Header Ads Widget

Chragh e drakhshan Epi 3 - by dua fatima

 

Chragh e Drakhshan

by dua fatima

Chragh e Drakhshan Part 2

Episode 3

حیان ریسیپشن کاؤنٹر کے قریب کھڑا کسی ڈاکٹر سے بات کر رہا تھا جب اینٹرینس سے کچھ لوگ ایک زخمی شخص کو سٹریچر پر ڈالے ایمرجنسی اوارڈ کی طرف لے کر جا رہے تھے۔ حیان نے بات روک کر زخمی شخص کو دیکھا۔ اسے دور سے ہی پتہ چل گیا کہ اس کی حالت کریکٹکل تھی۔ وہ اپنے سامنے کھڑے ڈاکٹر سے بعد میں بات کرنے کا کہہ کر ایمرجنسی وارڈ کی طرف بڑھا۔ حالانکہ دو ڈاکٹرز وہاں پہلے سے پہنچ چکے تھے۔ وہ بھی کمرے کے اندر آ گیا۔ ایک جوان خوبرو شخص بے ہوش بستر پر پڑا تھا۔ اس کے ارد گرد دو ڈاکٹرز اور تین نرسیں تھیں۔ 

 "سرجری کرنی پڑے گی۔ " ایک ڈاکٹر نے اس کے سر کا زخم دیکھتے ہوئے بتایا۔ 

 "پہلے اس کے بیک گراؤنڈ کا پتہ کرواؤ۔ ورنہ ہیڈ اجازت نہیں دیں گے۔ " دوسرے نے کہا۔ 

 "اجازت لینے کا وقت نہیں۔ دیکھ نہیں رہے اسے فوری سرجری کی ضرورت ہے۔ اگر بیک گراؤنڈ معلوم کرنے بیٹھ گئے تو وہ مر بھی سکتا ہے۔" حیان نے کہا تو دونوں نے اسے بس خاموشی سے دیکھا۔ اس کے ساتھ وہ بحث کرنے سے بچا ہی کرتے تھے کیونکہ وہ جانتے تھے اس سے بحث میں جیتنا ناممکن تھا۔ حیان نے نرسوں سے کہہ کر زخمی کو آپریشن روم کی طرف بھجوا دیا ۔ 

 "سر کو پتہ چلا تو وہ تمہیں فائر کر دیں گے۔ آدھا گھنٹہ لگے گا اس کے بارے میں معلومات کروانے میں ۔ تھوڑی دیر رک جاؤ۔" وہ سکرب پہننے جا رہا تھا جب ڈاکٹر سلیمان نے اسے ایک بار پھر روکنا چاہا۔ 

 "فائر کر دیا تو کسی اور ہاسپٹل چلا جاؤں گا۔ میں کونسا ان کا محتاج ہوں ۔ اگر تمہیں فکر ہے تو آپریشن کی بجائے اس کی انفارمیشن ڈھونڈ لو۔ " وہ کہہ کر آگے بڑھ گیا تھا۔ ڈاکٹر سلیمان بھی ایک پل بعد اس کے پیچھے لپکا تھا۔ 

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 دعا کو ڈرائیور لینے آیا تو وہ حیران ہوئی ۔ کہیں پھر طلال والا معاملہ نہ ہو۔ اس نے کوفت سے سوچا اور نیناں کو بتا کر گاڑی میں آ بیٹھی۔ ڈرائیور نے گاڑی سٹارٹ کر دی۔ دعا نے تایا جان کو کال کی لیکن انہوں نے پک نہیں کی۔ ایسا تب ہی ہوتا تھا جب وہ بزی ہوتے تھے۔ تائی جان کو کال کی تو انہوں نے بتایا وہ ایک پارٹی میں ہیں ۔ انہیں نہیں پتہ تھا کہ اسے گھر کیوں بلوایا گیا۔ 

 "آپ کو پتہ ہے انکل مجھے تایا جان نے گھر کیوں بلوایا ؟" اس نے پرسوچ انداز میں پوچھا۔ 

 "گھر تو نہیں لیکن آپ کو ہاسپٹل لے کر جانے کا کہا ہے۔ شاہ میر صاحب آج اسلام آباد پہنچے تھے ان کا ایکسیڈینٹ ہو گیا۔ ابدال صاحب تو ایک ضروری میٹنگ کیلیے جا رہے تھے اور بیگم صاحبہ پہلے ہی ایک پارٹی پر گئی ہوئی تھیں انہوں نے کہا آپ کو ہاسپٹل چھوڑ دوں وہ بعد میں آ جائیں گے۔ " ڈرائیور اپنے ازلی بھولے انداز میں بتا رہا تھا جبکہ دعا کا دل و دماغ خوف اور بے چینی سے بھر گیا تھا۔ آنکھوں میں بے اختیار نمی بھر آئی تھی۔ 

 "گاڑی کی سپیڈ تیز کریں انکل۔ " وہ یکدم تیزی سے بولی۔ ڈرائیور نے سپیڈ مزید تیز کر دی۔ دعا امید اور خوف کے درمیان معلق کانپتے دل کے ساتھ اپنے بھائی کیلیے دعائیں کرنے لگی تھی۔

