Chragh e Drakhshan
by dua fatima
Chragh e Drakhshan Part 2
شاہ میر نیم دراز سا بستر پر بیٹھا تھا۔ دعا اس کے سامنے بستر کے کنارے پر بیٹھی اسے اپنے ہاتھوں سے سوپ پلا رہی تھی۔ نیناں کا نیند سے برا حال ہو چکا تھا سو وہ ساتھ والے کمرے میں سونے کیلیے چلی گئی تھی جو ابدال صاحب نے جانے سے پہلے دعا کیلیے ریزرو کروایا تھا ۔
"بس ۔" ابھی آدھا باؤل پڑا تھا کہ شاہ میر نے چہرہ پیچھے ہٹا لیا۔
"یہ سارا آپ کو ختم کرنا ہے۔ میں کوئی بات نہیں سنوں گی " دعا نے بڑی اماں کی طرح کہا اور زبردستی چمچ اس کے منہ میں گھسا دیا ۔ وہ مسکرا دیا۔
"تم ماما کی کمی پوری کر رہی ہو۔ " اس نے تبصرہ کیا۔منیبہ بیگم شاہ میر کو زبردستی زیادہ کھانا کھلاتی تھیں۔ دعا ماما کو یاد کر کے اداس سا مسکرا دی۔
"ماما بابا کو بتا دینا چاہیے ہمیں اب۔ "
"نہیں۔ وہ پریشان ہوں گے۔ ویسے بھی اب میں ٹھیک ہوں۔ "
"اگر بعد میں پتہ چلا تو وہ ناراض ہوں گے "
"بعد کی بعد میں دیکھی جائے گی۔ تم اپنے فیانسی کے بارے میں بتاؤ۔ کب ملوا رہی ہو؟" شاہ میر نے کہا تو اس کے چہرے پر ایک رنگ آ کر گزر گیا۔
"بعد میں ملوا دوں گی۔" اس نے ٹالنا چاہا۔
"ڈسچارج ہونے کے بعد گھر جاؤں گا تو اسے بلانا۔ میں پھر بتا رہا ہوں اگر وہ مجھے پسند نہ آیا تو میں تمہیں اس سے شادی نہیں کرنے دوں گا۔ " شاہ میر نے رعب سے کہا تو وہ خاموش رہی۔ تبھی کوئی دروازہ کھٹکھٹا کر کمرے میں داخل ہوا۔ دعا نے مڑ کر دیکھا وہ حیان تھا۔ ڈاکٹرز والا سفید اوور آل پہنے ایک نرس کے ساتھ شاہ میر کا معائنہ کرنے آیا تھا ۔
"ہاؤ آر یو مین!" وہ دعا پر ایک سرسری سی نظر ڈال کر شاہ میر کی طرف پوری طرح متوجہ ہو چکا تھا اور دعا کے دل میں درد کی ایک شدید لہر اٹھی تھی۔ وہ شہد رنگ آنکھیں اس کی دیوانی تھیں ۔ جب وہ حیان کے سامنے ہوتی تو وہ کسی اور طرف دیکھتا ہی نہیں تھا۔ لیکن اب حیان کی بے رخی اس کا دل بے چینی کے سمندر میں ڈبو گئی تھی۔ وہ کچھ پل کیلیے بھول گئی تھی کہ وہ اس کا شہزادہ نہیں تھا۔ شاہ میر حیان کو اپنی حالت کے بارے میں بتا رہا تھا۔ حیان ساتھ اس کی چارج شیٹ بھی چیک کر رہا تھا ۔ اسے دعا کی مسلسل نظر خود پر محسوس ہوئی تو اس نے دعا پر ایک گھوری ڈالی۔ وہ ہڑبڑا کر ہوش میں آئی اور بھائی کی طرف دیکھا ۔ شکر تھا شاہ میر کا دھیان اس کی طرف نہیں تھا۔ حیان نے شاہ میر سے نرمی سے بات کرتے ہوئے اسے ایک انجیکشن لگایا اور دعا کی طرف ایک نظر ڈالے بغیر کمرے سے نکل گیا۔ دعا دل مسوس کر کے رہ گئی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"سر ! اس کا آئی ڈی کارڈ ملا ہے " جعفر کے سیکرٹری عرفان کے ماتحت نے پرجوش سے انداز میں اسے وہ آئی ڈی کارڈ دکھایا جو حیان نے کانفرس ہال کے ریسٹ ایریا کی ڈسٹبن میں پھینکا تھا۔ عرفان نے کارڈ جھپٹا اور اسے غور سے دیکھا۔ اس پر گندمی رنگت کے ایک قبول صورت شخص کی تصویر تھی جس کے آدھے چہرے کو داڑھی نے ڈھانپ رکھا تھا اور ماتھے کو بالوں نے ڈھانپا ہوا تھا۔ آنکھوں پر چشمہ تھا ۔ تصویر بھی کافی دھندلی تھی۔ عرفان نے آنکھیں سکوڑیں۔ اسے سمجھ نہیں آئی یہ وہی شخص تھا یا نہیں۔ اسے تھوڑا بہت فرق بھی لگ رہا تھا اور نہیں بھی لگ رہا تھا۔ وہ مخمصے میں پڑ گیا تھا۔ اس نے نام دیکھا۔ عمر احمد لکھا ہوا تھا۔ اس نے کچھ دیر سوچا۔
"وہ تمہاری طرح بیوقوف تھوڑی ہے جو اپنی اصل شناخت یوں کہیں پھینک دے گا۔ " اس نے ماتحت کے سر پر چپت لگائی۔ اس کا منہ لٹک گیا۔
"ہو سکتا ہے نام چینج ہو لیکن شکل تو مجھے یہی لگتی ہے۔ میں نے اسے دیکھا تھا ۔"
