Chragh e Drakhshan
by dua fatima
Chragh e Drakhshan Part 2
Episode 2
ابدال، کبیر اور جعفر کے سامنے بیٹھا ہوا تھا۔ ان تینوں کی چہروں پر پریشانی تھی۔ اجنبی رپورٹر نے کبیر اور جعفر کی جو کی تھی سو کی تھی ابدال کو بھی نہیں چھوڑا تھا۔ اب جب تک وہ انہیں مل نہ جاتا اور وہ اسے سزائے موت نہ دے لیتے انہیں چین نہیں آ سکتا تھا۔
"میرا سیکرٹری کانفرنس ہال کی اور اس کے ارد گرد کی ساری فوٹیجز چیک کروا چکا ہے۔ اس کا کہیں بھی نام و نشان نہیں ملا۔ وہ میرے کچھ آدمیوں کی نظر میں ایک دفعہ آیا تھا لیکن اس کے ساتھی میرے آدمیوں پر بھاری نکلے اور وہ بچ گیا۔ " جعفر بے چینی سے کہہ رہا تھا ۔
"اس کا مطلب اس کا بیک گراؤنڈ مضبوط ہے۔ " ابدال نے پرسوچ انداز میں کہا۔
"کسی کیمرے میں اس کیا چہرہ نہیں آیا؟"
"ایک چینل میں آیا تھا لیکن وہاں سے بھی ریموو ہو چکا ہے۔ اب ہم قیاس ہی لگا سکتے ہیں کہ اس کی شکل کیسی تھی۔ "
"اگر اس کی ایک تصویر ہی مل جاتی تو میں سارے شہر میں اپنے آدمی دوڑا دیتا ۔ " جعفر دانت پیس کر بولا۔
"رپورٹرز سے رابطہ کر کے دیکھو۔ کوئی نہ کوئی تو اسے جانتا ہو گا۔" کبیر نے کہا۔ جعفر نے مایوسی سے سر نفی میں ہلایا ۔
"کوئی نہیں جانتا اسے۔ "
"کیا پتہ وہ رپورٹر ہو ہی نا۔ صرف ہمیں ٹارگٹ کرنے کیلیے کچھ دیر رپوٹر بنا ہو۔ " ابدال نے کہا تو دونوں نے تائیدی انداز میں سر ہلایا۔
"وہ ہمارے کسی دشمن کا آلہ کار بھی ہو سکتا ہے۔ " جعفر نے کہا۔
"جو بھی ہے ہمیں اسے جلد از جلدی ڈھونڈنا ہے۔ اسے قابو نہ کیا تو وہ آگے بھی ہمیں نقصان پہنچا سکتا ہے۔ اس کی وجہ سے کئی رپورٹرز کی زبانیں کھل گئی ہیں ۔ اگر اس کی لاش کو عبرت کا نشان بنا کر کسی سڑک پر نہ پھینکا تو سب ہمارے منہ کو آ جائیں گے۔ " کبیر حقارت اور غرور سے بولا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فاصلے ایسے بھی ہوں گے یہ کبھی سوچا نہ تھا
سامنے بیٹھا تھا میرے اور وہ میرا نہ تھا
وہ کہ خوشبو کی طرح پھیلا تھا میرے چار سو
میں اسے محسوس کر سکتا تھا چھو سکتا نہ تھا
وہ ایک سرجری کرنے کے بعد واپس جا رہا تھا جب گاڑی کے پارکنگ ایریا میں اس کا سامنا اسی لڑکی سے ہو گیا جس کو وہ ہاسپٹل لایا تھا۔ وہ بھی اسے دیکھ کر ٹھٹک گئی تھی اور پھر یک ٹک سی اسے دیکھنے لگی تھی۔ اس وقت اس کے چہرے پر ماسک نہیں تھا۔ نہ سر پر پی کیپ تھی۔ اس کا نقش نقش شہزادے سے ملتا تھا۔ بس بالوں کا رنگ مختلف تھا۔
"اب کیسی طبیعت ہے آپ کی؟" اس نے رسمی سے انداز میں پوچھا۔ اس نے دعا کا علاج کیا تھا اسی لیے اسے یہ شرف بخش رہا تھا ورنہ وہ لڑکیوں کو اگنور ہی کرتا تھا۔ دعا اسے کیا جواب دیتی وہ تو بس اس کی شہد رنگ آنکھوں میں دیکھ رہی تھی۔ ان آنکھوں میں اس کیلیے اجنبیت تھی جو اس کے دل کو ازیت دے رہی تھی لیکن وہ پھر بھی ان آنکھوں میں دیکھتے رہنا چاہتی تھی۔
"ہیلو کہاں کھو گئیں؟" اس نے دعا کے سامنے ہاتھ لہرایا۔ وہ پلکیں جھپک گئی۔ آنسوؤں کی ایک لڑی گال پر بہہ گئی۔ نیناں جو دعا کے ساتھ کھڑی تھی خود بھی شہزادہ حیان کے ہمشکل کو دیکھ کر حیران رہ گئی تھی۔ حیان نے ایک نظر دعا کی دوست کو دیکھا پھر اسے۔
"کیا ہم پہلے کہیں مل چکے ہیں؟" اس نے الجھ کر پوچھا اس بات سے بے خبر کہ اس کا یہ سوال برچھی کی مانند دعا کے دل میں لگا تھا ۔ دعا کی نگاہیں سلگ اٹھیں ۔ اس کا دل کیا وہ چیخ چیخ کر روئے
