر بازل مجھے چیک کرنے آ رہے ہیں۔" دعا شاہ میر کو دوا کھلا رہی تھی جب اس نے بتایا ۔ اس کا دل تیزی سے دھڑکا۔ ساتھ ہی اسے یاد آیا وہ کل بھی آیا تھا۔ تب وہ تایا جان کے ڈاکٹر کے ساتھ تھا۔ اور کیوں تھا یہ سوچ اسے تب نہیں آئی تھی۔ اب وہ سوچ رہی تھی کہ ایک نیورو سرجن کا شوگر پیشنٹ کو چیک کرنے کیلیے آنے کا کیا تک بنتا ہے۔
"کیا ہوا؟" اسے ساکت دیکھ کر شاہ میر الجھا۔ وہ گڑبڑا کر نفی میں سر ہلا گئی اور اسے جلدی سے دوا دے کر اس کے کمرے سے نکل آئی۔ اب وہ بے اختیار ہی لاشعوری طور پر اس کا انتظار کرنے لگی تھی۔ وہ ٹیرس پر آ گئی اور نگاہیں گیٹ پر جما دیں۔ شام کا نیلگوں سائے ہر طرف پھیل رہے۔ تھے۔ اسے اپنے ارد گرد سب کچھ اداس اداس سا لگا۔ شہزادہ شدت سے یاد آنے لگا۔
"شہزادے تم نے مجھے خود سے محبت کرنے کے عہد میں باندھ لیا۔ لیکن کیوں۔ تم تو مرنے والے تھے۔ پھر تم نے کیوں ایسا کیا؟ کیا وہ تم ہی ہو جو مجھے اس دنیا میں ملے ہو۔ کاش یہ تم ہی ہو۔ میں تمہارے سارے گلے مٹا دوں گی۔ تم سے محبت کر کے دکھا دوں گی۔ " وہ ریلنگ پر ہاتھ رکھے نم آنکھیں لیے سوچ رہی تھی۔ کیا وہ محبت کر پائے گی۔ نجانے قسمت میں آگے کیا کچھ لکھا تھا۔ اس نے گہری سانس لی تبھی اسے مین گیٹ پر ہل چل دکھائی دی۔ کچھ دیر بعد وہ اس شہد رنگ آنکھوں والے شہزادے کو اندرونی عمارت کی طرف بڑھتا دیکھ رہی تھی ۔ اس کے سر پر پی کیپ تھی۔ اس نے اینٹرینس میں داخل ہونے سے پہلے سر اٹھا کر ایک لمحے کو اسے دیکھا تھا ۔ اس کی دھڑکن تھمی۔ وہ بغیر کوئی تاثر دیے آگے بڑھ گیا تھا۔ اگلے منظر میں وہ شاہ میر کا معائنہ کر رہا تھا۔ دعا ریفریش مینٹ کا سامان لیے کمرے میں داخل ہوئی۔ ملازمہ یہ کام کرنے والی تھی لیکن اس نے ملازمہ سے ٹرالی لے لی۔ دل اسے ایک بار پھر دیکھنے کی خواہش کر رہا تھا۔ لیکن وہ اس کی طرف نہ دیکھ سکی۔ اور تیزی سے ٹرے میز پر سجا کر کمرے سے نکل گئی ۔ دل کی ضد کو نظر انداز کرتے وہ اپنے کمرے میں آئی تو ہر طرف ایک گہرا سکوت محسوس کیا۔ وہ بالکونی میں نکل آئی۔ یہاں سے ٹیرس کا بائیاں حصہ اور ایک گارڈن نظر آ رہا تھا ۔ وہ کتنی ہی دیر ارد گرد سے بیگانہ کھڑی رہی تھی۔ اچانک وہ چونکی ۔ اسے محسوس ہوا اس کے کمرے میں کوئی تھا۔ اس نے تیزی سے پلٹ کر دیکھا ۔ گلاس ڈور کے سامنے پردہ تھا لیکن اس میں سے چھوٹی سی جھری بنی ہوئی تھی۔ اور اس جھری میں سے اسے ایک سیاہ پوش نظر آیا تھا۔ اس کے وجود میں ایک سرد سی لہر دوڑ گئی ۔ ہاتھ میں چاقو پکڑے چہرے پر ماسک لگائے ویسا ہی شخص جس نے گیسٹ ہاؤس میں اس پر حملہ کیا تھا۔ وہ ایک بار پھر اسے شکار کرنے اس کے گھر میں پہنچ چکا تھا۔ کچھ پل کیلیے تو اس کے قدم زمین نے ایسے جکڑے کہ چھوڑے ہی نہ۔ حملہ آور نے ایک جھٹکے سے پردہ ہٹایا۔ اب ان کے درمیان صرف ایک گلاس ڈور تھا جسے وہ ایک پل میں ہٹا سکتا تھا ۔ دعا کے دماغ نے خطرے کا الارم بجایا اور ٹانگیں بچاؤ کیلیے حرکت میں آ گئیں۔ وہ ایک خوفزدہ سی چیخ مارتی پیچھے ہٹی تھی۔ حملہ آور بھی پل بھر میں بالکونی میں آیا تھا لیکن وہ بالکونی سے نکل کر ٹیرس پر دوڑتی ایک ہال کے دروازے کی طرف بڑھی تھی۔ موت بھی اس کے تعاقب میں تھی۔ اس نے ہال میں داخل ہو کر دروازہ بند کرنا چاہا لیکن وہ ایک جھٹکے کے ساتھ فرش پر گری۔ حملہ آور ہال میں داخل ہوا۔ دعا اسے دیکھتی خوف سے پیچھے کھسکی ۔ اس کی دہشت زدہ نگاہیں حملہ آور کی آنکھوں پر تھیں۔ اسے محسوس ہوا وہ اس کی حالت سے محظوظ سا مسکرا رہا ہے اور اسے ڈرا ڈرا کر مارنا چاہتا ہے۔ لیکن اسے نہیں مرنا تھا۔ وہ اس حملہ آور کو یوں کامیاب نہیں ہونے دے گی۔ وہ پوری قوت مجتمع کر کے اٹھی اور مخالف سمت میں بھاگی ۔ حملہ آور نے اسے جھپٹنا چاہا لیکن وہ ایک لمحے کے وقفے سے بچ گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حیان شاہ میر کے کمرے سے نکلا تو باہر جانے کی بجائے ایک کاریڈور کی جانب بڑھ گیا۔ اس وقت اندرونی حصے میں کوئی نہیں تھا۔ پچھلی بار وہ اندازہ لگا چکا تھا کہ اندرونی حصے میں کوئی کیمرہ بھی نہیں تھا۔ کیمرے اور گارڈز دونوں گھر کے پرائیویٹ حصے سے باہر تھے۔ اس کے اندازے کے مطابق کچن میں کام کرنے والے ملازموں کے علاوہ سب جا چکے تھے۔ وہ ان کی نظروں سے بچ کر ابدال بابر کے کمرے تک پہنچ سکتا تھا ۔ وہ محتاط انداز میں تیزی سے مگر بے آواز قدم اٹھا رہا تھا جب اسے ایک نسوانی چیخ سنائی دی۔ اس نے ٹھٹک کر دائیں جانب دیکھا اور پھر اگلے ہی پل اس طرف دوڑا۔ دوسری طرف دعا موت کے خوف سے بے حال خود کو بچانے کی ایک آخری کوشش کرتی ہوئی کاریڈور میں داخل ہوئی تو حیان سے ٹکرا گئی۔ حیان نے اسے پھرتی سے سنبھالا ورنہ وہ جس سپیڈ سے اس سے ٹکرائی تھی اسی سپیڈ سے پیچھے گرتی۔ دعا کو لگا وہ یکدم کسی محفوظ پناہ گاہ میں آ گئی ہو۔ اس نے ماؤف ہوتے دماغ کے ساتھ حیان کو دیکھا جو اس کے پیچھے موجود حملہ آور کو دیکھ رہا تھا۔ اس پل وہ اسے شہزادہ ہی لگا تھا جو ہر بار کی طرح اسے بچانے آ جاتا تھا۔ وہ گہرے گہرے سانس لیتی اس کے سینے سے ماتھا ٹکا گئی۔ حیان اس کے خوف کو تو سمجھ سکتا تھا لیکن اس کی کیفیت کو نہیں ۔ وہ اس بات پر بھی حیران تھا کہ اتنی سخت سیکیورٹی میں حملہ آور اندر کیسے گھس آیا اور کوئی ملازم بھی اس کی چیخ سن کر وہاں نہیں پہنچا تھا مطلب اندرونی حصے میں کوئی نہیں تھا۔ وہ دیکھ رہا تھا حملہ آور اس کی وجہ سے کچھ دیر تذبذب کا شکار ہونے کے بعد دعا کے ساتھ اس سے بھی نمٹنے کا ارادہ کر چکا تھا۔ وہ جیسے ہی حملے کیلیے حرکت میں آیا حیان دعا کو لیے بائیں جانب مڑا ساتھ اس شخص کی پسلی پر دائیاں پاؤں مارا۔ وہ شخص قوی ہیکل ہونے کے باوجود دو قدم پیچھے لڑکھڑا تھا۔ اسے ضرب لگاتے ہیں وہ دعا کو ایک دیوار کے ساتھ لگا چکا تھا اور اگلے ہی پل گھوم کر دوسرا پاؤں حملہ آور کے سینے پر مارنا چاہا۔ وہ تیزی سے پیچھے ہٹا اور اپنے قریب آتے حیان پر چاقو سے وار کیا۔ دعا دیوار کے سہارے بمشکل کھڑی اس منظر کو دیکھ کر سانس روک گئی تھی۔ حیان نے بروقت حملہ آور کے ہاتھ کو ایک سائیڈ پر دھکیل دیا اور اس کے ناک پر ایک مکا مارا۔ وہ کراہا لیکن کئی قدم پیچھے لے گیا لیکن ہاتھ سے چاقو نہیں جانے دیا۔ حیان نے بھی اپنی جیب سے ایک چاقو نکال لیا اور دعا نے خوف سے دھک دھک کرتے دل کے ساتھ وہ لڑائی دیکھی ۔ اب وہ اپنے لیے نہیں حیان کیلیے خوفزدہ تھی۔ فینٹیسی ورلڈ میں وہ شہزادے حیان سے محبت نہیں کرتی تھی لیکن پھر بھی جب وہ لڑائی کر رہا ہوتا تو اس کی جان پر بن آتی ۔ اب تو وہ اس کی محبت کے پیمان میں بندھ چکی تھی اس کی جان کیسے نہ لبوں پر آتی۔ وہ بھول گئی کہ کچھ دیر پہلے موت اس کے تعاقب میں تھی اور یاد تھا تو صرف یہ کہ وہ خطرے میں تھا ۔ وہ اسے بچانا چاہتی تھی لیکن اس کے کانپتے وجود میں اتنی ہمت بھی نہیں رہی تھی کہ وہ ایک قدم بھی چل سکتی۔ حملہ آور کے ہر وار پر وہ بے چین ہوتی لیکن حیان کامیابی سے اس کے واروں سے بچتا اسے زخمی کر چکا تھا ۔ بالآخر حملہ آور کو بھاگنا پڑا۔ حیان کچھ دور تک اس کے پیچھے بھاگا لیکن پھر دعا کا خیال آنے پر رک گیا۔ وہ واپس آیا تو دعا اسی طرح دیوار سے لگی اسے خالی خالی نظروں سے دیکھ رہی تھی۔ بالوں کی دو لٹیں اس کے گالوں کو ڈھانپے گردن سے نیچے تک آتیں اس کی خوبصورتی کو بڑھا رہی تھیں۔ حیان ایک پل کو مبہوت ہوا تھا پھر اس کے قریب آیا۔