"لیکن تصویر ایسی ہے کہ ہم ٹھیک سے پہچان نہیں سکتے "
"کسی ڈیٹیکٹو کمپنی سے رابطہ کر کے دیکھیں۔ کیا پتہ کام بن جائے۔ "
"ہمم ۔ یہی کرنا پڑے گا۔ سر جعفر نے ایک ہفتے کے اندر اندر اسے ڈھونڈنے کا کہا ہے۔ اگر یہ کام نہ ہوا تو ہم سب کو فائر سمجھنا۔" وہ پریشانی سے بولا تھا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"یہ بہانہ کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ تم کیریئر بنانے کا بہانہ بھی تو بنا سکتی ہو۔ تم کہنا تمہیں سائیکیٹری میں سپشلائزیشن کرنی ہے" ایش اس کے سامنے بیٹھا بے چینی سے کہہ رہا تھا۔
"تمہاری عقل گھاس چرنے گئی ہے کیا۔ پھر پڑھنا بھی پڑے گا۔ میں انگلینڈ تفریح کرنے جانا چاہتی ہوں بور ہونے نہیں ۔ پہلے ہی ہارٹ سرجن بننے میں میرے بال آدھے رہ گئے ہیں۔ جاب شروع کرنے سے پہلے میں کچھ ریلیکس ہونا چاہتی ہوں۔ " پونی میں بندھے بالوں کے ساتھ کھیلتی وہ مگن سی کہہ رہی تھی۔ ایک ہاتھ میں فون تھا۔ وہ امبریلا فراک میں ملبوس مشرقی اور مغربی حسن کا امتزاج لگ رہی تھی۔
"شادی ریلیکس ہونے کا طریقہ ہے کیا؟" ایش نے طنزیہ پوچھا۔
"نہیں۔ مجھے تو سر درد لگتا ہے لیکن انگلینڈ بھی تو جانا ہے۔ میں بعد میں بھائی سے کہہ دوں گی مجھے وہاں کوئی پسند نہیں آیا۔ " اس نے کندھے اچکا کر کہا تو ایش کی سانس میں سانس آئی۔
"بائے دا وے تمہیں اتنی پریشانی کیوں ہو رہی ہے میرے اس فیصلے سے؟" ثانی نے اسے آنکھوں سکوڑ کر گھورا۔ ایش گڑبڑایا۔
"میں دوست ہوں تمہارا ۔ مجھے تمہاری فکر ہے۔ "
"دوست ہی رہنا۔ کوئی اور خیال دل میں لایا تو میری اور تمہاری دوستی وہیں ختم ہو گی " وہ نخوت سے بولی تھی۔ ایش اس سے پوچھنا چاہتا تھا وہ کیوں اس کیلیے ایسا نہیں سوچ سکتا تھا ۔ لیکن وہ نہیں پوچھ سکا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"یار تمہیں ایسے کاموں کیلیے میں ہی کیوں ملتا ہوں؟" جزیل نے اپنے سامنے بیٹھے حیان کو چڑ کر کہا۔ وہ دونوں سٹڈی روم میں موجود تھے۔ حیان سفید جینز اور سفید ہی فل سلیو شرٹ میں ملبوس تھا اور جزیل ہمیشہ کی طرح فارمل ڈریس میں تھا۔
"تم اس کام میں ماہر ہو۔ اس لیے۔ " حیان نے کندھے اچکائے۔ جزیل گہری سانس بھر کر رہ گیا ۔ لڑکیاں جزیل کی شخصیت پر پل بھر میں ہی دل و جان سے فدا ہو جاتیں۔ اور کچھ جزیل کو بھی انہیں ڈیل کرنے کا طریقہ آتا تھا لیکن حیان لڑکیوں سے میٹھی باتیں بالکل بھی نہیں کر سکتا تھا۔
" تمہیں بس اسے خریدنے کا ناٹک کرنا ہے۔ اور پیسے بھی نہیں دینے۔ دیکھو اس میں کسی کا بھلا ہو جائے گا۔ عبید بیچارہ اپنی ساری رقم کشف پر لٹا رہا ہے۔ گناہ الگ کما رہا ہے۔ تم ایسا کر دو گے تو انہیں شادی کرنے کا موقع مل جائے گا ۔ " حیان نے اسے کنونس کرنے کیلیے لمبی تقریر کی۔
"اور اگر عبید کا اس سے دل بھر گیا اور اس نے شادی کے کچھ عرصے کے بعد اسے چھوڑ دیا تو؟" جزیل نے ایک اہم سوال کیا۔ حیان نے کچھ سوچا۔
"شادی سے پہلے ایگریمنٹ کروا لیں گے۔ طلاق کی صورت میں اسے اپنی ساری جائیداد کشف کو دینی ہو گی۔ پھر اس کا دل بھر بھی گیا تو طلاق نہیں دے گا۔ " حیان نے حل بتایا۔
"تم خدمت خلق کر کر کے تھکتے نہیں ؟" جزیل نے اسے گھورا۔
"ڈاکٹرز مسیحا ہوتے ہیں اور مسیحا انسانیت کی خدمت ہی کرتے ہیں۔ اور ویسے بھی اس میں میری غرض شامل ہے۔ تم عبید کیلیے نا سہی میرے لیے تو کچھ بھی کر سکتے ہو" اس نے کہا تو جزیل سر ہلا گیا۔
"ٹھیک ہے۔ میں تیار ہوں۔ تم وقت بتا دینا۔ "