"لگتا ہے انہیں کوئی مینٹل پرابلم ہے۔ کسی سائیکیٹرسٹ سے چیک کروائیں ۔ " وہ پروفیشنل انداز میں مفت مشورے سے نوازتا آگے بڑھ گیا۔ نیناں کو اس پر غصہ آیا۔ دعا کوئی مینٹل تھوڑی تھی جو اسے سائیکٹرسٹ کو دکھایا جاتا جب کہ دعا وہیں ساکت سی کسی غیر مرئی نقطے پر نظر جمائے ہوئے تھی۔ اس کا انداز کتنا اجنبی تھا۔ آنکھوں میں شناسائی کی کوئی رمق نہیں تھی۔ وہ شہزادہ نہیں ہو سکتا تھا۔ وہ تو دور سے بھی اسے پہچان لیتا تھا ۔ اسے جب دیکھتا تو آنکھوں میں ایک الگ ہی چمک ہوتی لیکن اس کی نگاہیں نرم ہوتیں ۔ وہ یکدم ہی ہچکیوں سے رونے لگی۔ نیناں اسے چپ کروانے کے ساتھ ڈانٹنے لگی۔
"تمہیں سچ میں کسی سائیکیٹرسٹ کو دکھانے کی ضرورت ہے۔ پاگل ہو گئی ہو تم" ماتھے پر بل ڈالے نیناں بڑبڑائی اور اسے گاڑی کی فرنٹ سیٹ کی طرف دھکیلا۔ گاڑی جب ہاسپٹل کے پارکنگ ایریا میں سے نکل رہی تھی تو اسے وہ ایک بار پھر نظر آیا تھا۔ وہ اپنی بائیک کے قریب کھڑا تھا اور ارد گرد نگاہیں دوڑا رہا تھا۔ اس کی شہد رنگ آنکھیں ایک لمحے کو دعا کی آنکھوں سے ملی تھیں ۔ وہ آنکھوں سکوڑ گیا تھا ۔ اسے وہ لڑکی مشکوک لگنے لگی تھی۔ وہ جن حالات سے گزر رہا تھا اس کا ہر کسی پر شک کرنا بنتا بھی تھا۔
اس نے سر جھٹکا اور اپنے گارڈز کی گاڑی ڈھونڈنے لگا۔ انہوں نے ہی اس کی بائیک یہاں پہنچائی تھی اور یہ تو ہو نہیں سکتا تھا وہ اس کا پیچھا کیے بنا چلے جاتے۔ ایک جگہ اسے وہ گاڑی نظر آ گئی۔ وہ جیب سے چاقو نکالتا گاڑی کی طرف بڑھا۔ گاڑی کے پیچھے چھپے گارڈز بوکھلا گئے۔
"اب کیا کریں؟" کامل نے دوسرے سے پوچھا۔
"اب تو جو کرنا انہوں نے ہی کرنا ہے " حمزہ نے کہا۔ اگلے ہی پل اس کی بات سچ ثابت ہو گئی۔ حیان نے جھک کر چاقو ایک ٹائر میں اتار دیا۔ دونوں گارڈز صدمے سے منہ کھول کر اٹھ کھڑے ہوئے ۔
"اب پیدل میرا پیچھا کرو۔ اچھا ہے تھوڑا ویٹ لوز ہو گا۔ کافی موٹے ہو گئے ہو تم دونوں۔ " وہ ان دونوں کی طرف دیکھ کر مزے سے کہتا مڑ گیا۔ اگلے منظر میں وہ بہت تیزی سے بائیک چلاتا ہسپتال کے پارکنگ ایریا سے نکل رہا تھا اور گارڈز کوئی ٹیکسی پکڑنے کے چکر میں تھے۔ ڈیوٹی تو انہیں ہر حال میں نبھانی تھی۔ لیکن انہیں وقت پر ٹیکسی نہ ملی اور حیان ان کی نظروں سے اوجھل ہو گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کی بائیک پر رونق سڑکوں سے گزر کر مضافات کی طرف بڑھنے لگی۔ لمبی سی سڑک کے ارد گرد اونچے نیچے ٹیلے نظر آ رہے تھے ۔ کچھ آگے جا کر وہ ٹیلے چھوٹی چھوٹی پہاڑیوں میں تبدیل ہو گئے۔ مزید دس منٹ کا سفر کرنے کے بعد اس نے بائیک سڑک سے اتار کر ایک کچے راستے کی طرف موڑ لی۔ وہ راستہ ایک پہاڑی کے گرد گھومتا اس کے پیچھے بنے ایک فارم ہاؤس تک جاتا تھا۔ وہ فارم ہاؤس ہی اس کی منزل تھی۔ اس کی بائیک فارم ہاؤس کے بڑے سے گیٹ کے سامنے آئی تو گیٹ کا ایک حصہ کھل گیا۔ وہ بائیک کو اندر بڑھا لے گیا۔ فارم ہاؤس کا اندرونی منظر بہت وسیع تھا۔ ناہموار احاطوں میں تین بند عمارتیں موجود تھیں۔ درمیانی عمارت کسی بنگلے کی طرح دکھائی دے رہی تھی۔ اس کے دائیں طرف انیکسی کی طرح کی عمارت تھی اور بائیں طرف دیوار کے ساتھ ساتھ ایک ساتھ کئی کمرے بنے ہوئے تھے جن میں لوگوں کی چہل پہل دکھائی دے رہی تھی۔ گیٹ کے قریب بھی دو کمروں پر مشتمل ایک چھوٹی سی عمارت تھی جو بوقت مورچہ بھی بن جایا کرتی تھی۔ اس میں دو لوگ گارڈز کی ڈیوٹی سر انجام دے رہے تھے۔ ان کے سامنے باقاعدہ سکرینز لگی تھیں جن میں فارم ہاؤس کے بیرونی اور کئی اندرونی مناظر کی سی سی ٹی وی فوٹیجز چل رہی تھیں۔ گیٹ بھی انہوں نے اسی کمرے میں موجود ٹیکنالوجی سے کھولا تھا۔ وہ متعلقہ شخص کے سوا کسی کو اندر نہیں جانے دیتے تھے۔ حیان جو وہاں سب بازل کے نام سے جانتے تھے ۔ وہ ان کے باس کا چہیتا تھا۔ جزیل ذکریا اس فارم ہاؤس کا مالک تھا اور وہاں رہنے والے لوگ قانون کی نظر میں مجرم تھے۔ یہ الگ بات تھی کہ اکثر پر غلط الزام لگائے گئے تھے۔ کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو اپنے دشمنوں سے بچنے کیلیے وہاں پناہ حاصل کیے ہوئے تھے۔ ان کی تعداد پچاس کے قریب تھی۔ جزیل نے کچھ عرصہ حیان کو بھی وہاں رہنے کا کہا تھا کیونکہ اس کے پچھلے ٹھکانے پر دشمن چھاپہ مار چکا تھا ۔ وہ شہر میں ہی کوئی اور فلیٹ لینا چاہتا تھا لیکن جزیل نے کہا تھا ڈیرے پر اگر کوئی زخمی یا بیمار ہو جائے تو شہر لے جانے میں مسلہ ہوتا ہے ۔ اس لیے وہ یہاں رہنے پر مان گیا تھا ۔ مریضوں کیلیے وہ کچھ بھی کر سکتا تھا ۔
وہ انیکسی کے سامنے بائیک لے آیا اور ایک طرف روک کر اندر کی طرف بڑھا۔ جس جس نے اسے دیکھ لیا تھا سلام کرنے اس کی طرف دوڑ رہے تھے۔ وہ سب اس سے عقیدت رکھتے تھے۔ وہ سب سے مصافحہ کرتا اندر آیا ۔ یہاں ایک نوجوان لڑکے نے اس کا استقبال کیا۔ فرحان یہاں موجود تمام لوگوں سے چھوٹا تھا اور بازل سے میڈیکل کے بارے میں سیکھ رہا تھا۔ وہ میڈیکل کا سٹوڈینٹ رہ چکا تھا لیکن اس پر ایک ایسا الزام لگا کہ پڑھائی اور گھر بار سب کچھ چھوڑنا پڑا۔ اگر وہ یہاں نہ آتا تو جیل میں سڑ رہا ہوتا۔ اب وہ نرسنگ بہت حد تک سیکھ چکا تھا۔ اور میڈیسنز کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جاننے کیلیے ہر وقت حیان کی خدمت میں حاضر رہتا۔
"اسلام علیکم بازل بھائی۔ کیا حال ہیں؟"
"وعلیکم السلام۔ بہت برے حال ہیں۔ ذرا سٹرانگ سی کافی تو پلاؤ۔" وہ تھکاوٹ سے کہتا اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا۔ اگلے منظر میں وہ رائٹنگ ٹیبل کی کرسی پر بیٹھا لیپ ٹاپ کھولے سکرین کو دیکھ رہا تھا ساتھ چائے کے سپس بھی لے رہا تھا۔ سکرین پر جعفر ایک ٹالک شو میں اینکر کے سامنے بیٹھا اپنی صفائیاں دینے میں مصروف تھا۔ بازل نے اس پر جو سوالات اٹھائے تھے اب تک وہ ان کے جوابات تراش چکا تھا اور اپنی مرضی کے چینل اور اپنی مرضی کے شو میں آ کر جوابات دے رہا تھا۔ اینکر بھی اس کی مرضی کا تھا۔ کوئی کریکٹکل سوال نہیں پوچھ رہا تھا۔ لیکن حیان نے جو کرنا تھا وہ کر چکا تھا۔ اب وہ جو مرضی کرتے رہتے اعوام ان کی اصلیت جان گئی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"اتنی دیر سے کیوں آئیں؟" دعا اور نیناں ہاسٹل پہنچیں تو اجالا بھی ان کے پاس آ گئی اور فکر مندی سے پوچھنے لگی۔
"یہ میڈم بےہوش ہو گئی تھیں سڑک پر۔ پھر ہاسپٹل لے کر جانا پڑا۔ " نیناں نے منہ بنا کر کہا۔
"کیوں؟ کیا ہوا تھا ؟" اجالا نے پریشانی سے دعا کو گہری نظروں سے دیکھا جو کرسی پر بیٹھی کسی غیر مرئی نقطے کو دیکھ رہی تھی ۔
"بس کمزوری ہو گئی تھی۔ " نیناں اصل بات تو بتا نہیں سکتی تھی سو یہی کہہ دیا۔
"اپنا خیال کیوں نہیں رکھتی تم۔ " اجالا ڈپٹنے والے انداز میں بولی لیکن دعا پر اس کی کسی بات کا اثر نظر نہیں آ رہا تھا۔ اجالا کچھ دیر اسے دیکھتی رہی پھر گہری سانس لے کر کمرے سے نکل گئی۔ کچھ دیر بعد وہ ایک ٹرے میں دعا کیلیے دودھ کا گلاس اور سیب کاٹ لائی تھی۔ جب سے دعا کے ساتھ حادثہ ہوا تھا وہ اسی طرح اس کی کئیر کر رہی تھی۔ پہلے پہل تو نیناں کو حیرت ہوئی لیکن اب اس پر غصہ آتا تھا۔
"میں نے اسے ہاسپٹل میں ہی دودھ لا دیا تھا " اس نے جتا کر کہا۔
"چلو پھر سیب کھا لو صرف۔" اجالا نے دعا سے کہا۔
"تم میری اتنی فکر مت کیا کرو۔ " دعا نے اداسی سے کہا۔