"آپ ٹھیک ہیں؟" اس نے فکر مندی سے پوچھا لیکن جواب ندارد۔ اسے ایک بار پھر حیان کو ٹکر ٹکر گھورنے کا دورہ پڑ چکا تھا ۔ وہ تو اس سے حملہ آور کے بارے میں پوچھنا چاہتا تھا لیکن وہ پتھر کی مورت بنی ہوئی تھی۔ حیان نے اس کے سامنے ہاتھ ہلایا۔ پھر گہری سانس لی۔ تبھی وہ ہوش میں آئی اور یہاں وہاں دیکھا ۔
"آپ اپنے بھائی کے پاس جائیں۔ اکیلے رہنا آپ کیلیے خطرے سے خالی نہیں ہو گا۔ "
"بھائی پریشان ہوں گے۔ " وہ شاہ میر کی سرجری کی وجہ سے اسے پریشان نہیں کرنا چاہتی تھی۔ حیان نے بھی تائید میں سر ہلایا۔
"گھر میں اب اور کوئی بھی نہیں ۔ سیکیورٹی گارڈز باہر ہیں۔ اگر حملہ آور ایک بار یہاں آ سکتا ہے تو وہ دوسری بار بھی آئے گا۔"
"وہ ایک بار پہلے بھی مجھ پر حملہ کر چکا ہے۔ " اس نے خوف سے بتایا۔ ایسے ہی جیسے اس نے سلطان حیان مصطفیٰ کو بتایا تھا۔ حیان کی بھنویں سکڑیں۔ وہ سخت خطرے میں تھی۔ یہ جان کر وہ اسے اب ہرگز نظر انداز نہیں کر سکتا تھا۔ حملہ آور اسے مارنے کیلیے اس کے گھر تک پہنچ گیا تھا تو اس کا مطلب تھا اس کا کوئی قریبی اسے مروانا چاہتا تھا۔ کھلے دشمنوں سے تو پھر بھی مقابلہ کیا جا سکتا تھا لیکن جو اپنے غدار ہوں ان کی غداری پر یقین کرنے میں بھی وقت لگتا ہے۔ اس نے کچھ پل سوچا اور دعا کو دیکھا۔
"اگر آپ نے خوف کو خود پر حاوی ہونے دیا تو جلد اس کا نشانہ بن جائیں گیں۔ خوف سے نکلیں اور میری بات غور سے سنیں۔ " وہ شاید کوئی لائحہ عمل طے کر چکا تھا۔ دعا اسے بس دیکھے جا رہی تھی۔
"آپ ابھی سیکیورٹی روم میں جائیں اور ہیڈ آفیسر کو اس کی کوتاہی کا احساس دلائیں۔ آپ شاہ میر کو چاہے نہ بتائیں لیکن اپنے باقی فیملی میمبرز کو بتائیں کہ آپ پر حملہ ہوا ہے اور آپ خوفزدہ ہونے کی بجائے غصے میں ہیں۔ " اس کا لہجہ سنجیدہ تھا یا حکمیہ وہ جان نہ سکی لیکن وہ اس کی فکر کر رہا تھا۔ یہ فکر اس کے گرد ایک طاقت کا حصار کھینچ رہی تھی۔ وہ جان گئی تھی اسے اب کیا کرنا ہے۔ اس نے لمبی سانس اندر کھینچ کر سر اثبات میں ہلایا اور خود میں ایک نئی توانائی محسوس کرنے لگی ۔ کچھ لمحوں بعد وہ سیکیورٹی گارڈز کے ہیڈ کے سامنے کھڑی اس پر چلا رہی تھی۔ اپنا خوف غصے میں تبدیل کر کے شو کر رہی تھی۔ ہیڈ بوکھلائے انداز میں اپنی صفائیاں پیش کرنے میں مصروف تھا۔
"میڈم میں باتھ روم چلا گیا تھا ۔ بس ایک لمحے کی غلطی ہو گئی۔ آئیندہ ایسا نہیں ہو گا "
"باقی لوگ اندھے ہیں اور حملہ آور کو کیسے پتہ چلا کہ تم باتھ روم میں ہو ۔ کیا تم لوگوں میں سے کوئی ملا ہوا ہے دشمن کے ساتھ؟" اس نے سلگتی نگاہوں سے ہیڈ اور اس کے ماتحت کو دیکھا جن کی ڈیوٹی تھی سی سی ٹی وی فوٹیجز پر نظر رکھنا۔
"میڈم کیسی بات کر رہی ہیں۔ ہم سے قسم لے لیں۔ ہم ایسا سوچ بھی نہیں سکتے۔ "
"مجھے قسم نہیں کام چاہیے۔ پتہ کرو وہ کون ہے جس نے مجھ پر حملہ کیا ورنہ خود کو فائر سمجھنا۔ " وہ غصے سے کہتی سیکیورٹی روم سے باہر نکلی تھی۔ حیان جا چکا تھا لیکن اسے اب بھی اس کا وہ تحفظ بھرا حصار محسوس ہو رہا تھا۔ وہ اس کیلیے ایک ایسا لائحہ عمل ترتیب دے گیا تھا جو اس کے جانے کے بعد بھی اس کی حفاظت کرنے والا تھا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حیان جے ہاؤس پہنچا تو جزیل آفس سے واپس آ چکا تھا۔ اور سونے کیلیے اپنے کمرے میں جا چکا تھا۔ ملازمہ نے اس سے کھانے کا پوچھا لیکن وہ جواب دیے بنا عجلت میں جزیل کے کمرے میں آیا۔ جزیل نائٹ گاؤن میں اپنی تمام تر وجاہت کے ساتھ کمرے کی مدھم سی روشنی میں بہت پراسرار لگ رہا تھا ۔
"خیریت!" جزیل نے لائٹس آن کرتے ہوئے اس سے پوچھا۔ وہ بغیر کام کے اس سے ملنے نہیں آتا تھا اور اس وقت تو بالکل بھی نہیں جب وہ آرام کیلیے اپنے کمرے میں جا چکا ہو۔
"ایک سیکیورٹی گارڈ چاہیے ۔ ٹاپ لیول کا۔ " جینز کی جیبوں میں ہاتھ اڑسے وہ تیزی سے بولا تھا ۔ جزیل کو اس کے لہجے میں بے چینی محسوس ہوئی۔