"اوکے۔ وش یو بیسٹ آف لک۔" وہ مسکرا کر اٹھ کھڑا ہوا۔ تبھی دروازہ کھلا اور ثانی ایک ٹرے کے ساتھ اندر داخل ہوئی جس میں کافی کے تین کپ رکھے ہوئے تھے۔ اس کی سفید بلی بھی اس کے قدموں کے بیچ میں سے گزرتی اندر گھسی آ رہی تھی۔
"تم جا رہے ہو؟ میں نے کافی بنائی تھی تمہارے لیے۔" ثانی نے حیان کو آنکھوں ہی آنکھوں میں یاد دلایا اسے بھائی کو کنونس کرنے میں اس کی مدد کرنی ہے۔ وہ ٹرے میں سے ایک کپ پکڑ کر دوبارہ کرسی پر بیٹھ گیا ۔ ثانی گل نے ٹرے ٹیبل پر رکھی ایک کپ بھائی کے سامنے رکھا اور ایک خود اٹھا کر حیان کے ساتھ والی کرسی پر بیٹھ گئی۔
"بھائی میں شادی کیلیے تیار ہوں۔ " اس کی بات پر جزیل کی بھنویں حیرت سے اوپر کو اٹھیں۔ جبکہ سٹڈی روم کے باہر کھڑے ایش نے دل پر ہاتھ رکھا۔
"واقعی۔ پھر تمہارے لیے لڑکا دیکھوں؟" جزیل خوش ہوا۔
"مجھے پاکستانی لڑکے نہیں پسند۔ میں کسی انگلش نثاد سے شادی کرنا چاہتی ہوں۔" وہ خود بھی انگلش نثاد تھی سو اپنی خواہش کا اظہار کرنے میں ذرا نہیں ہچکچائی تھی۔
"ٹھیک ہے پر مسلم لڑکا ہونا چاہیے " جزیل نے تنبیہہ کی۔
"جی بھائی میرے میل دوستوں میں سب مسلم ہی تھے۔ ان میں سے کوئی دیکھوں گی اگر کوئی ابھی سنگل ہوا تو اس سے بات کروں گی۔ "
"تم خود مت کرنا۔ مجھے بتانا۔ میں کر لوں گا اس سے بات اور انٹرویو بھی لے لوں گا۔" جزیل نہیں چاہتا تھا وہ اگر کسی لڑکے کو پرپوز کرے تو اسے انکار ہو جائے۔
"اوکے لیکن اس کیلیے تو مجھے انگلینڈ جانا ہو گا نا۔" ثانیہ نے معصومیت سے آنکھیں پٹپٹائیں۔
"یہ فاسٹ کمیونیکیشن کا دور ہے۔ تم ویڈیو یا آڈیو کال پر بھی پتہ کر سکتی ہو کون تمہارے لیے بہتر ہے " جزیل نے اس کی دلیل رد کی۔ ثانی نے حیان کو دیکھا جو اب تک خاموشی سے کافی کی چسکیاں لے رہا تھا۔
"یار ایسے تو کوئی جھوٹ بھی بول سکتا ہے۔ یہ خود جا کر چھان بین کر لے تو بہتر ہے۔ اس بہانے اپنی دوستوں سے بھی مل لے گی " حیان نے کہا۔
"چھان بین کرنے کیلیے میں ہوں۔" وہ انٹرنیشل مافیا سے تعلق رکھتا تھا اور انگلینڈ میں اس کے کئی دشمن تھے ۔ اس لیے وہ ثانی کو وہاں نہیں بھیجنا چاہتی تھی۔
"پر آپ کو کیا پتہ مجھے کیسا لڑکا پسند ہے۔" ثانی نے منہ بنا کر کہا۔
"تم اس کے ساتھ بھی سیکیورٹی گارڈز بھیج دینا جیسے میرے پیچھے لگا رکھے ہیں۔ پھر فکر کی کیا بات ہے۔ " حیان نے کہا تو جزیل نے گہری سانس لی
"ٹھیک ہے۔ لیکن دو ہفتے سے زیادہ تم وہاں نہیں رکو گی۔" جزیل نے کہا تو وہ پرجوش سے سر ہلا دیا۔
"یو آر دا بیسٹ برو۔" وہ محبت سے مسکرائی اور کافی کا کپ وہیں رکھ کر اپنی گود میں بیٹھی بلی کو اٹھا کر باہر بھاگ گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاہ میر گھر آ چکا تھا ۔ اس نے دعا کو اسی دن طلال کو بلانے کا کہہ دیا تھا۔ دعا تذبذب میں پڑ گئی ۔ وہ اس معاملے کو مزید ٹالنا چاہتی تھی ۔ طلال کو بلانے کیلیے اسے خود سے کال کرنا بھی کے ٹو سر کرنے سے مشکل لگ رہا تھا۔ کچھ سوچ کر اس نے طلال کو ایک میسج کر دیا
"میرے بھائی تم سے ملنا چاہتے ہیں۔ اگر تم نہ آئے تو وہ تمہیں ریجیکٹ کر دیں گے۔ پھر جو مرضی کر لینا وہ میری شادی تم سے نہیں ہونے دیں گے " یہ میسج جب طلال نے پڑھا تو اس کے ماتھے پر پریشانی کی لکیریں ابھریں ۔ اسے نہیں پتہ تھا دعا کا کوئی بھائی بھی ہو گا۔ اگر وہ نہ جاتا تو تب بھی اس کے بھائی پر برا اثر پڑتا اور اگر جاتا تو تب بھی وہ ریجیکٹ ہو سکتا تھا۔ اس نے خود کو انٹرویو کیلیے بہتر طریقے سے تیار کرنے کا سوچا اور شام کو بابر ہاؤس پہنچ گیا۔