"ہاں ۔ میں ہوں اس کی فکر کرنے کیلیے " اس سے پہلے کہ اجالا کچھ کہتی نیناں بول پڑی۔ اجالا خاموش رہ گئی۔ وہ دعا کو کیا بتاتی کہ وہ کس جرم کا مداوا کر رہی تھی۔ وہ تو طلال کو بھی دعا کا پیچھا چھوڑ دینے کا کہہ چکی تھی لیکن وہ کیسے اس کی بات مانتا۔ وہ تو دعا کو سبق سکھانے کیلیے پاگل ہو رہا تھا۔ وہ اب تک دعا کو یہ بھی نہیں بتا پائی تھی کہ اس کے کمرے میں حملہ آور بھیجنے والی کون تھی۔ طلال نے اسے دھمکی دی تھی کہ وہ آبرو کے بارے میں اسے کچھ نہ بتائے ورنہ وہ اس کے بارے میں دعا کو بتا دے گا۔
"لاؤ دو۔ مجھے بھوک لگی ہے۔" دعا نے نیناں کو گھور کر اجالا سے پلیٹ لے لی۔ نیناں برے برے منہ بناتی اپنے بستر پر چلی گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جزیل ذکریا خطیب کے آفس میں اس کے سامنے موجود تھا۔ خطیب اس کا ذاتی دشمن نہیں تھا لیکن وہ حیان کی جان کا دشمن بنا ہوا تھا۔ اور جو حیان کا دشمن ہوتا وہ اس کا دشمن بھی تھا۔
"ارے واہ بڑے بڑے لوگ آئے ہیں ہمارے ہاں۔ ویلکم۔" خطیب اسے دیکھ کر چہرے پر مسکراہٹ لاتے اٹھ کھڑا ہوا۔ جزیل اگر انٹرنیشنل مافیا سے تعلق رکھتا تھا تو کم وہ بھی نہیں تھا۔ جزیل نے اسے ایک دفعہ پہلے وارن کیا تھا کہ وہ حیان کا پیچھا چھوڑ دے لیکن وہ باز نہیں آیا۔ اب وہ اسے بلیک میل کرنے کے سارے لوازمات سمیت اس کے آفس آیا تھا جو اس نے اس کی گرل فرینڈ کے ذریعے حاصل کیے تھے۔
"ویلکم بعد میں کرنا۔ پہلے تمہیں یہ دیکھ لینا چاہیے۔ " جزیل کے سیکرٹری نے فائل خطیب کی طرف چڑھائی۔
"یہ کیا ہے؟ " خطیب نے فائل پکڑ کر کھولی ۔ اچانک اس کے چہرے کا رنگ بدلا۔ اس نے ایک جھٹکے سے جزیل کو دیکھا جو سرخ نگاہوں سے اسے دیکھ رہا تھا۔
"یہ ... یہ تم نے کیسے کیا؟" وہ شدید مضطرب نظر آنے لگا۔
"غلط سوال۔ تمہیں اس سب کا مقصد پوچھنا چاہیے " جزیل نے ناصحانہ انداز میں کہا۔ وہ دانت پیس کر رہ گیا۔ جزیل نے پینٹ کی جیبوں میں ہاتھ پھنساتے گہری سانس لی۔
"بازل کا خیال دل سے نکال دو ۔ ورنہ میں تمہیں خودکشی کرنے پر مجبور کر دوں گا ۔ "اس نے سرد لہجے میں چبا چبا کر کہا اور اس کے آفس سے نکل گیا۔ اس کا سیکرٹری بھی اس کے پیچھے لپکا تھا ۔ خطیب ٹیبل پر مکا مار کر رہ گیا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دعا بیڈ پر لیٹی چھت کو یک ٹک سی دیکھ رہی تھی لیکن اس کی نگاہوں کے سامنے اس شہزادے کا چہرہ تھا جو اس کی محبت میں پاگل تھا۔ اس نے خواہش کی تھی کہ اسے اپنے دور میں شہزادے کا ہمشکل اور ہم نام مل جائے ۔ اب ایسا ہو چکا تھا لیکن وہ شہزادے سے محبت کا وعدہ کر چکی تھی اور دل اس کی طرف ہمک رہا تھا جو اس کی دنیا کا باسی تھا۔ اس نے گہری سانس لی اور ایک خیال آنے پر اٹھ کر رائٹنگ ٹیبل پر آ گئی۔ کب سے بند پڑی ڈائری کھولی تو شہزادے کی موت کا منظر اس کی آنکھوں کے سامنے سے گزر گیا اور بے اختیار اس کی آنکھیں نم ہو گئیں۔ اس نے آخری صفحہ تیزی سے پلٹ دیا۔ ایک سین اس کا منتظر تھا جو اس نے تو نہیں لکھا تھا لیکن اس کے بغیر کہانی اختتام کو نہیں پہنچ سکتی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ سپاہی ملکہ شائلہ نے سلطان حیان مصطفیٰ کو قتل کرنے وہاں بھیجے تھے۔ جب سلطان نے اپنے سپاہیوں کو اس مکان میں پتہ دینے کیلیے بھیجا تھا جہاں دعا غائب ہوئی تھی تو ملکہ شائلہ کو اس کی خبر ہو گئی تھی۔ اس نے بھی ایک مخبر وہاں بھیج دیا تھا ۔ جب سلطان حیان وہاں آیا تو وہ اسی وقت ملکہ کو خبر دینے پہنچ گیا۔ اس کے ساتھ محافظوں کی تعداد زیادہ نہیں تھی ملکہ کو یہ موقع غنیمت لگا تھا ۔ اس نے اپنی خفیہ فوج جس کو وہ اب تک کافی بڑھا چکی تھی حیان کو قتل کرنے کیلیے بھیج دی۔ اس تک جب یہ خبر پہنچی کہ سلطان حیان مصطفیٰ مارا جا چکا ہے تو اس نے دس ہزار کی فوج کے ساتھ راج گڑھ میں موجود سلطان کے ساتھیوں کو قتل کر دیا اور اپنی حکومت کا علان کر دیا۔ ساتھ اپنے لوگوں کو حفر پر چڑھائی کرنے کیلیے بھی تیار کرنے لگی۔ زیادہ تر لوگوں نے اس کا ساتھ دیا۔ ادھر حفر میں بھی سلطان کی موت کی خبر پھیلی تو ہر طرف اداسی نے ڈیرہ ڈال لیا۔ ملکہ مہر ماہ اس وقت عاسل کے ساتھ ہندوستان کے ایک ساحلی علاقے میں پہنچ چکی تھی جب اسے یہ اطلاع ملی۔ وہ ساکت رہ گئی تھی ۔ وہ صدمہ اس کیلیے بہت بڑا تھا۔ اس کی آنکھوں کا تارا تھا حیان۔ اسے اپنا بچہ لگتا تھا۔ وہ اس کی موت پر ایک ماں کی طرح ہی روئی تھی۔ اس نے واپس محل جانے کا فیصلہ کر لیا۔ عاسل بھی اس کے ساتھ متفق ہوا۔ وہ جب محل پہنچے تو وہاں کے حالات خراب تھے۔ ملکہ آمنہ دل کا دورہ پڑنے سے ہلاک ہو چکی تھی۔ محل پر کچھ لوٹیرے حملے کر رہے تھے۔ سپاہیوں نے بمشکل انہیں روکا ہوا تھا۔ عاسل نے آتے ساتھ ہی وہاں کے حالات سمبھالے اور ملکہ نے سردار ارتضیٰ کو خط بھجوا دیا ۔ سردار ارتضیٰ پہلے ہی سلطان کی موت سے باخبر ہو چکا تھا اور محل ہی آ رہا تھا۔ اس نے محل آ کر ملکہ مہر ماہ کے کہنے پر حفر کی سلطنت اپنے ہاتھ میں لے لی اور حفر کیلیے راج گڑھ کی فوج سے لڑائی کی۔ راج گڑھ والوں کو منہ کی کھانی پڑی۔ ملکہ مہر ماہ کو پتہ چل گیا تھا کہ سلطان کو مروانے والی ملکہ شائلہ تھی۔ لیکن اس نے تب تک انتظار کیا جب تک ملکہ شائلہ نے ایک بیٹے کو جنم نہ دے لیا۔ اس کے پیدا ہونے کے پانچویں روز ہی ملکہ مہر ماہ اس کے سر پر پہنچ گئی تھی۔ ملکہ شائلہ اسے دیکھ کر حیران رہ گئی تھی۔ راج محل کے پیروں داروں سے بچ کر وہ کیسے اس کے کمرے میں آ گئی تھی۔ اس سے پہلے کہ وہ چیختی ملکہ نے خنجر اس کے گلے میں اتار دیا ۔
"اپنے بچے کیلیے فکر مت کرنا۔ میں اسے پال لوں گی جیسے نیلو فر کو پالا تھا۔" وہ مرتی ملکہ شائلہ کے قریب سے بچہ اٹھا کر کمرے سے نکل گئی تھی ۔ ملکہ شائلہ دوہری اذیت میں مبتلا موت کو گلے لگا گئی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نیناں کمرے میں آئی تو دعا کو گم صُم سا ڈائری پکڑے بیٹھا دیکھ کر اس کے قریب آئی۔
"لاؤ دو۔ میں نے اینڈ سے پڑھا ہی نہیں تھا تمہارے چکر میں۔ " نیناں نے اس سے ڈائری لے لی اور پڑھنے لگی۔ کچھ دیر بعد آخری سین بھی مکمل کر چکی تھی۔ اس نے ڈائری بند کر کے رکھی تو دعا نے پر امید نظروں سے اسے دیکھا۔
"شہزادے کے بارے میں آخری سین میں زیادہ نہیں لکھا گیا۔ کیا پتہ کوئی فینٹیسی اسے میرے دنیا میں کے آئی یو جیسے میں اس کی دنیا میں گئی تھی۔ کیا پتہ وہ زندہ ہو؟" نیناں کچھ پل اسے افسوس سے دیکھتی رہی پھر گہری سانس لی۔
" وہ کہانی کا ایک کردار تھا دعا۔ وہ فینٹیسی تھا یا کچھ بھی تھا حقیقت نہیں تھا۔ تم کیوں اس کیلیے خود کو ہلکان کر رہی ہو۔" وہ ڈپٹنے والے انداز میں بولی۔ دعا لب چبانے لگی۔
"آئی تھنک وہ صرف ایک خواب تھا جس میں تمہیں تمہارے خوابوں کا شہزادہ دکھایا گیا ہے۔ اور اب وہ حقیقت میں تمہارے سامنے ہے۔ " نیناں نے اس کا ہاتھ تھام کر کہا۔ دعا نے چونک کر اسے دیکھا۔
"اس خواب زادے کی بجائے تم حقیقت والے حیان پر فوکس کرو تو پھر بھی یہ قابل قبول ہے۔ "
"تمہارا مطلب میں اسے پانے کی کوشش کروں جسے میں نے آج دیکھا؟" دعا نے الجھ کر پوچھا۔
"کوشش نہ سہی خواہش تو کر ہی سکتی ہو۔ اگر دم ہے تو کوشش بھی کر لو۔ "
"لیکن میں شہزادے سے محبت کرنے کا وعدہ کر چکی ہوں۔ "