"کیوں؟ دو کم پڑ گئے ہیں کیا؟" جزیل کی حیرت بجا تھی۔ حیان نے منہ بنایا۔
"اپنے لیے نہیں ۔ ایک لڑکی کیلیے چاہیے۔ وہ خطرے میں ہے۔ اس پر دو بار قاتلانہ حملہ ہو چکا ہے۔ " اس کی نگاہوں کے سامنے دعا کا خوفزدہ چہرہ آیا تھا۔
"اوہ۔ ٹھیک ہے۔ ہائر تم کرو گے یا وہ ۔" جزیل نے سائیڈ ٹیبل پر سے موبائل اٹھایا۔
"اسے نہیں پتہ چلنا چاہیے۔ سمجھو میں ہی ہائر کر رہا ہوں۔ وہ بس دوران سفر اس پر نظر رکھے گا۔ باقی وہ خود انتظام کر لے گی "سامنے لگی پینٹنگ کو دیکھتے ہوئے وہ بولا
"اگر وہ خود کر سکتی ہے تو تمہیں کیا ضرورت ہے اس کی ہیلپ کرنے کی۔ " جزیل نے فون پر کچھ ٹائپ کرتے کرتے رک کر اسے دیکھا۔
"کیوں کہ اس پر حملہ کروانے والا کوئی قریبی شخص ہے اور مجھے جاننا ہے وہ کون ہے۔ "
"اور تمہیں کیوں جاننا ہے؟" جزیل نے چڑ کر پوچھا۔ وہ اس کے ہر کسی کے کام میں کود پڑنے سے سخت عاجز تھا۔ کیونکہ وہ پھر ساتھ اسے بھی گھسیٹ لیتا تھا ۔
"وہ بابر فیملی سے تعلق رکھتی ہے۔ " اس کی بات پر جزیل چونکا۔
"کون ہے وہ؟" اس نے سپاٹ لہجے میں پوچھا۔
"دعا۔ شاہ میر کی بہن ہے جس کا علاج کرنے کے بدلے میں میری نوکری گئی۔ " اس نے گہری سانس لی۔
"کیسے ہوا اس پر حملہ؟ مجھے تفصیل بتاؤ۔" جزیل بستر پر بیٹھ گیا۔ حیان بھی اس کے سامنے صوفے پر بیٹھا اور اسے بتانے لگا کہ کیسے اس نے دعا کو بچایا اور اس کے خوف کو غصے میں تبدیل کیا۔
"تمہیں کیا لگتا ہے کون حملہ کروا سکتا ہے اس پر۔ " جزیل نے پرسوچ انداز میں کہا۔
"اگر ابدال بابر اس حملے کے بارے میں جان کر اپنے سیکیورٹی گارڈز کو فائر نہ کرے تو اسی نے حملہ کروایا ہو گا۔ " حیان ایک پل کو رکا۔ اس کے زہن میں کچھ کلک ہوا۔
"اور اگر وہ گارڈز کو فائر کر دے تو ہمیں ابدال ہاؤس میں گھسنے کا موقع مل سکتا ہے۔ " حیان نے آنکھوں میں ایک چمک لیے اسے دیکھا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ثانی ایش کے ساتھ ائیر پورٹ سے باہر نکلی تو ایک گاڑی اس کے انتظار میں کھڑی تھی۔ اس نے اسے نظر انداز کرتے ٹیکسی کو اشارہ کیا۔
"میڈم! یہ گاڑی آپ کیلیے ہی منگوائی گئی ہے۔ " ایک گارڈ نے کھنکار کر نہریں نیچی رکھتے بتایا۔ ثانی نے اسے گھورا۔
"میں تو جیسی جانتی ہی نہیں ۔" وہ ناک چڑھا کر ٹیکسی میں بیٹھ گئی۔ ایش بھی دوسری طرف آ بیٹھا۔ گارڈز مخصوص گاڑی میں بیٹھے اور ان کا پیچھا کرنے لگے۔ آدھے راستے میں نجانے کیا ہوا کہ جس ٹیکسی میں ثانی تھی وہ ان کی نظروں سے کچھ دیر کیلیے غائب ہو گئی ۔ کچھ دیر بعد وہ اس ٹیکسی کو دیکھ سکتے تھے لیکن جان نہ سکے کہ ثانی اس ٹیکسی میں اب نہیں تھی۔
دوسری طرف ثانی اپنی ایک دوست کو سرپرائز کرنے اس کے گھر کی طرف جا رہی تھی۔ وہ دوست جو دوست کم اور دشمن زیادہ تھی ۔
"اسے سرپرائز دینے کا کیا تک بنتا ہے۔ " ایش نے تعجب سے پوچھا۔
"وہ بہت خوش ہوئی تھی جب میں یہاں سے گئی تھی۔ اس کی خوشی ہرن کرنا چاہتی ہوں بس۔" ثانی نے کندھے اچکا دیے۔ ایش نفی میں سر ہلا کر رہ گیا تھا
ایمی نے دروازہ کھولا تو لمحوں میں اس کا مسکراتا چہرہ واپس اپنی جگہ پر آیا۔
"ہائے۔ امید کرتی ہوں تم نے مجھے مس کیا ہو گا۔ " ثانی نے ہاتھ کی انگلیاں ہلاتے ایک دل جلانے والی مسکراہٹ اس کی طرف پھینکی۔ وہ کچھ کہہ ہی نہ سکی۔
"کون ہے ایمی۔" پیچھے سے ایمی کی والدہ کی آواز سنائی دی۔
"میں ہوں آنٹ سوزی۔ ثانی۔ " ثانی نے ہانک لگائی۔ ایمی بوکھلا گئی۔ اس سے پہلے کہ وہ دروازہ بند کرتی آنٹ سوزی دروازے پر پہنچ گئی۔ ثانی کو دیکھ کر وہ پھیکا سا مسکرائیں پھر اسے اندر آنے کا کہا۔ انہیں ماضی کا ایک منظر یاد آیا تھا ۔ ثانی نے ایمی کی شکایت ان سے لگائی تھی اور انہوں نے ثانی کے سامنے ہی ایمی کو دھنک دیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ ایمی اسے اپنی ماں سے مسکرا مسکرا کر باتیں کرتا دیکھ کر بہت آکورڈ فیل کر رہی تھی ۔