"یاد رکھنا اگر تمہارے بھائی نے مجھے ریجیکٹ کر دیا تو میں تب بھی تمہارا پیچھا نہیں چھوڑوں گا۔" دعا سے سامنا ہوتے ہی اس سے دھیمے مگر سرد انداز میں اسے دھمکی دی تو دعا نے کچھ پل اسے بے تاثر نظروں سے دیکھا۔ پھر اسے شاہ میر کے کمرے میں جانے کا اشارہ کیا۔ وہ کوٹ درست کرتا دستک دے کر شاہ میر کے کمرے میں داخل ہوا۔ شاہ میر نے غور سے اسے دیکھا۔ وہ شکل کا برا نہیں تھا لیکن اسے پہلی ہی نظر میں اس بندے سے اچھی وائبز نہیں آئی تھیں۔
"اسلام علیکم" طلال نے شرافت کا چولا پہنتے شائستہ لہجے میں کہا۔
"وعلیکم السلام۔ بیٹھیں۔ " شاہ میر نے اسے صوفے پر بیٹھنے کا کہا ۔ وہ پراعتماد انداز میں بیٹھ گیا۔ شاہ میر اس سے چھوٹے موٹے سوال کرنے لگا۔ جس کے اس نے بڑی عمدگی سے جواب دیے۔ پھر بھی شاہ میر پوری طرح اس سے مطمئن نہ ہو پایا۔ اس کے جانے بعد دعا شاہ میر کے کمرے میں آئی تو شاہ میر نے دعا کو اپنے پاس بٹھا لیا۔
"مجھے اس میں کوئی خاص برائی تو نہیں دکھی لیکن پھر بھی مجھے وہ تمہارے لیے پسند نہیں آیا۔ اس سے بات کرنے کے دوران مجھے تھوڑا بہت اس کے مزاج کا اندازہ ہو گیا ہے۔ مجھے نہیں لگتا وہ تمہارے لیے پرفیکٹ ہے۔ " شاہ میر اس کا ہاتھ تھامے سمجھانے والے انداز میں کہہ رہا تھا اور دعا کو اپنے بھائی کی فکر مندی پر پیار آ رہا تھا ۔ اس کا دل کیا اسے سب کچھ بتا دے لیکن پھر اسے نیناں اور آبرو یاد آئیں اور طلال کی وہ دھمکی۔ اگر وہ ڈائریکٹ شادی سے انکار کر دیتی تو طلال کچھ بھی کر سکتا تھا ۔ اس کا بھائی زخمی تھا۔ وہ اسے بھی نقصان پہنچا سکتا تھا ۔ اس نے اپنے آنسو اپنے اندر ہی اتارتے ہاتھ شاہ میر کے ہاتھ سے نکال لیا۔
"لیکن بھائی وہ میری پسند ہے ۔ اور ہماری منگنی بھی ہو چکی ہے۔ " وہ اس سے نظریں ملائے بغیر بولی تو شاہ میر اسے دکھ سے دیکھ کر رہ گیا۔ اسے وہ چھوٹی سی دعا یاد آئی جو ہر چیز اس سے پوچھ کر کرتی تھی۔
"بھائی یہ کھا لوں۔ بھائی یہ لے لوں، بھائی یہ دلا دیں۔ " کتنے ہی منظر اس کی آنکھوں کے سامنے سے گزر گئے۔ وہ چہرہ پھیر گیا۔ دعا کا دل ڈوب کر ابھرا۔ وہ جانتی تھی وہ اپنے بھائی کو بہت ہرٹ کر چکی تھی۔ لیکن وہ کیا کرتی ۔ وہ بے بس تھی۔
"میں اس سے شادی نہیں کروں گی بھائی۔ یہ میرا وعدہ ہے آپ سے۔" وہ دل ہی دل میں بولی اور اٹھ کر کمرے سے نکل گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ریشماں بائی حسب معمول اپنے بھاری جسم کو برآمدے میں تخت پر رکھے پان کھانے میں مصروف تھی جب ایک ملازم نے آ کر اسے کسی نئے خریدار کے آنے کی اطلاع دی۔ اس کا دل خوشی سے جھوم اٹھا اور وہ خود بھی جھومتی اٹھ کر جدید طرز کے لاؤنج میں آئی جہاں ملازم نے جزیل کو بٹھایا تھا۔ اس کے ساتھ اس کا پی اے اویس بھی ساتھ تھا جو ہاتھ باندھے اس کے قریب کھڑا تھا جبکہ وہ ٹانگ پر ٹانگ رکھے صوفے پر بیٹھا تھا۔ اس کے ٹھاٹھ باٹھ دیکھ کر ریشماں بائی پہلی ہی نظر میں جان گئی تھی کہ وہ بڑی آسامی ہے ۔ لہٰذا اس نے اپنی مکروہ مسکراہٹ کو مزید پھیلایا اور نوابوں کے سے انداز میں جھک کر آداب کرتی اس کے سامنے بیٹھی۔
"کیا نام ہے جناب کا؟" وہ فدا ہونے والے انداز میں بولی۔
"جزیل ذکریا " بائی نے سر ہلایا ۔
"کس قسم کی لڑکی چاہیے آپ کو ؟"
"کشف چاہیے اور ہمیشہ کیلیے " جزیل نے سکون سے کہا۔ بائی کچھ چونکی۔
"آپ کشف کو جانتے ہیں۔"
"ہاں اس کے حسن کے بارے میں بہت سنا ہے۔" جزیل لاپرواہ انداز میں کندھے اچکا گیا۔ بائی نے دانت نکالے۔
"جی جی ۔ وہ بہت خوبصورت ہے۔ میری بیٹی جو ہوئی ۔" بائی خود بھی خوبصورت تھی لیکن اس پر برستی لعنت نے ساری خوبصورتی کہیں گم کر دی تھی۔