ہاسپٹل کے سامنے گاڑی رکی تو وہ تیزی سے اینٹرینس کی طرف بڑھی۔ ریسیپشن سے شاہ میر کے بارے میں پوچھا تو اس نے ایک آپریشن وارڈ کا بتایا ۔ وہ بھاگتی ہوئی ایک راہداری میں آئی تو اسے وہ آپریشن روم نظر آیا جس میں اس کے بھائی کی سرجری ہو رہی تھی۔ وہ دروازے کے قریب آئی۔ آنسو گالوں پر بہہ نکلے۔ وہ دروازے سے سر ٹکا کر رو پڑی۔ چند لمحوں بعد پیچھے ہٹ کر ایک بینچ پر بیٹھ گئی اور زیر لب کوئی دعا پڑھنے لگی۔ پانچ منٹ ہی گزرے تھے کہ آپریشن روم کا دروازہ کھلا اور ڈاکٹرز کمرے سے باہر نکلے دعا تیزی سے اٹھ کر ان کی طرف بڑھی۔ بھیگی آنکھوں والی اس لڑکی کو دیکھ کر حیان ایک لمحے کیلیے تھما تھا ۔ اس کے چہرے پر سفید ماسک تھا اور وہ ہاتھوں سے گلوز اتار رہا تھا۔ 

"ڈاکٹر میرا بھائی!" اگر عام حالت ہوتی تو وہ اس کی شہد رنگ آنکھین پہچان جاتی لیکن اب اس کا زہن صرف شاہ میر کی طرف ہی تھا۔ 

"آپریشن کامیاب ہوا ہے۔ اگلے چوبیس گھنٹے اہم ہیں۔ آپ دعا کریں۔ " وہ پروفیشنل سا کہہ کر آگے بڑھ گیا ۔ دعا نے بے بسی سر جھکا کر گہری سانس لی تھی ۔ 

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 سرتاج بیگم نے ایک زور دار تھپڑ آبرو کے چہرے پر مارا تھا۔ آبرو تیورا کر بستر پر گری تھی اور گال پر ہاتھ رکھے صدمے سے اپنی ماں کو دیکھا تھا۔ 

 "تم پاگل ہو گئی ہو کیا؟ طلال کے علاوہ تمہیں کچھ اور دکھائی ہی نہیں دے رہا۔ ہماری محبت بھول گئی ہو تم۔ کل کے لڑکے کی محبت نے تمہیں ہم سے غداری کرنے کی ہمت دے دی ہے؟" وہ غصے سے پوچھ رہی تھیں۔ 

 "اپنی مرضی سے اپنی زندگی کا فیصلہ کرنا آپ کی نظر میں والدین سے غداری ہے تو ٹھیک ہے۔ طلال کیلیے یہ بھی سہی ۔ لیکن ایک بات تو طے ہے۔ کچھ بھی ہو جائے میں طلال کو پا کر رہوں گی ۔" وہ اٹھ کر سرد لہجے میں بولی تھی۔ 

 "آبرو! آبرو تمہیں سمجھ کیوں نہیں آ رہا وہ لڑکا تمہارے لیے ٹھیک نہیں ہے۔ وہ کئی لڑکیوں کے ساتھ منہ کالا کر چکا ہے۔ تمہاری پسند اتنی گری ہوئی کیسے ہو سکتی ہے؟" 

 "ماما!" اس نے غصے سے انہیں پکارا۔ 

 "یہ بات دعا نے ہی آپ کو بتائی ہے نا۔ اسے تو میں پوچھ لوں گی " 

 "اس نے مجھے نہیں بتایا۔ میں نے خود طلال کی چھان بین کروائی ہے۔ وہ واقعی تمہارے لائق نہیں ہے " 

 "آپ جھوٹ کہہ رہی ہیں۔ اگر وہ اتنا ہی برا ہے تو دعا کا رشتہ کیوں نہیں تڑوا دیتیں اس سے۔ اسے تو آپ مجھ سے زیادہ پیار کرتی ہیں نا۔ " آبرو نے تڑخ کر کہا۔ سرتاج بیگم نے دعا کے ساتھ کبھی برا سلوک نہیں کیا تھا لیکن آبرو سے کم ہی ترجیح دی تھی۔ ظاہر تھا آبرو ان کی اپنی بیٹی تھی۔ وہ اسے دعا پر ترجیح نہیں دے سکتی تھی۔ 

 "میں اس کی شادی طلال سے نہیں ہونے دوں گی۔ بس تم طلال کا خیال اپنے دل سے نکال دو۔ میں تمہارے لیے بہت اچھا لڑکا ڈھونڈوں گی۔" وہ نرم لہجے میں بولی تو آبرو خاموش ہو گئی۔ ماما سے بحث کرنے کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔ اب اسے اپنے لیے خود ہی کچھ کرنا تھا ۔ 

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حیان ہاسپٹل سے جا رہا تھا جب اس کی نظر کاریڈور میں ایک بینچ پر بیٹھی دعا پر پڑی۔ وہ رک گیا۔ کچھ پل خاموشی سے اسے دیکھتا رہا پھر اس کی طرف چلا آیا۔ دعا نے قدموں کی آواز اپنے قریب آتی سنی تو جھکا ہوا سر اٹھا کر اسے دیکھا۔ دل مزید بھاری ہونے لگا۔ وہ اب تک جان گئی تھی کہ اس کے بھائی کا آپریشن کرنے والا وہی شہد رنگ آنکھوں والا شخص تھا جس نے اسے دکھ اور خوشی ایک ساتھ دی تھی ۔ اسے دیکھ کر ایک دفعہ تو اس کا دل خوشی سے دھڑکنا بھول گیا تھا۔ لیکن جب یہ خیال آیا کہ وہ شہزادہ نہیں تھا اسی دور کا کوئی شخص تھا جو اس کیلیے اجنبی تھا تو ایک بے نام سی اداسی نے اسے گھیر لیا تھا۔ اسے دیکھ کر دعا کو شہزادہ ہی یاد آتا تھا۔ 

"آپ کی فیملی میں سے اور کوئی نہیں آیا ابھی تک؟" وہ تعجب سے پوچھ رہا تھا۔ دعا نے جواب نہیں دیا۔ بس اداس نظروں سے اسے دیکھتی رہی۔ حیان نے سر جھٹکا۔ 