"مجھے یہ بات سمجھ نہیں آئی۔ وہ جانتا تھا کہ وہ مرنے والا ہے پھر اس نے کیوں تم سے محبت کرنے کا وعدہ لیا ؟" نیناں بڑبڑائی۔ دعا بھی الجھی۔ وہ تو اسے ذرا سی تکلیف بھی نہیں پہنچنے دیتا تھا ۔ یہ تو ظاہر تھا کہ اس کی موت کے بعد اس سے محبت کرنا دعا کیلیے کتنا تکلیف دہ ہو گا پھر اس نے کیوں یہ وعدہ لیا تھا۔
"کہانی میں اس کے مر جانے کے بعد اس کا ہمشکل تمہارے سامنے آنا بھی صرف اتفاق نہیں ہو سکتا۔ ہو سکتا ہے وہ وہی حیان ہو جس سے تم محبت کا وعدہ کر چکی ہو۔" نیناں نے اسے سنسنی خیز نگاہوں سے دیکھا۔ دعا کے دل میں بھی ایک ہیجانی لہر دوڑ گئی۔
"لیکن کیسے ؟ اگر یہ وہی حیان ہوتا تو یہاں کے ماحول سے نابلد ہوتا جیسے میرے لیے اس کی دنیا اجنبی تھی لیکن وہ تو یہاں پوری طرح فٹ ہے۔
"ری برتھ؟" نیناں نے بھنویں اچکائیں۔ دعا نے نفی میں سر ہلایا۔
"مجھے نہیں لگتا ایسا ہو سکتا ہے۔ "
"جو بھی ہے۔ تم اسے وہی حیان سمجھ لو اور دکھی آتما بننا چھوڑ دو۔ میں تھک گئی ہوں تمہارا یہ لٹکا منہ دیکھ دیکھ کر۔" نیناں نے کہا تو دعا نے سرہانہ اٹھا کر اسے دے مارا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
" یہ عبید رضا ہے۔ ابدال بابر کا فیملی ڈاکٹر۔ ابدال کو شوگر کی بیماری ہے۔ اور وہ ہر ماہ اس سے چیک اپ کروانے جاتا ہے۔ کبھی کبھی اسے گھر بھی بلوا لیتا ہے۔ " حیان دیوار پر لگی بڑی سی سکرین کے قریب کھڑا تھا اور سکرین پر نظر آتی عبید کی تصویر کو دیکھتا روانی سے کہہ رہا تھا۔ اس کا لہجہ پر اعتماد تھا۔ سکرین کے سامنے ایک صوفہ سیٹ تھا جس پر ثانی گل ٹانگ پر ٹانگ رکھے گود میں رکھی بلی کا سر سہلاتی سکرین کی طرف دیکھ رہی تھی۔ وہ شرٹ اور سکرٹ میں تھی اوراس کے بال دو پونی ٹیلز میں بندھے ہوئے تھے۔ صوفے کے ساتھ کچھ فاصلہ پر ایک ورکنگ ٹیبل کے پیچھے جزیل ذکریا ریوالونگ چئیر پر بیٹھا دھیرے سے دائیں بائیں جھول رہا تھا۔
"یہ تم نے کتنے دن کی محنت کر کے معلومات حاصل کی؟" ثانی نے پوچھا۔
"دو دن کی۔"
"میں ایک گھنٹے میں کر لیتی۔ " ثانی کے جواب پر حیان نے کوئی رد عمل نہیں دیا۔ وہ ایسا ہی کرتی تھی۔ اگر اسے کچھ کرنے کو کہتا تو سو سو نخرے کرتی اور اگر نہ کہتا تو جتاتی ضرور تھی کہ وہ اس سے بہتر کر سکتی تھی۔ ویسے وہ کہتی غلط نہیں تھی۔ وہ واقعی بہترین رزلٹ دیتی تھی۔
"تم اس کی شکل اختیار کر کے ابدال کے بنگلے پر جانا چاہتے ہو؟" جزیل نے اہم سوال پوچھا۔
"نہیں اس کا اسسٹنٹ بن کر۔ " اس نے جواب دیا تو جزیل کے چہرے پر تشویش کے تاثرات ابھرے۔
"تم شاید بھول گئے ہو ابھی ابھی کیا کارنامہ انجام دے کر آئے ہو " جزیل نے طنزیہ کہا۔ وہ مسکرایا ۔
"میں کونسا ایسی شکل لے کر جاؤں گا جو وہ پہچان جائیں گے۔ اتنا لاپرواہ بھی نہیں ہوں۔ "
"تم رہنے دو۔ تمہاری جگہ کوئی اور بھی جا سکتا ہے ۔ "
"نہیں میں خود جاؤں گا ورنہ مطلوبہ نتائج نہیں مل سکیں گے۔ "
"اور وہاں جانے کا چانس بناؤ گے کیسے؟ ہو سکتا ہے وہ خود چیک اپ کروا آئے؟" ثانی نے بلی کے چہرے کو اپنے سامنے کرتے پوچھا۔
"تم کس لیے ہو۔ " حیان اس کی طرف دیکھ کر مسکرایا ۔
"میں کیسے؟"
"ڈاکٹر عبید کی کوئی کمزوری ڈھونڈنے کی کوشش کرو۔ میں تمہیں اس کے بارے میں بنیادی معلومات ای میل کر دیتا ہوں۔ " وہ سکرین بند کر کے ٹیبل کی طرف بڑھا جہاں اس کا لیپ ٹاپ پڑا تھا۔
"لیکن میں نے تو یہ کام کرنے کی حامی نہیں بھری۔ " ثانی نے نخوت سے کہا۔