"اس کی قیمت بہت زیادہ ہے۔ آپ خرید سکیں گے اسے " بائی نے پوچھا۔
"قیمت بتاؤ۔" جزیل نے بے تاثر لہجے میں کہا۔
"تین کروڑ ۔" جزیل نے اپنے سیکرٹری آہد کی طرف دیکھا جس نے جھک کر اس کے سامنے ٹیبل پر ایک چیک بک رکھ دی۔ جزیل نے کوٹ کی اندرونی جیب سے بال پوائنٹ نکالتے ٹانگ سے ٹانگ اتاری اور آگے کو ہو کر چیک بک پر تین کروڑ کی رقم لکھ کر سائن کیا اور چیک کاٹ کر بائی کی طرف بڑھایا۔ بائی پھٹی پھٹی آنکھوں سے کچھ پل چیک کو دیکھتی رہی پھر جھپٹ کر اسے پکڑ لیا۔
"شنو! " بائی نے اپنے ملازم کو آواز لگائی۔ وہ بوتل کے جن کی طرح حاضر ہوا۔
"کشف سے کہہ تیار ہو جائے۔ اسے یہاں سے جانا ہے۔ "
"نہیں تیار کرنے کی ضرورت نہیں۔ ایسے ہی بھیج دیں۔ مجھے جلدی ہے۔ " جزیل اٹھ کھڑا ہوا۔ اس سے پہلے کہ بائی اسے خاطر تواضع کیلیے روکتی وہ آہد کو ایک نظر دیکھ کر آگے بڑھ گیا۔
کچھ دیر بعد کشف روتی دھوتی آہد کے ساتھ باہر آئی تو گاڑی کی فرنٹ سیٹ پر بیٹھے شخص کو دیکھ کر اس کی آنکھیں چندھیائیں۔ اگر اس شخص نے اسے خریدا تھا تو پھر عبید کو بھولنا مشکل نہیں تھا۔ اس نے سوچتے ہوئے اویس کو دیکھا۔ اس نے کشف کیلیے گاڑی کا پچھلا دروازہ کھولا۔ وہ مطمئن سی اندر بیٹھ گئی۔
دوسری جانب عبید کے آفس میں اس کے سامنے بیٹھے حیان نے فون کان سے ہٹایا اور اپنی طرف بیتابی سے دیکھتے عبید کو دیکھا۔
"کام ہو گیا " وہ اٹھتے ہوئے بولا۔
"کھاؤ قسم۔" عبید بھی کرنٹ کھا کر اٹھا۔ حیان نے قسم کھانے کی بجائے فون کی سکرین اس کی طرف کی جس میں کشف ایک گاڑی میں بیٹھی نظر آ رہی تھی۔ عبید نے دانت نکالتے ہوا میں مکا لہرایا ۔ حیان سر جھٹکتا آگے بڑھ گیا۔ عبید بھی کسی دھن کو گنگناتا جھومتا اس کے پیچھے آیا۔ کچھ دیر بعد وہ دونوں ایک گاڑی میں بیٹھے بابر ہاؤس کی طرف جا رہے تھے۔ حیان گاڑی چلا رہا تھا اور عبید ابدال بابر سے کال پر بات کر رہا تھا ۔
"دراصل مجھے کل ضروری کام سے شہر سے باہر جانا ہے تو میں نے سوچا آج ہی آپ کا چیک اپ کر لوں..... نہیں میں خود آپ کے دولت خانے پر حاضر ہو جاتا ہوں۔ اوکے۔ " وہ ترنگ بھرے لہجے میں کہتا کال کاٹ گیا۔
"اچھا تم ڈاکٹر کا ناٹک کرنے کیلیے تھوڑی بہت معلومات لے لو تاکہ کسی کو تم پر شک نہ ہو۔" عبید نے اپنی دانست میں بہت اہم بات کی تھی۔ پر اسے کیا پتہ تھا وہ نیورو سرجن تھا ۔ لیکن اس نے عبید کو ٹوکا نہیں اور اس کی بات بے تاثر چہرے کے ساتھ سنتا رہا ۔
جب وہ بابر ہاؤس پہنچے تو رات گہری ہو چکی تھی۔ حیان عبید کے ساتھ سیکورٹی سے گزر کر ابدال کے کمرے تک پہنچ گیا لیکن کوئی بھی نہ جان سکا وہ وہی رپورٹر تھا جس نے جعفر اور کبیر کے ساتھ ابدال کو بھی نہیں بخشا تھا۔ اس وقت اس کے بال اپنے اصلی رنگ میں تھے یعنی سنہرے تھے اور آنکھوں پر کالے لینز لگے تھے۔ چہرے پر ہلکی سی داڑھی تھی۔ وہ عبید کا میڈیکل کٹ پکڑے ہوئے تھا۔ بیڈ پر نیم دراز ابدال بابر نے ایک سرسری سی نظر اس پر ڈالی اور انہیں بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ وہ دونوں اس کے قریب رکھی کرسیوں پر بیٹھ گئے۔ سرتاج بیگم کمرے میں نہیں تھیں۔
"یہ میرا سیکرٹری ہے۔ " عبید نے وضاحت دیتے میڈیکل کٹ کھول کر ابدال کو چیک کرنا چاہا۔ اس دوران حیان نظر بچا کر ایک ڈیوائس بیڈ کے نیچے پھینک چکا تھا۔ ابدال کو انجیکشن لگانے میں حیان نے بھی ڈاکٹر کی مدد کی تھی ۔ اس دوران اس کے سینے میں اٹھتے طوفان کیسے اسے جلا رہے تھے یہ وہی جانتا تھا۔