"لگتا ہے آپ گونگی ہیں۔" وہ بڑبڑا کر پلٹا تھا۔ 

"حیان!" دعا نے بے ساختہ اسے پکار دیا۔ وہ ساکت ہو گیا ۔ یہ کیسے ہو سکتا تھا ۔ وہ کیسے اس کا یہ نام جانتی تھی جو یہاں جزیل اور ثانی کے علاوہ اور کوئی نہیں جانتا تھا ۔ یہ نام اس کے بے فارم پر تھا لیکن پھر بازل سے چینج کروا دیا گیا تھا ۔ وہ لڑکی کیسے اس کا یہ نام جانتی تھی۔ یہ واقعی حیران کن تھا۔ اس نے بے اختیار دعا کو پلٹ کر دیکھا۔ اس کی آنکھیں بھی حیرت سے پھیلی تھیں۔ اس کا نام واقعی حیان تھا ورنہ وہ حیرت سے اسے نہ دیکھتا۔ دعا کے دل نے بیٹ مس کی 

"آپ میرا نام کیسے جانتی ہیں؟" اس کے لہجے میں اب سختی تھی ۔ آواز وہی لیکن لہجہ بدلا ہوا۔ اجنبی اور سخت۔ اس کا دل ڈوب کر ابھرا۔ 

"بتائیں؟" وہ غرایا۔ دعا اس کے اس رد عمل پر سہم گئی ۔ اس نے سانس روکتے پلکیں جھپکیں تو ایک آنسو اس کے گال پر گرا۔ وہ کچھ پل کیلیے مبہوت ہوا پھر چہرہ پھیرتا گہری سانس لی۔ 

"کچھ کھایا پیا بھی ہے یا دوپہر سے ایسے ہی بیٹھی ہیں؟" اس کا انداز اچانک بدل گیا۔ دعا کو وہ انداز شہزادے کا سا لگا تھا۔ نرم گرم سا۔ وہ پھر یک ٹک سی اسے دیکھنے لگی۔ حیان نے اس سے اس کے عجیب اور حیرت انگیز رویے پر پھر کبھی پوچھ تاچھ کرنے کا سوچا اور کینٹین کی طرف چل پڑا۔ وہ اسے بیمار ہوتے نہیں دیکھ سکتا تھا بلکہ وہ کسی بھی انسان کو بیمار نہیں دیکھنا چاہتا تھا۔ اس نے دعا کیلیے دو سینڈوچز اور ایک جوس کا کین خریدا اور واپس آیا تو وہ یونہی گم صُم سے بیٹھی نظر آئی۔ حیان نے سینڈوچز کا ڈبہ اس کے ساتھ بینچ پر رکھا اور کین کھول کر اس کی طرف بڑھایا۔ دعا کا تو اب حیرت کے مارے منہ بھی کھل چکا تھا۔ بے اختیار اس کا دل کیا وہ ہمیشہ اس کے ساتھ یونہی برتاؤ کرے۔ شہزادے حیان جیسا۔ 

"یہ لیں اور فیملی یا فرینڈ میں سے کسی کو کال کر کے بلا لیں"

"میرا بھائی تو ٹھیک ہو جائے گا نا؟" دعا نے جوس کو جیسے دیکھا ہی نہ تھا۔ 

"ہاں میں نے ڈاکٹر سلیمان سے بات کی تھی ۔ انہوں نے بتایا پیشنٹ کی حالت کریکٹکل نہیں ۔ آدھی رات یا کل تک ہوش آ جائے گا اسے " حیان نے کہہ کر ابرو سے ہاتھ میں پکڑے کین کی طرف اشارہ کیا۔ 

"نہیں شکریہ۔ مجھے ضرورت نہیں " وہ جھجھک کر بولی۔ 

"میں ڈاکٹر ہوں اور آپ کو بتا رہا ہوں کہ آپ کو اس وقت اس کی ضرورت ہے تو لے لیں" وہ چڑ کر بولا۔ 

"میں خود لے لوں گی کینٹین سے۔" 

"اور جو میں نے پیسے خرچ کر دیے اس کا کیا؟ " 

"میں آپ کو پے کر دیتی ہوں  اس کیلیے۔ " دعا نے جوس پکڑ لیا۔ 

"میں کھانے کی چیزیں نہیں بیچتا ورنہ پیسے ضرور لیتا۔ " وہ کہہ کر چلا گیا ۔ دعا جوس کا کین ہاتھ میں پکڑے اسے جاتا دیکھتی رہی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"دعا کہاں ہے؟" اجالا نے کمرے میں دعا کو نہ پا کر نیناں سے پوچھا جو رائٹنگ ٹیبل پر بیٹھی پڑھ رہی تھی۔ 

"اسے گھر سے ڈرائیور لینے آ گیا تھا ۔ "نیناں نے مصروف سے انداز میں بتایا ۔ 

"واٹ؟ تو تم آرام سے بیٹھی ہوئی ہو۔ " اجالا حیرت سے چلائی۔ نیناں نے ناگواری اور تعجب سے اسے دیکھا۔ 

"کیا ہو گیا ہے ؟ اب میں اس کے ساتھ اس کے گھر تو نہیں جا سکتی نا "

"تمہیں جانا چاہیے تھا۔ وہ اپنے تایا کے گھر رہتی ہے اور آبرو اس کی تایا زاد کزن ہے۔ " اجالا کی بات پر نیناں بے چینی سے اٹھ کھڑی ہوئی ۔

"اس کے تایا تائی اچھے لوگ ہیں۔ ضروری نہیں اگر بیٹی بری ہے تو وہ بھی برے ہوں گے " نیناں نے جیسے خود کو تسلی دینی چاہی۔ 

"فار گاڈ سیک نیناں۔ کچھ تو عقل سے کام لو ۔ آبرو اپنے باپ یا ماں کی مدد کے بغیر کیسے ایک قاتل کو ہائر کر سکتی ہے " اجالا نے اسے گھرکا۔ اس دفعہ نیناں نے برا نہیں منایا۔ دعا کیلیے پریشانی اس پر حاوی ہو گئی تھی۔ 