"جاؤ کچھ لے کر آؤ اپنی دوست کیلیے۔ " سوزی نے اپنی بیٹی کو گھورا تو وہ دانت پیستی کچن میں چلی گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دعا تایا جان کے سامنے کھڑی انہیں کل والے حملے کے بارے میں بتا رہی تھی اور ان کے چہرے پر حیرت تھی۔
"ایسا کیسے ہو سکتا ہے ؟" وہ اٹھ کھڑے ہوئے۔
"سیکیورٹی چیف سے پوچھ لیں " اس کے لہجے میں غصہ جھلکا۔ ابدال صاحب کے چہرے کے تاثرات بھی سخت ہوئے۔ کچھ ہی دیر میں سیکیورٹی ہیڈ کی حاضری لگ گئی تھی۔ اس نے صفائی دینے کی کوشش کی لیکن ابدال صاحب نے اسے جھاڑ پلا کر فائر کر دیا۔ انہیں تو دعا کی ضرورت تھی جعفر سے تعلقات قائم رکھنے کیلیے۔ وہ تو اس پر حملہ نہیں کروا سکتے تھے اور نہ اس کی سیکیورٹی کو لے کر کوئی رسک لے سکتے تھے ۔ انہوں نے ہیڈ سمیت تمام سیکیورٹی گارڈز کو فائر کر دیا۔ اس طرح جزیل ذکریا کو اپنی کمپنی کے سیکیورٹی گارڈز بابر ہاؤس تک پہنچانے کا موقع مل گیا۔ جب ابدال کے سیکرٹری نے نئی کمپنی سے گارڈز ہائر کرنے کیلیے چھان بین کی تو سب سے ٹاپ کمپنی جے زی ہی تھی ۔ اس نے جزیل ذکریا سے ڈیل طے کر کے اس کی ابدال بابر سے میٹنگ سیٹ کروا دی تھی جو بابر ہاؤس میں ہی ہونی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"اس کا مطلب ابدال بابر نے اس پر حملہ نہیں کروایا۔ پھر اس کی بیوی ہی ہو سکتی ہے۔ بیٹی تو ابھی چھوٹی ہے۔ وہ اس چکر میں نہیں پڑ سکتی" حیان جزیل کے ساتھ پورچ کی طرف جاتے کہہ رہا تھا۔ وہ بلیک جنز شرٹ اور لیدر جیکٹ میں ملبوس تھا ۔ سنہری بال ایک طرف سے مانگ نکال کر نفاست سے سیٹ کیے گئے تھے لیکن کچھ چھوٹے چھوٹے بال ماتھے پر ہلال کی مانند گرے اس کی وجاہت کو نمایاں کر رہے تھے۔ جزیل ہمیشہ کی طرح سفید فور پیس سوٹ میں ملبوس تھا ۔ وہ دونوں اپنی اپنی منزلوں کی طرف روانہ ہونے والے تھے۔
"پڑ بھی سکتی ہے۔ ہو نوز" جزیل نے کندھے اچکا کر کہا۔ حیان نے سوچا ایسا ہو بھی سکتا تھا۔ جو بھی تھا اسے تلاش کرنا تھا ۔
"لیٹس سی۔ " وہ بائیک پر بیٹھا اور سر پر ہیلمٹ پہنا۔ جزیل اپنی گاڑی کا دروازہ کھول کر ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا اور ایک ہی وقت میں انہوں نے گاڑی اور بائیک سٹارٹ کی اور گیٹ کی طرف بڑھے۔ گیٹ کیپر کچھ دیر پہلے سے ہی گیٹ کھول چکا تھا۔ گاڑی گیٹ سے نکل کر دائیں جانب مڑ گئی جبکہ بائیک بائیں جانب ۔ حیان فرم ہاؤس پر جا رہا تھا جبکہ جزیل بابر ہاؤس ابدال سے میٹنگ کیلیے۔ وہ ایک گھنٹے میں بابر ہاؤس پہنچ گیا۔ اسے ایک ملازم ابدال کے پاس لے گیا۔ اس نے غور سے اس شخص کو دیکھا تھا جس سے وہ بے انتہا نفرت کرتا تھا۔ اس کی آنکھوں میں ایک سرد اور پراسرار سا تاثر تھا۔ ابدال نے اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا اور ان کی میٹنگ شروع ہوئی۔ ابدال نے اپنی ڈیمانڈ بتائی اور جزیل نے اسے یقین دلایا اس کی کمپنی کے گارڈز اس کی ڈیمانڈ پر پورے اتریں گے۔ انہوں نے کانٹیریکٹ سائن کیا تو آڈیو ڈیوائس کے ذریعے جزیل سے کانٹیکٹڈ حیان فاتحانہ مسکرایا۔ وہ اپنے مخصوص کمرے میں لیپ ٹاپ کے سامنے بیٹھا کوئی کام کر رہا تھا ۔ پاس کافی پڑی تھی جس سے گرم بھاپ نکل رہی تھی۔