ابدال کے کمرے سے نکل کر واپسی کیلیے جاتے ہوئے حیان کا اچانک دعا سے سامنا ہو گیا۔ حیان ایک پل کو ٹھٹکا پھر آگے بڑھ جبکہ دعا کچھ پل ساکت سی وہی جمی رہی پھر مڑ کر اسے دیکھنے لگی۔ اس کے سنہرے بالوں نے اسے بہت کچھ یاد دلایا تھا جبکہ حیان سوچ رہا تھا کہ وہ لڑکی کیوں بار بار اس کے راستے میں آ رہی تھی۔ پھر ایک اور خیال آیا تو اس کی بھنویں اوپر کو اٹھ گئیں۔ وہ دعا کے بھائی کا چیک اپ کرنے کیلیے دوبارہ یہاں آ سکتا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"بائی غضب ہو گیا ۔" ریشماں بائی کا ملازم بھاگتا ہوا اس کے سامنے آیا۔ بائی نے ناگواری سے اسے ہانپتے دیکھا۔
"کیا مصیبت پر گئی ہے۔ گھنٹے کا رکھے چیک کیش کروا کر محفوظ ٹھکانے پر پہنچانے کا کہا ہوا تھا۔ ہو گیا کیا ؟" بائی نے حکمیہ لہجے میں پوچھا۔
"بائی وہ ... وہ "
"ابے کیا وہ وہ کی رٹ لگا رکھی ہے۔ پھوٹ بھی دے کیا ہوا ہے ۔"
"بائی چیک کیش نہیں ہوا۔ " بائی سپرنگ کی طرح اچھلی
"کیا؟" وہ حلق پھاڑ کر چیخی۔
"بیک والے کہتے ہیں اس نام کا کوئی اکاؤنٹ نہیں " ملازم اس کے تیور دیکھ کر سہما۔ بائی کچھ پل پھٹی پھٹی آنکھوں سے سکتے میں رہی پھر طیش سے چلائی۔
"کیا بکواس کر رہا ہے۔ ایسے کیسے ہو سکتا ہے۔ " اس کا دماغ ماؤف ہو گیا تھا۔ غصے میں کچھ دیر اس کے منہ سے گالیوں کی بوچھاڑیں نکلتی رہیں پھر جب دماغ کچھ ٹھکانے پر آیا تو اس نے ملازم سے فون لانے کا کہا۔ ملازم نے تیزی سے اسے فون پکڑایا اس نے حکومت کے کسی اعلیٰ افسر کو کال ملائی اور اسے جزیل کی خبر لینے کا کہا لیکن اس نے معذرت کر لی کیونکہ جزیل اس کی پہنچ سے باہر تھا۔ بائی کو احساس ہو گیا تھا کہ دنیا میں صرف وہی طاقتور نہیں جو جب چاہے جو چاہے کر دے۔ جزیل سے ٹکر نہ لینا ہی اس کے فائدے میں تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"سنو تمہارے باس کہاں ہیں؟" کشف نے آہد سے کہا تو وہ چونکا۔
"وہ اپنے روم میں آرام کر رہے ہیں۔ آپ کو کچھ چاہیے تو بتائیں۔ " آہد نے بے تاثر لہجے میں کہا ۔
"مجھے ان سے ملنا ہے۔ "
"میں نے کہا نا وہ آرام کر رہے ہیں ۔ عبید رضا کچھ دیر میں آنے والے ہوں گے آپ کمرے میں جا کر آرام کریں۔ " آہد نے سخت لہجے میں کہا۔
"تم کون ہوتے ہو مجھے روکنے والے۔ وہ غصے سے کہہ کر اسے دھکا دیتی آگے بڑھی۔
"رکیں مس کہاں جا رہی ہیں۔" آہد اس کے پیچھے لپکا۔ سیڑھیوں پر کھڑی ثانی گل سینے پر بازو باندھے نفی میں سر ہلانے لگی۔
"ایک اور لڑکی بھائی کے عشق میں گرفتار ہو گئی۔"
"یہ کیسی محبت ہوئی ۔ پہلے وہ عبید کیلیے پاگل تھی۔ اب جزیل کو دیکھ کر اس پر مر مٹی ہے " ایش نے منہ بنا کر کہا۔
"یہ بھی انسانوں کی ایک قسم ہے۔ ان کی پسند نئے نئے چہروں کی خوبصورتی کے ساتھ بدلتی رہتی ہے۔ ۔ " ثانی گہری سانس بھر کر رہ گئی۔
دوسری طرف جزیل کسی ضروری کام سے گھر سے جانے کیلیے کمرے سے نکلا تو سامنے کا تماشہ دیکھ کر ٹھٹکا۔ آہد کشف کو بازو سے پکڑے کچھ کہہ رہا تھا ۔ جواباً وہ بھی تلخ کلامی کر رہی تھی۔
"یہ کیا ہو رہا ہے؟" جزیل ان کے قریب آیا۔ آہد نے جلدی سے کشف کا بازو چھوڑا۔ کشف اسے دیکھ کر پہلے گھبرائی پھر خود کو سنبھال کر دلربا سی مسکرائی ۔ جزیل کے ماتھے پر بل پڑے۔
"صاحب آپ نے مجھے خریدا ہے۔ اب میں آپ کی غلام ہوں۔ میں عبید کے ساتھ نہیں جاؤں گی " وہ کسی کنیز کی طرح بولی تھی۔ جزیل نے گہری سانس بھری۔