"طلال بھی تو اس کی مدد کر سکتا ہے۔"

"طلال اس سے شادی کر کے خود بے بس کرنا چاہتا ہے وہ کیوں اسے مروانا چاہے گا۔" اجالا نے کہا تو نیناں کا دل ڈوبنے لگا۔ اس نے تیزی سے فون اٹھا کر دعا کو کال ملائی دوسری طرف اداس سے بیٹھی دعا نے پاس پڑا فون اٹھا کر دیکھا اور کال پک کر کے دھیرے سے کان سے لگایا۔ 

"ہیلو دعا کہاں ہو تم؟" نیناں کی بے چین سے آواز سن کر وہ چونکی۔ 

"میں ہاسپٹل میں ہوں "

"واٹ؟ کیوں؟" نیناں چلائی۔ کان لگا کر سنتی اجالا بھی پریشان ہو چکی تھی 

"شاہ میر بھائی کا ایکسیڈنٹ ہو گیا تھا ۔ سرجری ہوئی ہے۔ " دعا نے خود کو رونے سے بمشکل روکا لیکن نیناں اس کی کیفیت جان گئی تھی۔ 

"کس ہاسپٹل میں ہو تم؟ " نیناں نے یہ نہیں پوچھا اس کا بھائی تو کینیڈا تھا یہاں کیسے آ گیا۔ دعا نے اسے ہاسپٹل کا نام بتایا۔ 

"میں دس منٹ میں پہنچ رہی ہوں بس " نیناں کہہ کر کال کاٹ گئی۔

"میں بھی چلوں گی تمہارے ساتھ " اجالا نے کہا تو نیناں نے انکار نہیں کیا۔ وہ دونوں باہر بھاگیں اور کچھ دیر بعد نیناں کی گاڑی یونیورسٹی کی حدود سے باہر نکل رہی تھی۔ دس منٹ میں وہ ہاسپٹل پہنچ چکی تھیں۔ ریسپشن کاؤنٹر سے معلومات لے کر وہ دعا کے پاس پہنچی تو اسے اکیلا بیٹھے پایا۔ سینڈوچز کا ڈبہ اس کے پاس ایسے ہی پڑا تھا البتہ آدھا جوس وہ پی چکی تھی۔

"دعا!" نیناں نے اس کے قریب آتے اسے پکارا اور اس کے پاس بیٹھ گئی۔ دعا اس کے کندھے پر سر رکھ کر رونے لگی۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔

حیان کافی کے دو کپ پکڑے لاؤنج میں آیا اور صوفے پر بڑی شان سے بیٹھی ثانی کے سامنے ایک کپ رکھا اور سائیڈ صوفے پر بیٹھ گیا۔ 

"اب بتاؤ۔ کیا ملا۔ " گھٹنوں پر کہنیاں رکھے وہ آگے کو جھکا ابرو اچکاتے پوچھ رہا تھا۔ بلو جینز پر فل سلیو جرسی نما شرٹ پہنے وہ بہت تحمل سے پوچھ رہا تھا۔ ثانی نے ٹانگ سے ٹانگ اتاری۔ پھر آگے کو جھک کر کافی کا کپ تھاما اور چہرے کے قریب کیا۔ 

"پہلے تم بتاؤ کیا آئیڈیا ہے تمہارے پاس بھائی کو منانے کیلیے۔" ثانی نے بزنس ڈیلرز کی طرح کہتے اسے دیکھا۔ اس نے گہری سانس لی۔ 

"وہ میری بات کبھی نہیں ٹالتا ۔ یہ تو تم جانتی ہو اور میں وعدہ خلافی نہیں کرتا یہ بھی تم جانتی ہو۔"

"تو میں کونسا وعدہ خلافی کرتی ہوں ۔ " ہاں وہ نہیں کرتی تھی لیکن بھاؤ بہت دکھاتی تھی اور حیان کا اس کی مزید منتیں کرنے کا کوئی موڈ نہیں تھا۔ 

"مانا نہیں کرتی۔ چلو بتاؤ اب جلدی سے۔ مجھے دیر ہو رہی ہے" حیاں نے گھڑی پر نگاہ ڈالی۔ 

"عبید رضا ایک طوائف کی بیٹی سے شادی کرنا چاہتا ہے لیکن اس کے پاس اتنے پیسے نہیں کہ وہ طوائف کی بتائی گئی قیمت ادا کر سکے۔ " ثانی نے کپ کے کنارے پر انگلی پھیرتے ہوئے بتایا۔ حیان مسکرایا۔ 

"مطلب بندہ شکر سے مارا جا سکتا ہے " وہ بڑبڑا کر سیدھا ہوا۔ 

"اب تم بتاؤ کیا پلان ہے تمہارے پاس"

"جزیل سے کہو تم شادی کرنا چاہتی ہو ..." اس کی بات ابھی پوری نہیں ہوئی تھی کہ وہ پھٹ پڑی۔

"واٹ؟ میں انگلینڈ جانے کا پلان پوچھ رہی ہوں"

"وہی بتا رہا ہوں۔ اگر تم جزیل سے یہ کہو کہ تمہیں انگلش لڑکے پسند ہیں اور تم وہیں سے اپنے کسی دوست کے ساتھ شادی کرنا چاہتی ہو تو تمہارا انگلینڈ جانے کا چانس بن سکتا ہے۔ " حیان بولا تو وہ مسکرا دی۔ یہ واقعی ایک اچھا پلان تھا۔ لیکن دوسرے کمرے میں بیٹھے ایش کو یہ بات ذرا پسند نہیں آئی تھی۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔

شاہ میر کو ہوش آ گیا تھا ۔ اس وقت تایا اور تائی جان بھی ہاسپٹل پہنچ چکے تھے ۔ شامیر کو روم میں شفٹ کر دیا گیا اور باری باری اس سے ملنے دیا گیا ۔ پہلے تایا اور تائی جان ملے۔ دعا نے بمشکل ان کے باہر آنے کا انتظار کیا ۔ ان کے باہر آتے ہی وہ اندر آئی تو اپنے پیارے سے بھائی کے سر کو پٹی میں جکڑا دے کر رو پڑی۔ شاہ میر زیادہ بات نہیں کر سکتا تھا لیکن اس نے پھر بھی دعا کو پکارا اور اس کی طرف ہاتھ بڑھایا۔ دعا نے اس کا ہاتھ دونوں ہاتھوں سے تھام لیا۔ 

"مت روؤ یار۔" وہ بمشکل بولا۔ 

"آپ نے احتیاط کیوں نہیں کی بھائی اور مجھے بتایا کیوں نہیں آپ پاکستان آ رہے ہیں" وہ روہانسی سی بولی۔ 

"تمہیں سرپرائز دینا چاہتا تھا ۔" وہ دھیرے سے بولا ۔ 

"بہت اچھا سرپرائز دیا ہے۔ " دعا نے طنز کیا پھر یاد آیا وہ اس وقت مریض تھا۔

"آپ کو بھوک لگی ہے یا پیاس؟ " اس نے کہا ۔

"پیاس لگی ہے۔" شاہ میر نے کہا۔ دعا نے سائیڈ ٹیبل پر پڑے جگ سے گلاس میں پانی ڈالا لیکن جب اسے پلانے لگی تو اس کے پٹی والے سر کو ہاتھ نہ لگا سکی کہ کہیں اسے درد نہ پہنچا دے۔

"میں نرس کو بلاتی ہوں " وہ کہہ کر جانے لگی جب اس نے روک لیا۔ 

"میں اپنا سر خود اٹھا سکتا ہوں۔ مجھے نرس کی ضرورت نہیں۔" شاہ میر کہنیوں پر زور ڈالتے سر کو ساکت رکھے ہی تھوڑا اوپر اٹھ چکا تھا۔ دعا نے اسے خوفزدہ ہو کر کچھ پل دیکھا پھر جلدی سے گلاس اس کے لبوں کے قریب کیا۔ کچھ گھونٹ پینے کے بعد وہ احتیاط سے سر دوبارہ تکیے پر رکھ گیا۔ 

"ماما بابا کو تو نہیں بتایا تم نے کچھ ؟" اس نے کچھ دیر توقف کے بعد پوچھا۔ دعا نے نفی میں سر ہلایا۔ وہ اس سے پوچھنا چاہتی تھی اس کا ایکسیڈنٹ کیسے ہوا لیکن وہ ابھی اسے زیادہ بولنے نہیں دینا چاہتی تھی۔ 

"کھانا کھا لیا ہے؟" شاہ میر غور سے اس کا گلابی ستا ہوا چہرہ دیکھ رہا تھا۔ 

"ہاں کھا لیا ہے۔ اب آپ خاموش رہیں۔ ورنہ زخم پر درد ہو گا ۔" وہ بولی تبھی نرس کمرے میں آ گئی اور دعا کو باہر جانے کا کہا اور شاہ میر کو ٹرینکولائز دینے لگی۔

"کیسے ہیں شاہ میر بھائی؟" وہ باہر آئی تو نیناں نے پوچھا۔ 

"ٹھیک ہیں لیکن زیادہ نہیں۔ نرس نے انہیں ٹرینکولائزر دے دیا ہے۔ " وہ کہہ رہی تھی جب تائی جان ان کے قریب آئیں۔

"دعا تم ہمارے ساتھ گھر چلو۔ سٹاف شاہ میر کا دھیان رکھ لے گا "

"نہیں۔ میں اپنے بھائی کو چھوڑ کر نہیں جاؤں گی " دعا تیزی سے بولی۔ نیناں اور اجالا غور سے سرتاج بیگم کو دیکھ رہی تھیں۔

"بیٹا ساری رات یہاں کیسے گزارو گی۔" 

"ہم ہیں آنٹی اس کے ساتھ۔" نیناں نے جواب دیا تو سرتاج بیگم کو ناگواری محسوس ہوئی لیکن انہوں نے ظاہر نہیں کی۔ 

"میں رہ لیتی ہوں یہاں۔ تم لوگ اسے ہاسٹل لے جاؤ۔ ساری رات جاگنے سے بیمار پڑ جائے گی " سرتاج بیگم نے نیناں اور اجالا دونوں سے کہا۔ 

"تائی جان مجھے رات بھر جاگنے کی عادت ہے آپ فکر مت کریں۔ تایا جان کو شوگر ہے۔ کسی بھی وقت انہیں آپ کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ آپ لوگ گھر جائیں۔ مجھے نیند آئی تو یہیں کسی کمرے میں سو جاؤں گی۔" دعا نے کہا۔ سرتاج بیگم نے کچھ پل سوچا پھر سر اثبات میں ہلا دیا۔ 

"ٹھیک ہے میں ابدال سے کہہ دیتی ہوں تمہارے لیے بھی ایک کمرہ ریزرو کروا دیں۔ اپنا خیال رکھنا۔" وہ نرمی سے کہہ کر پلٹ گئیں۔ ان کے اس رویے سے اجالا اور نیناں دونوں ہی الجھن میں پڑ گئی تھیں ۔ انہوں نے نظروں کا تبادلہ کیا۔

"اجالا تم بھی چلی جاؤ۔ میرے ساتھ نیناں ہے " دعا نے اجالا کو کہا۔ 

"نہیں ۔ میں یہیں رہوں گی تمہارے پاس " وہ ضدی لہجے میں بولی۔ دعا نے بھنویں سکوڑ کر اسے دیکھا۔ 