"آہاں پھر لندن وزٹ کرنے کا پلان دل سے نکال دو۔ " ٹیبل پر ہی ٹک کر لیپ ٹاپ کے کچھ بٹنز پش کرتے وہ بڑے سکون سے بولتا ثانی کو تلملا گیا۔ وہ لندن اپنی دوستوں سے ملنے جانا چاہتی تھی لیکن جزیل نہیں مان رہا تھا ۔ اگر حیان اس کا ساتھ دیتا تو وہ ضرور مان جاتا۔
"لندن جانا ضروری نہیں ہے۔ " جزیل نے اعلان کیا کہ وہ اتنی آسانی سے نہیں ماننے والا۔
"اگر میں یہ ثابت کر دوں تو؟" ثانی گل نے اپنے بھائی کو دیکھا ۔
"اس سے بہتر ہے تم اپنے مستقبل پر توجہ دو۔ شادی کرو یا کیرئر شروع کرو ۔" جزیل نے کہا تو اس نے منہ بنایا۔ اسے اب حیان کی مدد چاہیے ہی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"میرے ساتھ اتنا بڑا حادثہ ہو گیا۔ تم مجھے پوچھنے بھی نہیں آئی۔" دعا نے اپنے سامنے بیٹھی آبرو سے کہا۔
"آ تو گئی ہوں۔ " منہ پھلائے آبرو نے جواب دیا تھا۔ دعا اسے دیکھ کر رہ گئی تھی۔ تبھی اجالا دعا کے کمرے میں داخل ہوئی تو آبرو کو وہاں دیکھ کر بری طرح ٹھٹکی۔ اسے دعا کیلیے پریشانی ہوئی۔ آبرو دعا کو پھر نقصان پہنچا سکتی تھی۔ وہ ماتھے پر بل ڈالے آبرو کو گھورنے لگی۔ آبرو بوکھلا کر اٹھ کھڑی ہوئی۔
"میں چلتی ہوں۔" وہ دعا کی کوئی بات سنے بغیر کمرے سے نکل گئی۔ دعا کو تعجب ہوا لیکن وہ اجالا کی طرف متوجہ ہو گئی۔ اجالا کا دل کیا اسے کہے آبرو سے دور رہے لیکن وہ نہ کہہ سکی۔ دعا اس کی وجہ پوچھتی اور اگر وہ آبرو کے بارے میں بتا بھی دیتی تو وہ یقین نہ کرتی۔ اسے کچھ اور کرنا تھا۔
"نیناں کہاں ہے؟" اجالا نے کچھ سوچتے ہوئے پوچھا۔
"ہاسٹل ٹور پر گئی ہے۔ سب سے ہیلو ہائے کر کے ہی آئے گی ۔"دعا نے کہا تو وہ بے چینی سے نیناں کا انتظار کرتی دعا سے باتیں کرنے لگی۔ کچھ دیر بعد اسے دروازے سے نیناں کمرے کی طرف آتی دکھائی دی تو وہ اٹھ کر تیزی سے باہر آئی ۔ اس سے پہلے کہ وہ کمرے میں داخل ہوتی اجالا اسے لیے ایک طرف کو آئی۔ نیناں نے حیرت سے اس کا منہ دیکھا۔
"تم جانتی ہو دعا پر حملہ ہوا تھا پھر تم کیسے اتنی لاپرواہی برت سکتی ہو دعا کے حوالے سے۔" اجالا کا انداز ڈپٹنے والا تھا جو نیناں کو بالکل پسند نہ آیا۔
"مجھے پتہ ہے ۔ تمہیں مجھے بتانے کی ضرورت نہیں ۔ بائے دا وے میں نے کونسی لاپرواہی برتی ہے۔ "
"اسے ایک پل کیلیے بھی اکیلا مت چھوڑو۔ "
"کیا مطلب ؟ حملہ آور ہاسٹل میں تو آنے سے رہا۔" نیناں الجھی۔
"اس کا دشمن یہیں اس ہاسٹل میں ہے۔ " اجالا نے کہا تو نیناں کی بھنویں سکڑیں۔
"میں یقین سے نہیں کہہ سکتی لیکن مجھے شک ہے کہ آبرو کا اس حملے کے پیچھے ہاتھ تھا۔ " اجالا نے دھیمی آواز میں کہا تھا۔
"کیا؟ یہ تم کیسے کہہ سکتی ہو؟" نیناں حیرت کے مارے چیخ پڑی۔ اجالا نے بوکھلا کر یہاں وہاں دیکھا۔
"میں جب گیسٹ ہاؤس میں دعا کے کمرے کی طرف جا رہی تھی تو آبرو قریب ہی ٹیرس پر موجود تھی۔ میں نے دعا کو پانی میں گرتے دیکھ کر چیخیں ماریں اور لوگوں کو بلانے کیلیے بھاگی تو اس دوران میری نظر اس پر پڑی تھی۔ وہ میری چیخیں سن کر بھی آرام سے کھڑی رہی۔ " اجالا نے بہت عقل مندی سے کام لیا تھا۔ اگر وہ سب سچ بتا دیتی تو نیناں ضرور آبرو کی کلاس لیتی اور بدلے میں طلال اس کا بھانڈہ پھوڑ دیتا لیکن اس نے صرف شک ظاہر کر دیا تاکہ نیناں اس کی طرف سے محتاط ہو جائے۔
"یہ تو واقعی بہت عجیب بات ہے۔ دشمنی اپنی جگہ لیکن انسانیت کے ناتے تو اسے کچھ کرنا چاہیے تھا۔ دعا تو اس کی کزن بھی ہے۔ " نیناں کو آبرو پر پکا شک ہونے لگا تھا۔
"تم یہ بات تب تک کسی کے سامنے ظاہر نہ کرنا جب تک کنفرم نہ ہو جائے کہ آبرو نے ہی وہ حملہ آور بھیجا۔ " اجالا نے کہا تو اس نے سر ہلایا۔
"اور ہاسٹل یا یونی میں دعا کے ساتھ رہنا ہر وقت۔ میں بھی کوشش کروں گی ..."