"آہد اسے اس کی ماں کے گھر چھوڑ آؤ اگر یہ عبید کے پاس نہیں جانا چاہتی۔" وہ آہد سے کہہ کر آگے بڑھ گیا۔ کشف کا منہ کھل گیا۔ آہد نے اسے جتاتی نظروں سے دیکھا تو وہ شرمندہ ہو گئی۔ اور پیر پٹختی گیسٹ روم میں چلی گئی۔ کچھ دیر بعد عبید اسے لینے آیا تو بادل ناخواستہ وہ اس کے ساتھ چل پڑی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"یار اس کے بال بھی سنہری ہیں۔ اس کی آنکھیں بھی شہد رنگ ہیں۔ اس کا نام بازل بھی ہے اور حیان بھی۔ وہ شہزادے کی طرح ڈاکٹر ہے۔ بس وہ شہزادے جیسے مزاج والا نہیں۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہا یہ میرے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ قسمت میرے ساتھ کونسا کھیل کھیل رہی ہے۔ " دعا کمرے میں ٹہلتی فون پر نیناں سے کہہ رہی تھی۔
"قسمت جو بھی کھیل کھیل رہی تم بس کھیلتی جاؤ اور زیادہ نہ سوچو۔ " نیناں نے اپنا سامان پیک کرتے ہوئے کہا تھا ۔ وہ گھر جا رہی تھی۔ فون ٹیبل پر پڑا تھا اور سپیکر آن تھا ۔
"لیکن ایسا کیوں ہو رہا ہے میں خود کو سوچنے سے نہیں روک سکتی۔ اگر وہ صرف خواب تھا تو حقیقت میں کیسے آ گیا۔ اگر وہ فینٹیسی تھی تو کیا یہ وہی حیان یہ یا اس کا ہم شکل اور ہم نام۔" دعا نے سر پر ہاتھ پھیرا۔
"خواب تھا یا فینٹیسی میں وثوق سے نہیں کہہ سکتی لیکن مجھے لگتا یہ وہی حیان ہے۔ ایک دنیا میں اس نے تم سے محبت کی اور اب اس ورلڈ میں تمہیں اس سے محبت کرنی ہے۔ " نیناں نے کہا تو وہ کچھ پل خاموش رہی۔ نیناں ٹھیک کہہ رہی تھی ۔ وہ خود کو حیان سے محبت کرنے سے روک نہیں پا رہی تھی ۔ اگر اس کے ساتھ وہ فینٹیسی نہ ہوئی ہوتی تو وہ اس شخص کی طرف متوجہ بھی نہ ہوتی۔ اس نے خود سے یہ عہد کیا ہوا تھا خود کسی کے پاس چل کر نہیں جائے گی۔ ایسی عورت کی کوئی عزت نہیں کرتا جو محبت کی خاطر اپنی عزت قدموں تلے روند دے۔ لیکن محبت کرنے پر تو اختیار نہیں کسی کا۔
"میں اس نام اور چہرے سے محبت کرتی ہوں نیناں لیکن میں اس محبت کو کبھی ظاہر نہیں کروں گی۔ میں نے خواہش کی تھی کہ حیان مجھے میری دنیا میں مل جائے اور وہ مل گیا لیکن میں اس کیلیے اجنبی ہوں ۔ اور یہ بات مجھے تکلیف دیتی ہے۔ وہ آنکھیں جو مجھے دیکھنے پر خوشی سے چمک اٹھتی تھیں اب مجھے پہچاننے سے ہی عاری ہیں۔" وہ یاسیت سے کہہ رہی تھی۔ نیناں کو سمجھ نہ آئی وہ اسے کیا کہے۔
"شہزادے کی موت کا منظر ابھی بھی میری نظروں کے سامنے ہے اور ایک امید بھی کہ وہ نہ مرا ہو۔ "
"وہ صرف ایک کہانی تھی ۔ پلیز اسے ایک کہانی کے طور پر لو تو تم اس غم سے باہر نکل آؤ گی۔ "
"ہاں وہ کہانی تھی لیکن کسی اور دنیا کی۔ ملٹی ورس یا کسی اور ڈائمینشن کی۔" دعا نے کہا ۔
"جو بھی تھا وہ گزر چکا ۔ تم اسی پر فوکس کرو جو حقیقت ہے۔ " نیناں نے کہا تو وہ سر ہلا گئی ۔ لیکن شہزادہ اسے بار بار یاد آنے لگا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عرفان کو ڈیٹیکٹو کی ای میل مل گئی تھی ۔ اس نے بتایا تھا کہ اسے عمر احمد نامی شخص کا پتہ چل چکا ہے اس کا اصل نام کوئی اور تھا ۔ لیکن جو تصویر دی گئی تھی اس کا ریکارڈ ایک ایئرپورٹ سے ملا تھا۔ وہ امریکہ جا چکا تھا یہ عرفان کے لیے بہت مایوس کن خبر تھی وہ جعفر کو بتاتے ہوئے ڈر رہا تھا اس کی بات سن کر جعفر نے اسے کھا جانے والی نظروں سے گھورا جیسے سارا اسی کا قصور ہو۔
"چلو شکر خطرہ تو سر سے ٹلا ۔" کبیر نے گہری سانس لی۔
"نہیں ہو سکتا ہے وہ ہمارے کسی خاص دشمن کا مہرہ ہو اور اس سے کام نکلوانے کے بعد اسے منظر عام سے غائب کیلیے ملک سے باہر بھیج دیا گیا ہو۔" جعفر نے نفی میں سر ہلا کر کہا تو کبیر بھی تشویش میں پڑ گیا۔
"اگر ایسا ہے تو یہ بہت خطرے کی بات ہے۔ ہم ایسے دشمن تک کبھی نہیں پہنچ پائیں گے اور وہ جب چاہے گا ہم پر وار کر دے گا۔ " کبیر نے کہا۔