"تمہیں جب سے معلوم ہوا ہے کہ دعا تمہاری فیورٹ رائٹر ہے تمہارا رویہ بہت بدل گیا ہے۔ پہلے تو تم بہت مغرور تھی۔ " نیناں نے بے دھڑک پوچھ ڈالا۔ اجالا شرمندگی سے نظریں جھکا گئی۔ وہ اسے کیسے بتاتی کہ صرف یہی ایک وجہ نہیں تھی۔ وہ دعا کے ساتھ بہت برا کر چکی تھی اور وہ حادثہ بھی اسی کی وجہ سے دعا کو پیش آیا تھا۔ اگر وہ طلال کو دعا کے پیچھے نہ لگاتی تو نہ آبرو اس کی دشمن بنتی اور اسے راستے سے ہٹانے کیلیے مارنے کی کوشش کرتی ۔ وہ اب دعا کیلیے بہت حساس ہو چکی تھی۔ 

"وہ پہلے سے ہی میری دوست بن چکی تھی۔" دعا نے اجالا کو اس آکورڈ سچویشن سے نکالنے کیلیے نیناں کو گھورتے کہا۔ نیناں ہونہہ کہہ کر رہ گئی۔

۔۔۔۔۔۔


عبید رضا ایک مشہور اور زہین ڈاکٹر مانا جاتا تھا لیکن اگر لوگوں کو پتہ چلتا کہ وہ ایک طوائف کی بیٹی کیلیے پاگل ہو رہا ہے تو اسے بے عقل سمجھنے لگتے۔ وہ پاگل یونہی نہیں ہو رہا تھا۔ کشف بہت خوبصورت تھی۔ وہ بھی عبید کو چاہتی تھی لیکن ان دونوں میں کشف کی ماں رکاوٹ بنی ہوئی تھی۔ وہ عبید کو کشف کے ساتھ ایک رات گزارنے پر ایک لاکھ روپے لیتی تھی۔ اسے پوری طرح حاصل کرنے کیلیے عبید کو دو کروڑ روپے چاہیے تھے۔ اگر وہ اتنے روپے جمع کر بھی لیتا تو تب تک بوڑھا ہو چکا ہوتا۔ کشف پھر اسے منہ ہی نہ لگاتی۔ اسے کسی بھی طرح کشف کو حاصل کرنا تھا اور یہ سیدھے طریقے سے تو ہو نہیں سکتا تھا۔ آجکل وہ کشف کو پانے کا کوئی الٹا طریقہ سوچ رہا تھا۔ اگر اس کا بس چلتا تو وہ کشف کو اغوا کروا لیتا یا بھگا کر لے جاتا لیکن بائی نے سیکیورٹی کے انتظامات بہت سخت کروا رکھے تھے۔ اس کے علاوہ اس کے اعلیٰ عہد داروں کے ساتھ تعلقات تھے۔ وہ چاہ کر بھی اسے اپنا دشمن نہیں بنا سکتا تھا البتہ کہیں سے پیسے مل جاتے تو کشف اس کی ہو جاتی۔ 

آج وہ ایک ماہ بعد کشف سے ملنے گیا تھا اور آدھی رات کو جب بائی کے کوٹھے سے باہر آیا تو اپنی گاڑی کی طرف جاتے ہوئے وہ یہی سوچ رہا تھا کہیں کوئی ڈاکا ڈالے اور دو کروڑ بائی کو دے کر اس چڑیل سے اپنی پری کو آزاد کروا لے۔ وہ سوچوں میں گم ڈرائیونگ سیٹ کا دروازہ کھول کر اندر بیٹھ رہا تھا جب دوسری جانب سے کوئی فرنٹ سیٹ کا دروازہ کھول کر تیزی سے اندر بیٹھا تھا۔ عبید نے حیرت اور خوف سے آنکھیں پھاڑ کر اس شخص کو دیکھا جس کے چہرے پر ماسک تھا اور ہاتھ میں پسٹل تھی جس کی نال اس کی پسلی کے ساتھ لگ چکی تھی۔ 

"ڈرنے کی ضرورت نہیں ۔ میری بات مانو گے تو تمہیں نقصان نہیں پہنچے گا۔ گاڑی سٹارٹ کرو " حیان نے بہت نرمی سے اس کا خوف دور کرنا چاہا اور دوٹوک لہجے میں حکم دیا۔ 

"ک....کون ہو تم..."

"بتاتا ہوں ۔ گاڑی تو سٹارٹ کرو۔" 

"دیکھو بھائی میرے پاس کچھ نہیں ہے اس وقت" عبید نے گاڑی سٹارٹ کرتے ہوئے کہا۔ 

"پتہ ہے مجھے۔ ساری رقم تو کسی حسینہ پر لٹا آئے ہو۔" حیان نے کہا تو اسے دھچکا لگا۔ وہ کیسے یہ بات جانتا تھا۔ اس نے ہونق پن سے منہ کھول کر حیان کو دیکھا۔ 

"سامنے دیکھو کہیں بجا نہ دینا۔" حیان نے دوستانہ لہجے میں کہا۔ اس میں تیزی سے سامنے دیکھا ۔ 

"تم یہ کیسے جانتے ہو؟" اس نے منہ سیدھا رکھے ہی پوچھا۔

"تمہاری گاڑی ایک مشہور پروسٹیٹیوشن کے سامنے کھڑی تھی۔ کوئی بے وقوف  بھی جان سکتا ہے تم خالی جیب کے ساتھ واپس آئے ہو۔" اس کی بات پر عبید کھسیا گیا۔ 

"بھائی یہ پستول تو پیچھے کرو۔ گولی چل جائے گی " 