"ویلڈن برو۔ " اس نے ریوالونگ چئیر کی پشت سے ٹیک لگا کر کافی کا مگ اٹھایا اور ایک سپ لیا۔ جزیل اس کی آواز سنتا ابدال کے کمرے سے باہر نکلا تھا۔ تبھی اس کی نظر ایک لڑکی پر پڑی تھی۔ گلابی رنگ کی کھلی سی گھٹنوں سے کچھ اوپر تک ٹاپ اور جینز میں ملبوس وہ خود بھی گلابی سی تھی۔ چہرے کے گرد لہروں والے بالوں نے اسے ایک پل کیلیے جکڑ لیا تھا اور وہ ایک لمحہ ہی اسے دعائے فجر کی محبت میں مبتلا کرنے کیلیے کافی تھا۔ ایسا پہلی بار ہوا تھا کہ کسی نے اسے ایک نظر میں اپنا اسیر کر لیا ہو ۔ اسے لگا اس کی تلاش ختم ہو چکی ہے۔ وہی وہ لڑکی تھی جو اس کیلیے پرفیکٹ تھی۔ جو اسے اپنے قابل لگی تھی۔ وہ نہیں جانتا تھا محبت کیا ہے لیکن دل کہہ رہا تھا اسے وہی چاہیے۔ وہ اس کے قریب سے گزر کر آگے بڑھی تو ایک ہوا کا نرم جھونکا اسے اپنے ارد گرد سے گزرتا محسوس ہوا تھا۔ اسے خود پر یقین نہ آیا۔ وہ کیسے ایک لڑکی کیلیے اتنا جذباتی ہو سکتا تھا وہ بھی اتنے کم وقت میں۔ کتنی ہی خوبصورت لڑکیاں اس کی زندگی میں آئی تھیں لیکن کسی نے اس کے دل کی دہلیز پار نہیں کی۔ پھر اس نے کیا جادو کیا تھا کہ وہ ایک ہی لمحے میں اس سے ہار بیٹھا تھا۔
"تم کیسے ہار سکتے ہو ایک ہی نظر میں۔" اپنی گاڑی میں بیٹھتے وہ خود سے بحث میں مصروف تھا لیکن یہ تو طے تھا کہ وہ فیصلہ طے ہو چکا تھا جو دل نے اس کیلیے کیا تھا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ سارا دن لندن کی سڑکیں ناپتی رہی تھی۔ گارڈز اس کی نظروں سے اوجھل رہے یا وہ گارڈ کی نظروں سے غائب تھی وہ نہیں جانتی تھی لیکن اسے سارے دن میں ایک بار بھی ان گارڈز کی شکل دکھائی نہیں دی۔ تبھی اس کا موڈ بحال رہا۔ وہ کبھی کسی جیولری کی شاپ میں گھس جاتی تو کبھی کسی بک سٹور پر کھڑی نظر آتی۔ کبھی کسی شاپنگ مال سے ڈھیروں شاپنگ کر رہی ہوتی اور کبھی کسی ریسٹورینٹ میں بیٹھی رغبت سے نئی نئی ڈشز کھا رہی ہوتی۔ ایش سارا دن اس کے ساتھ ساتھ رہا تھا۔ اب رات گہری ہو چکی تھی لیکن ثانی ابھی بھی واپس جانے کیلیے تیار نہیں تھی۔ جبکہ ایش سونا چاہتا تھا۔
"ثانی چلو واپس چلیں۔ کسی ہپی کی نظر میں آ گئے تو مفت میں مارے جائیں گے۔ " ایش نے لمبی سی جمائی لیتے کہا۔ وہ دونوں ایک سنسان، لمبی اور کھلی سی سٹریٹ میں چل رہے تھے۔ اس سٹریٹ کے گرد لمبی لمبی دیواریں تھیں جن کے پار کچھ گھر تھے۔ اس گلی میں ان دونوں کے سوا اور کوئی نہیں تھا۔
"تم کس لیے ہو۔" ثانی کا انداز ازلی لاپروا سا تھا۔
"میری بیٹری ڈیڈ ہونے والی ہے۔ یہ نہ ہو تمہیں مجھے بچانا پڑ جائے۔ " وہ روہانسا ہوا ۔
"بچا لوں گی "
"ثانی تم بھول رہی ہو تم ایک ہیکر ہو فائٹر نہیں ۔ ہپی ...."
"کیوں بار بار ان کا نام لے رہے ہو۔ کہیں شیطان کی طرح حاضر ہی نہ ہو جائیں۔ چپ کر کے چلو۔ میں ایک بجے سے پہلے نہیں جانے والی گھر۔ " ثانی نے دوٹوک کہا تو ایش نے خود کو تحمل کی تلقین کرتے لمبی سانس اندری کھینچی۔ کچھ ہی دیر گزری تھی کہ دو لمبے تڑنگے ہپییوں سے ان کا سامنا ہو گیا۔ ایش نے ملامتی نظروں سے ثانی کو دیکھا جیسے اسی نے خاص طور پر انہیں بلوایا ہو۔
"تم نے ہی ان کا نام لیا تھا۔ لو دیکھو اب ۔ ہو گئے شیطان حاضر۔ " ثانی نے بھی اسے کھا جانے والی نظروں سے گھورا۔ ایش نے افسوس سے نفی میں سر ہلایا۔
"جو بھی ہے۔ اب نمٹو خود ہی ان سے۔ میں کچھ نہیں کروں گا۔ "ایش واقعی تھکا ہوا لگ رہا تھا۔ ثانی نے خود کو گھورتے ہپیوں کو دیکھ کر کچھ سوچا۔
"یار! میری آنکھوں میں کوئی خرابی تو نہیں ہو گئی۔ سامنے ایک پری نظر آ رہی ہے۔ تم دیکھنا ذرا۔ " ایک ہپی نے اپنے ساتھی سے کہا۔
"کہاں؟ مجھے تو نظر نہیں آ رہی " دوسرے ہپی نے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر ارد گرد دیکھا۔ وہ شراب کے نشے میں ایک دوسرے کے کندھوں پر ہاتھ رکھے جھول بھی رہے تھے۔
"اوہ۔ اب مجھے بھی نظر نہیں آ رہی۔ کہاں گئی ایک دم سے۔ " دوسرا بھی چونکا۔ ثانی نے مسکراتے ایش کو دیکھا۔ ایسا کیسے ہو سکتا تھا کہ وہ مشکل میں ہوتی اور ایش اس کی مدد نہ کرتا۔
"اب کھڑی کیا ہو۔ جلدی چلو۔ میری انرجی ختم ہو رہی ہے۔ " ایش اسے بازو سے پکڑ کر گھسیٹتا ان ہپیوں کے قریب سے گزر گیا۔