"ہمیں اسے ہر حال میں ڈھونڈنا ہے۔ " جعفر نے کہہ کر عرفان کو دیکھا۔
"کوئی بندہ بجھواؤ امریکہ۔ اس کا پتہ لگانے۔ وہ اہم مہرہ ہو گا تبھی اس سے کان نکلوا کر مروانے کی بجائے محفوظ جگہ بھیج دیا " اس نے کہا تو عرفان سر کو خم دیتا لاؤنج سے نکل گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابدال کے کمرے میں نائٹ بلب روشن تھا۔ سرتاج بیگم بیڈ کے ایک کنارے پر لیٹی سونے کی تیاری کر رہی تھی جبکہ ابدال بالکونی کے قریب کھڑا جعفر سے بات کر رہا تھا ۔
"ہمم۔ یہ تو واقعی بہت خطرے کی بات ہے۔ " اس نے پیشانی مسلی۔ پھر کچھ دیر جعفر کی بات سنی۔
"ٹھیک ہے۔ جو بھی ہو مجھے بھی انفارم کرنا" ابدال فون بند کر کے بیڈ پر آیا تو سرتاج بیگم نے غور سے اسے دیکھا ۔
"کیا ہوا ابدال! آپ پریشان لگ رہے ہیں " سرتاج بیگم نے تجسس سے پوچھا۔
"نہیں۔ کوئی خاص بات نہیں۔ جعفر بتا رہا تھا ہمیں سکینڈیلائز کرنے والا شخص ملک سے باہر چلا گیا ہے اور ہو سکتا ہے وہ کسی کا مہرہ ہو۔ اصل دشمن کوئی اور ہو۔" ابدال نے نیم دراز ہوتے فون پر نظریں جمائے کہا۔ وہ فون پر کچھ ٹائپ بھی کر رہا تھا ۔
"یہ تو بہت مسلہ ہو جائے گا۔ "
"ہاں لیکن میرے لیے اتنی فکر کی بات نہیں۔ جعفر اور کبیر ہی اس کے ڈائریکٹ ٹارگٹ تھے۔ میں نے جو کرپشن کی خمیازہ بھی تو بھگت رہا ہوں۔" اس کا اشارہ ہر ماہ کورٹ کے چکر لگانے سے تھا۔ یہ اس کی نظر میں خمیازہ تھا ۔ پھر بھی وہ کرپشن کرنے سے باز نہیں آ رہا تھا ۔
"کچھ عرصے کی بات ہے۔ پھر آ با عزت بری ہو جائیں گے " سرتاج نے اسے تسلی دی۔ اس نے سر ہلایا۔
"کل میری فلائٹ ہے لاہور کیلیے۔ یاد ہے نا۔"
"ہاں۔ میں بھی سوچ رہی ہوں کل اماں کے گھر چلی جاؤں "
"ہاں چلی جانا۔" وہ کہہ کر آنکھیں بند کر گیا تھا ۔ اور اس کے بیڈ کے نیچے پڑا ننھا سا آلہ حیان کے کانوں پر لگے ہیڈ فونز پر ان کی گفتگو بہت صاف سنا چکا تھا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جہاز کے پرسکون ماحول میں لوگ اپنی اپنی آرام دہ سیٹوں پر بیٹھے تھے۔ جہاز ٹیک آف کر چکا تھا اور اب بادلوں کی درمیان سے اپنا راستہ بناتا انگلینڈ کی طرف محو پرواز تھا۔ ثانی گل کھڑکی کی طرف بیٹھی تھی جبکہ ایش اس کے برابر بیٹھا ہوا تھا ۔ ان کے ساتھ دو سیکیورٹی گارڈز بھی تھے جن کو جہاز کے آخری حصے میں جگہیں ملی تھیں۔
"فائنلی میں لندن جا رہی ہوں "
"تم تو ایسے کہہ رہی ہو جیسے پہلے کبھی گئی ہی نہیں " ایش نے منہ بنا کر کہا۔
"حقیقت میں تو نہیں گئی نا۔"
"سوری ٹو سے۔ تم اپنا بچپن اور نوجوانی وہاں گزار کر آئی ہو۔"
"اس کی بات نہیں کر رہی سٹوپڈ۔" ثانی نے چڑ کر کہا۔ وہ خاموش ہو گیا۔ کہتا بھی کیا۔
"اچھا سنو۔" ثانی نے چہرہ اس کی طرف پھیرا تو اس نے بھنویں اچکائیں۔
"جہاز سے اترتے ہی ان سیکیورٹی گارڈز سے چھٹکارا حاصل کرنا ہے۔ "
"مجھے کرنا ہو گا یہ؟" ایش نے اپنی طرف اشارہ کیا ثانی نے اس کے طنزیہ لہجے پر اسے ایک گھوری سے نوازا۔
"ٹھیک ہے کر لوں گا۔ ویسے ہیکرز کے سکلز کسی سے ییچھا چھڑا سکتے ہیں؟"وہ شرارت سے باز نہ آیا۔
"ہاں۔ تم سے پیچھا چھڑواتی ہوں۔ پھر جان جاؤ گے ہیکرز کیسے کسی سے پیچھا چھڑواتے ہیں " ثانی نے دانت پیسے۔
"ارے نہیں نہیں ۔ میں نے تو ایسے ہی کہہ دیا ۔ بلکہ میرے منہ سے نکل گیا۔ تم سیریس مت لو ۔ میں ان سیکیورٹی گارڈز سے پیچھا چھڑوا لوں گا۔" ایش نے ہاتھ اٹھاتے کہا۔ ثانی نے نخوت سے نظریں پھیر لیں اور کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
0 Comments