"فکر مت کرو نقلی ہے " حیان نے پسٹل اس کی پسلی سے ہٹا لی۔ عبید کو ایک اور حیرت کا جھٹکا لگا۔ اس نے گاڑی یکدم روک کر حیان کو غصے سے گھورا۔ 

"زیادہ تیور دکھانے کی ضرورت نہیں میرے پاس چاقو بھی ہے۔ اور وہ نقلی بالکل بھی نہیں ۔" حیان نے اس کے غبارے سے ہوا نکالی۔ 

"آخر تم چاہتے کیا ہو؟"

"تمہاری مدد ۔" حیان نے پسٹل جیکٹ کی اندرونی جیب میں ڈال لی۔ 

"میں خود اپنی مدد نہیں کر پا رہا تمہاری کیا کروں گا۔ " وہ روہانسا ہوا۔

"چلو ایک ڈیل کر لیتے ہیں۔ میں تمہاری مدد کر دیتا ہوں۔ تم میری کر دو۔" حیان نے کہا تو اس کا دل تیزی سے دھڑکا۔ 

"ک....کیسے"

"تمہیں کشف چاہیے؟" حیان نے پوچھا۔ وہ بے اختیار سر ہاں میں ہلا گیا ۔ 

"مجھے ابدال بابر کے گھر تک رسائی چاہیے۔ اگر میں تمہیں کشف دلا دوں تو تمہیں مجھے اپنے ساتھ ابدال بابر کے گھر لے کر جانا ہو گا " حیان نے اسے تفصیل بتائی۔ عبید اس کی باتوں سے الجھ تو بہت گیا تھا لیکن اس نے یہ آفر قبول کرنے میں مہلت نہیں لی تھی۔ کشف کیلیے تو وہ کچھ بھی کرنے کو تیار تھا۔ یہ تو پھر چھوٹا سا کام تھا۔ وہ اسے اپنا اسسٹینٹ بنا کر ابدال ہاؤس لے جا سکتا تھا۔ 

"میں تو تمہیں وہاں لے جا سکتا ہوں لیکن تم کیسے کشف کو اس کی ماں کے چنگل سے نکالو گے؟" اس نے پوچھا تو حیان نے نے سیٹ کی بیک سے پشت لگائی۔

"وہ تم مجھ پر چھوڑ دو۔ میں کشف کو پہلے اس کی ماں کے چنگل سے نکال لوں گا لیکن تمہیں تب دوں گا جب تم میرا کام کر دو گے۔ "

"منظور ہے " عبید کی باچھیں کھل گئیں۔ 

"ٹھیک ہے۔ اب ذرا کسی بس سٹاپ تک چھوڑ دو مجھے " حیان نے کہا تو اس نے گاڑی سٹارٹ کی۔ 

"لیکن تمہیں پتہ کیسے چلا میرے اور کشف کے بارے میں اور کیا تمہارے پاس دو کروڑ روپے ہیں؟" 

"میں تمہاری طرح بیوقوف نہیں ایک لڑکی پر دو کروڑ ضائع کر دوں۔ "اس نے پہلا سوال گول کیا اور دوسرے کا طنزیہ جواب دیا۔ 

"پھر تم کیسے کرو گے؟" وہ سخت متجسس تھا۔ 

"جب ہم کانٹریکٹ سائن کریں گے تو تمہیں سارا پلان بتا دوں گا " حیان نے کندھے اچکائے۔ 

"کانٹریکٹ سائن کرنے کی کیا ضرورت ہے؟"

"میں اپنے سائے پر بھی بھروسہ نہیں کرتا ۔ تم کس کھیت کی مولی ہو۔" اس کے جواب پر عبید تلملا کر رک گیا وہ اسے کچھ اور بھی تو کہہ سکتا تھا۔ مولی کہنا ضروری تھا کیا۔

۔۔۔۔۔۔۔      

اگلی صبح ہو چکی تھی۔ نیناں اور اجالا دعا کے ساتھ ابھی تک ہسپتال میں ہی تھیں ۔ دس بجے شاہ میر کو ہوش آیا تو انہیں شاہ میر کے ساتھ ملنے کی اجازت دے دی گئی۔ اب کی بار دعا نیناں اور اجالا کے ساتھ کمرے میں آئی تھی۔ 

"اب کیسے ہیں بھائی؟" دعا کہتے اس کے قریب آئی۔ اس کے ساتھ نیناں تھی اور اس سے پیچھے اجالا ۔ 

"دماغ ماؤف سا ہو رہا ہے ۔ اب مجھے بے ہوش نہ کرنے دینا انہیں۔ " اس نے کہہ کر نیناں کی طرف دیکھا۔ وہ اسے دعا کی دوست کی حیثیت سے جانتا تھا اور ایک دو بار اس سے مل بھی چکا تھا جب دعا کو ہاسٹل چھوڑنے اور لینے آتا تھا ۔ نیناں بھی اسے دعا کی طرح بھائی کہتی تھی۔ 

"آپ نے تو ڈرا ہی دیا تھا بھائی۔ آتے ہی ایکسیڈنٹ کروا لیا ۔" نیناں نے کہا تو وہ مسکرایا ساتھ اس کی نظر اجالا پر گئی تو کچھ پل کیلیے ٹھہر سی گئی۔ 

"یہ میری نئی دوست ہے ۔ اجالا ۔ رات بھر یہیں میرے ساتھ رہی ہے" دعا نے اجالا کا بتایا۔ شاہ میر نے بمشکل اس سے نظریں ہٹائیں۔ 

"تایا لوگ نہیں رکے یہاں؟" اس کے سوال پر وہ ایک پل کو خاموش ہوئی ۔ 

"میں نے ہی انہیں جانے کیلیے کہا تھا ۔ تایا کو شوگر کا مسلہ رہتا ہے نا اس لیے "