"لگتا ہے کوئی وچ ہو گی یا ویمپائر ۔" دوسرے نے کہہ کی کھی کھی کی۔ جبکہ پہلے کو خوف محسوس ہوا۔
"تم میرا مذاق مت اڑاؤ۔ مجھے سچ میں ایک لڑکی نظر آئی تھی اور وہ غائب ہو گئی تھی۔ مجھے یقین ہے وہ کوئی وہ فیری تھی۔ " وہ اسے یقین دلا رہا تھا۔ گلی کا موڑ مڑتے ثانی ان کی باتیں سن کر آنکھیں گھمائی تھیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حیان پراسیکیوٹر ذوالکفل کے سامنے بیٹھا تھا۔ یہ وہی پراسیکیوٹر تھا جس نے حیان کی پریس کانفرنس میں دیے جانے والے ثبوت کی بنا پر جعفر اور کبیر پر کیس دائر کیا تھا۔ جس پراسیکیوٹر کو قتل کر دیا گیا تھا اس کے پاس سے حیان کو کچھ ثبوت ملے تھے جو وہ اب پراسیکیوٹر ذوالکفل کو دے رہا تھا۔ اس کے چہرے پر ماسک تھا البتہ سر پر پی کیپ نہیں تھی۔ ماتھے پر گرے بال سیاہ تھے۔
"یہ کام آپ کی جان کیلیے خطرے کا باعث بھی ہو سکتا ہے۔ ابھی بھی وقت ہے۔ آپ پیچھے ہٹ سکتے ہیں۔" اس نے فائل میز پر ذوالکفل کے سامنے کرتے اسے ایک بار پھر متنبہ کیا۔ حالانکہ وہ ایک بہادر افسر تھا۔
"نہیں ہٹ سکتا۔ جعفر کبیر جیسے بھیڑیوں کو جیل میں پہنچانا میرا جنون ہے۔ " ذوالکفل نے اس کی بات پر ناک سے مکھی اڑانے والے انداز میں ہاتھ ہلایا۔ حیان مسکرا دیا۔ اس نے صحیح انسان کا انتخاب کیا تھا۔
"یہ اتنا آسان نہیں ہے۔ ہماری محنت پر پانی بھی پھر سکتا ہے۔ دشمن ہم سے جیت بھی سکتا ہے۔ "
"جانتا ہوں لیکن اچھی امید رکھنے کے سوا اور کوئی چارہ بھی تو نہیں۔ قانون انہیں سزا دے نہ دے میں ان کو اتنا ذلیل تو کروا ہی دوں گا کہ پھر لوگ ان کا یقین نہ کریں۔ " ذوالکفل نے کہا پھر اس کی طرف غور سے دیکھا۔
"اگر میں غلط نہیں تو آپ وہی شخص ہیں نہ جس نے کانفرس میں جعفر اور کبیر پر سوالات اٹھائے تھے ۔" اس نے پوچھا۔ حیان اٹھ کھڑا ہوا ۔
"نہیں۔ لیکن میرا ایک آدمی تھا اور میں بھی کسی کیلیے کام کر رہا ہوں۔ "
"کس کیلیے ؟" پراسیکیوٹر نے تجسس سے پوچھا۔
"بتا دیا تو کامیابی کے چانسز کم ہو سکتے ہیں۔ آپ کیلیے جو ضروری ہے وہی جاننے پر اکتفا کریں۔" وہ نہایت احترام سے آگے بڑھ گیا تھا۔ ذوالکفل اس کی بات پر مسکرا دیا تھا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دعا کا آج پیپر تھا۔ سو اسے یونی آنا پڑا تھا۔ وہ ڈرائیور کے ساتھ یونیورسٹی پہنچی تھی دو گارڈز ایک اور گاڑی میں ان کے پیچھے رہے تھے لیکن ایک اور گارڈ بھی ان پر نظر رکھے ہوئے تھا جو حیان کی طرف سے بھیجا گیا تھا ۔ جزیل جان چکا تھا کہ جس لڑکی کی جان کو خطرہ ہے وہ وہی تھی جو اسے پہلی نظر میں پسند آ گئی تھی۔ اس نے گارڈز کو خصوصی ہدایات دی تھیں اور اس کی ایک کال پر کئی گارڈز بروقت پہنچ سکتے تھے۔ وہ خود بھی ٹاپ لیول کا گارڈ تھا جو کئی کلائنٹس کو خطروں سے نکال چکا تھا۔
دعا اس سب سے بے خبر یونیورسٹی آئی تو اجالا اور نیناں نے اسے گلے لگا کر اس کا استقبال کیا۔
"تم دونوں تو ایسے مل رہی ہو جیسے صدیوں بعد ملے ہوں ہم۔ " دعا نے مسکراتے دونوں پر چوٹ کی۔
"مجھے تو ایسا ہی لگ رہا ہے۔ البتہ اجالا کو ایسا لگنے کی کوئی خاص ضرورت نہیں۔ " نیناں نے اجالا پر ایک نظر ڈالی اور آنکھیں گھمائیں ۔ اجالا اس کی بات پر برا منائے بغیر مسکرا دی تھی۔
"میں بھی تو اب اس کی دوست ہوں چاہے نئی سہی۔ " وہ جتانے سے بھی باز نہ آئی۔
"دوست ہو بیسٹ فرینڈ نہیں ۔ " نیناں نے کہا تو وہ منہ بنا گئی۔