"تم رہنے دو میں اکیلی ہی کافی ہوں " نیناں تیزی سے کہہ کر کمرے کی طرف چلی گئی۔ اجالا کھلے منہ کے ساتھ پلکیں جھپکا گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"چلو ایش مقابلہ لگاتے ہیں ۔ کون پہلے یہ ٹاسک ختم کرے گا۔ " ثانی گل نے ہیکنگ سسٹم کے سامنے بیٹھتے ہوئے ایش کو مخاطب کیا۔
"ٹھیک ہے۔ وقت کتنا ہے۔" ایش دلچسپی سے بولا۔
"آدھا گھنٹہ۔" ثانی سسٹم آن کر چکی تھی۔
"کم نہیں ۔ میں تو چلو کر لوں گا۔ تم...." ثانی کی گھوری پر اس کی زبان رکی۔
"میرا مطلب ...."
"مجھے انڈر ایسٹیمیٹ مت کیا کرو ایش۔ تم جانتے ہو میں نے ہارنا نہیں سیکھا۔"
"اسی لیے تو مجھے تمہاری فکر رہتی ہے۔ تم اگر ہار گئی تو ہرٹ ہو گی۔ "
"میری فکر چھوڑو اپنی کرو۔ میں کام شروع کر چکی ہوں۔" وہ عبید رضا کی سوشل پروفائلز کھنگالنا شروع ہو چکی تھی۔ ایش کندھے اچکا کر باہر چلا گیا۔
عبید کی پروفائل سے کچھ خاص نہ ملا تو ثانی نے اس کی آئیڈیز ہیک کر لیں اور پندرہ منٹ میں ہی اس کی ایک کمزوری ڈھونڈ نکالی۔ اسی وقت ایش بھی اپنا کام مکمل کر کے آ چکا تھا ۔
"موصوف کو ایک طوائف کی بیٹی سے عشق ہے۔" ایش نے بتایا ۔ ساتھ نظر سکرین پر گئی جہاں عبید اور طوائف کی بیٹی کی چیٹ کھلی پڑی تھی۔
"واہ مقابلہ برابر رہا۔ "
"نہیں میں نے پہلے کیا ہے۔ " ثانی اسے اپنے برابر ماننے کو بھی تیار نہ تھی۔
"اچھا تم نے ہی کیا ہو گا پہلے۔" وہ مسکین سی صورت بنا کر بولا۔
"کیا مطلب ہو گا۔ ایسا ہے۔" ثانی نے اسے کھا جانے والی نظروں سے دیکھا۔
"ہاں وہی مطلب تھا میرا "
"تمہارے مطلب تو کسی دن میں نکالوں گی فرصت سے۔ " وہ کہہ کر ٹیبل پر پڑے ایک باکس سے لالی پاپ لیتی اٹھ کر باہر چلی گئی۔ ایش منہ لٹکائے وہیں بیٹھ گیا ۔ آخر کب ثانی اس سے خوش ہو گی۔ اس نے اداسی سے سوچا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک اونچی متناسب جسامت کا شخص اسلام آباد ائیر پورٹ سے باہر نکلا تو دو ٹیکسی والے اس کی طرف بڑھے۔ اس کی عمر اٹھائیس سال تھی ۔ دکھنے میں امیر اور نائس پرسنیلٹی کا لگتا تھا۔ ایک ٹیکسی والے نے جلدی سے اس کا سوٹ کیس تھام لیا۔ دوسرے کا منہ بن گیا۔ وہ اس کی طرف مسکراہٹ اچھالتا اس ٹیکسی میں بیٹھ گیا جس کے ڈرائیور نے پہلے اس کا سامان لے لیا تھا ۔
"کہاں چلنا ہے صاحب!" ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھتے ڈرائیور نے پوچھا۔
"قاعد اعظم یونیورسٹی" شاہ میر نے بتایا۔ وہ دعا کو بتائے بغیر پاکستان آیا تھا اور اسے سرپرائز دینے کے چکر میں تھا۔ لیکن نہیں جانتا تھا قسمت اسے ہی سرپرائز کرنے والی تھی۔ ٹیکسی تیز رفتاری سے سڑک پر دوڑ رہی تھی۔ ایک چوراہا سامنے نظر آنے لگا لیکن ڈرائیونگ نے گاڑی سلو نہیں کی کیونکہ دائیں بائیں جانے والی سڑک پر ٹریفک نہیں تھی۔ دائیں جانب مڑنے والی سڑک پر زیبرا کراسنگ کھلا ہوا تھا لیکن جیسے ہی ٹیکسی چوک کے بیچ میں آئی دائیں طرف سے ٹریفک کھل گئی اور ایک بس تیزی سے آگے بڑھتی ٹیکسی کے اگلے حصے سے ٹکرا کر آگے نکل گئی۔ ٹیکسی کی سپیڈ جتنی تیز تھی اسے کنٹرول کرنا ممکن ہی نہیں تھا۔ گاڑی بس کے ساتھ جھنجھنا دینے والے ٹکراؤ کے بعد سڑک پر گول گھومتی کسی دوسری گاڑی سے جا ٹکرائی۔ جب یہ طوفان تھما تو لوگ حادثے کی شکار ان گاڑیوں کی طرف بھاگے۔ ٹیکسی ڈرائیور کو تو دیکھ کر لوگ سمجھ گئے تھے وہ مر چکا ہے۔ شامیر کے سر سے بھی خون بہہ رہا تھا لیکن وہ ابھی ہوش میں تھا اور غنودگی میں جا رہا تھا۔ ٹیکسی جس دوسری گاڑی سے ٹکرائی تھی اس کو زیادہ نقصان نہیں پہنچا تھا۔ لوگوں میں سے کسی نے ایمبولینس کو کال کی۔ ہسپتال قریب ہی تھا۔ پانچ منٹ میں دو ایمبولینسز پہنچ گئیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
0 Comments