"کوئی سیکیورٹی گارڈ بھی نہیں بھیجا؟" وہ تشویش سے پوچھ رہا تھا ۔ دعا نے نفی میں سر ہلایا۔ 

"بھائی میں کسی سیکیورٹی گارڈ سے کم ہوں۔ خوامخواہ پریشان نہ ہوں۔ آج منگوا لیجیے گا کوئی سیکیورٹی گارڈ " نیناں نے تیزی سے کہا۔ وہ خاموش ہو گیا۔ نظریں پھر اجالا کی طرف بھٹکیں۔ 

اُجالا نے بھی اس کی نگاہوں کی گرمی محسوس کر لی تھی۔  یہ اس کے لیے کوئی نئی بات نہیں تھی۔  کئی مرد اس کی خوبصورتی سے متاثر ہوئے تھے۔ وہ سب کو نظر انداز کر دیتی تھی۔  اس نے اس بار بھی ایسا ہی کیا اور نظریں پھیر لیں۔

شاہ میر سمجھ گیا کہ وہ اسے اس کا اس طرح دیکھنا پسند نہیں آیا۔ اس نے بھی نظریں پھیر لیں۔ لیکن اس کا دل چاہا کہ اسے دوبارہ دیکھے۔  اس نے اپنے دل کو ڈانٹا۔

"اجالا تم اب چلی جاؤ ۔ تھک گئی ہو گی " نیناں کو کچھ دیر بعد اجالا کا خیال آیا تو کہا۔ اجالا واقعی تھک چکی تھی۔ 

"دعا کا خیال رکھنا۔" وہ نیناں کے کان میں سرگوشی کر کے پلٹ گئی 

"اس کو پتہ نہیں کیوں دعا کی اتنی فکر ہو رہی ہے؟" نیناں نے منہ بنا کر مشکوک انداز میں سوچا۔ پھر سر جھٹک دیا۔ اجالا نے واپسی کیلیے ٹیکسی استعمال کی تھی۔ ایک سگنل پر ٹیکسی رکی تو اس نے کھڑکی سے باہر دیکھا۔ اس کے قریب موجود ایک گاڑی کی پچھلی سیٹ پر وہی ساحر بیٹھا تھا جو پہلی نظر میں اس کے دل کو بھا گیا تھا۔ سفید تھری پیس سوٹ میں ملبوس کلائی پر بندھی گھڑی پر نظر ڈالتے اجالا کو پہلے سے بڑھ کر پیارا لگا تھا ۔ وہ یک ٹک سی اسے دیکھنے لگی۔ سگنل کھلنے کے بعد جب جزیل ذکریا کے ڈرائیور نے گاڑی آگے بڑھائی تو وہ ہوش میں آئی تھی۔ ٹیکسی بھی آگے بڑھی لیکن اس کی رفتار تھوڑی کم تھی۔ 

"ڈرائیور اس گاڑی کا پیچھا کرو۔ " اجالا نے بے اختیار کہا۔ ڈرائیور نے تعجب سے اسے دیکھا۔ 

"جلدی کرو۔ میں تمہیں ڈبل پے کروں گی۔ " وہ بے چینی سے بولی تو ڈرائیور اس گاڑی کا پیچھا کرنے لگا۔ کچھ ہی دیر بعد جزیل ذکریا کو شک ہو گیا کوئی اس کا پیچھا کر رہا ہے۔ اس نے ڈرائیور کو گاڑی پچھلے گاڑی کے سامنے روکنے کا کہا۔ گاڑی سڑک پر دائیں بائیں رخ پر ایسے کھڑی ہوئی کہ ٹیکسی ڈرائیور کو بریک لگانی پڑی۔ اجالا کا دل اچھل کر حلق میں آیا۔ جزیل دروازہ کھول کر باہر نکل رہا تھا۔ 

"بی بی جی اب؟" ڈرائیور نے پوچھا۔ اجالا کی نظریں جزیل پر تھیں جو سینے پر کسرتی بازو باندھے بڑی سرد نظروں سے اجالا کو دیکھ رہا تھا۔ اجالا نے تھوک نگلا اور تیزی سے کچھ سوچا پھر دروازہ کھول کر باہر نکلی اور نروس سی اس کے سامنے آئی۔ دل اسی پر نظریں جمائے رکھنے کی ضد کر رہا تھا لیکن وہ اس کی آنکھوں میں دیکھ بھی نہیں پا رہی تھی۔ 

"سوری میں نے آپ کو کوئی اور سمجھا ۔" اس نے بمشکل اپنی گھبراہٹ پر قابو پایا۔ جزیل اسے ایسے ہی خاموشی سے اپنی سرخ ڈوروں والی آنکھوں سے گھورتا رہا ۔ 

"آپ کی شکل میرے کسی جاننے والے سے ملتی ہے۔ بہت عرصے سے اس سے ملاقات نہیں ہوئی تھی۔ آپ کو دیکھا تو...." وہ اٹک اٹک کر بول رہی تھی جب جزیل نے اس کی بات کاٹی۔

"کوئی ڈھنگ کا جھوٹ بولو لڑکی۔" اس کی بھاری گھمبیر آواز پر اجالا کے چہرے کی ہوائیاں اڑیں۔ اس نے لب ہلائے لیکن کچھ بول نہ سکی۔

"یوں کسی اجنبی کا پیچھا نہیں کرتے ورنہ نتیجہ نقصان دہ بھی نکل سکتا ہے " وہ رعب دار لہجے میں کہتا دوبارہ گاڑی میں بیٹھا اور گاڑی دھول اڑاتی اس سے دور ہوتی چلی گئی۔ وہ یوں ہی شرمندہ سی کھڑی رہ گئی تھی 

۔۔۔۔۔۔۔

Chragh e drakhshan part two All episodes link


Post a Comment

0 Comments