"پیپر کی تیاری کیسی ہے۔ " دعا نے موضوع بدلا۔ وہ تینوں اب اپنے ڈیپارٹمنٹ کی طرف جا رہی تھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جزیل کی کمپنی کے سیکیورٹی گارڈز بابر ہاؤس پر تعینات ہو چکے تھے۔ ابدال نے خود کچھ دیر کیلیے سیکیورٹی ہیڈ کی کارکردگی چیک کی تھی جو واقعی اچھی تھی۔ پھر اسے ایک ضروری کام کیلیے گھر سے باہر جانا پڑ گیا۔ سرتاج بیگم بھی گھر پر نہیں تھی۔ حیان کو اس بات کی اطلاع مل گئی۔ یہ بات صرف دو سیکیورٹی گارڈز اور ہیڈ ہی جانتے تھے کہ جزیل کا اصل مقصد کیا تھا۔ حیان ایک سیکیورٹی گارڈ کے بھیس میں بابر ہاؤس میں آ گیا۔ کسی نے اسے نہ روکا کیونکہ اس نے جس سیکیورٹی گارڈ کی شکل اپنائی تھی اسے سب جانتے تھے۔ وہ رہائشی عمارت کے دائیں جانب والی گیلری میں داخل ہو کر ایک لاکڈ دروازے کو ماسٹر کی سے کھولتا بلڈنگ کے اندر گھس گیا۔ وہ لانڈری والا حصہ تھا۔ کچھ ملازماؤں کی آوازیں اس تک پہنچ رہی تھیں۔ وہ محتاط انداز میں قدم اٹھاتا لانڈری ہال کے دروازے کے قریب آیا۔ پھر ذرا سا اندر جھانکا۔ ملازمائیں کام میں مصروف تھیں۔ ایک عورت جو ان کی ہیڈ تھی انہیں ہدایات دے رہی تھی۔ حیان نے اندازہ لگایا وہ وہاں سے جانے والی تھی۔ اس کا اندازہ درست نکلا۔ وہ عورت دروازے کی طرف بڑھی۔ حیان تیزی سے ایک سٹور روم میں گھس گیا۔ عورت بھاری قدموں کی دھمک پیدا کرتی وہاں سے چلی گئی۔ حیان باہر نکلا اور ایک بار پھر لانڈری ہال پر نظر ڈال کر کسی چھلاوے کی طرح دروازے کی سامنے سے گزر گیا۔ جلد ہی وہ ابدال کے کمرے میں پہنچ چکا تھا۔ کمرے میں وقت ضائع کرنے کی بجائے اس نے سٹڈی روم کا رخ کیا۔ وہاں ڈیجیٹل لاک لگا تھا اور ابدال کے فون میں سیکیورٹی الرٹ سسٹم بھی ہو سکتا تھا۔ یہاں اسے ہیکر ثانی کی ضرورت تھی وہ اس کے ساتھ آڈیو ڈیوائس کے ذریعے کونیکٹڈ تھی اور لیپ ٹاپ لیے اسی کے حکم کی منتظر تھی۔ حیان نے ایک ڈیوائس کوٹ کی اندرونی جیب سے نکال کے لاک پر لگائی۔ ایک ٹیبلٹ ثانی کے سامنے کھلا۔ ثانی آگے کو ہو کر تیزی سے لیپ ٹاپ کی کیز پر انگلیاں چلانے لگی۔ کچھ ہی دیر میں لاک ناکارہ ہو گیا تھا۔ اور ابدال کو کوئی نوٹیفکیشن بھی نہیں ملا تھا۔ حیان جو بیتابی سے ارد گرد کا جائزہ لیتا لاک کھلنے کا انتظار کر رہا تھا تیزی سے اندر آیا اور دروازہ بند کر دیا۔
"کوئی کیمرہ بھی ہو سکتا ہے یہاں۔ چیک کرو۔ " حیان نے سارے سٹڈی روم میں ایک نگاہ دوڑاتے کہا۔
"نہیں ہے۔ " ثانی نے کنفرم کیا تو وہ ٹیبل کی طرف بڑھا جس پر کچھ فائلز رکھی ہوئی تھیں۔ اس نے ایک فائل اٹھا کر دیکھی۔ پھر دوسری اور تیسری۔ چوتھی پر وہ رکا۔ ابدال نے کورٹ میں اپنے جو اثاثے بتائے تھے ان میں کئی ایکڑ زمین بھی تھی۔ یہ فائل اسی متعلق تھی۔ ابدال ایک نئی زمین خرید رہا تھا جس کا ایریا بہت بڑا تھا۔ اتنی بڑے احاطے کی قیمیت بھی ظاہر تھی بڑی ہونی تھی لیکن ابدال نے کورٹ میں اپنے بینکس اکاؤنٹس کی جو رقم بتائی تھی وہ اتنی نہیں تھی کہ وہ زمین خریدی جا سکتی۔ اس کیلیے اسے اپنے پاس موجود کچھ زمین بیچنی پڑنی تھی لیکن نئی زمین لینے کیلیے پرانی بیچنی ہی تھی تو ضرورت کیا تھی نئی کی۔ حیان نے سوچتے ہوئے ایریا کی تفصیل پڑھی۔ وہ اتنی اہم بھی نہیں تھی جس کیلیے پرانی زمینوں کو بیچا جاتا ۔ مطلب اس کے پاس جتنا پیسا تھا اس نے اس سے کم کورٹ میں بتایا تھا اور وہ اس کے کسی خفیہ لاکر یا کسی اور کے نام کے اکاؤنٹ میں ہو سکتا تھا۔
"ثانی! کیا تم ابدال کی فیملی کے بینک اکاؤنٹس کو چیک کر سکتی ہو " اس نے کچھ سوچ کر پوچھا۔
"ہمم۔" ثانی نے ایش کو لیپ ٹاپ کے سامنے آنے کا اشارہ کیا اور خود صوفے پر جا کر نیم دراز سی لیٹتی ٹی وی دیکھنے لگی۔ بیچارہ ایش منہ ہی منہ میں کچھ بڑبڑاتا کام پر لگ گیا۔ دوسری طرف حیان کی نظریں اس پراپرٹی ڈیلر کے نام پر تھیں جو ابدال اور سیلر کے درمیان سودا کروا رہا تھا۔ اگر اسے اپروچ کیا جاتا تو ابدال کو نقصان پہنچایا جا سکتا تھا اور ساتھ ڈھیر ساری رقم حاصل کرنے کا موقع بھی مل سکتا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
0 Comments