Header Ads Widget

Chragh e drakhshan Epi 10 - by dua fatima

 

Chragh e Drakhshan

by dua fatima

Chragh e Drakhshan Part 2

Episode 10

"دعا طلال کے ساتھ شادی پر خوش نہیں لگتی۔ کہیں اس کے ساتھ زبردستی تو نہیں ہو رہی ۔" ثانی گل نے یہ میسج پڑھا تو گہری سانس لی۔

"سچ کہتے ہیں۔ تقدیر سے کوئی بھی نہیں بچ سکتا۔ بندہ پوچھے وہ خوش لگے نہ لگے تمہیں کیا ہے۔ تم اپنا کام کرو۔ " وہ بڑبڑائی تو ایش اس کی طرف متوجہ ہوا۔ 

"کیا ہوا؟" اس نے پوچھا۔ ثانی نے اسے حیان کا میسج دکھایا ۔ 

"تو تم اصل وجہ بتاؤ گی اسے؟"

"ہاں بتانی تو پڑے گی۔ ہو سکتا ہے وہ بھی کچھ کر دے۔ تہامی نے بتایا طلال نے ابھی تک سبق نہیں سیکھا۔ اسے سیدھا کرنے کیلیے ایک اور ڈوز دینی ہے۔ "

"لیکن تم نے کہا تھا چاند پر جانے کیلیے انرجی سیو کروں۔ "ایش نے کام سے بچنا چاہا۔ 

"تھوڑی سی انرجی استعمال کرنے سے مر نہیں جاؤ گے تم۔ اور چاند پر جانے سے زیادہ اہم ایک لڑکی کی زندگی ہے۔ سوچو اگر طلال اس کے ساتھ شادی کرنے میں کامیاب ہو گیا تو وہ اس کی زندگی عذاب بنا کر رکھ دے گا۔ "

"ڈراؤ تو نہیں۔ میں اپنا کام اچھے سے کروں گا۔ " وہ تیزی سے بولا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حیان ایک آپریشن کر کے واپس گھر لوٹا تو ایک بج چکا تھا۔ ابدال صاحب اسی کا انتظار کر رہے تھے۔ کچھ دیر بعد ہی وہ فارم ہاؤس جا رہے تھے ۔ ابدال صاحب نے صرف ذاتی باڈی گارڈ ساتھ لیا تھا اور ایک ڈرائیور ساتھ تھا۔ حیان جانتا تھا کہ ایک گارڈ کیوں لیا گیا پھر بھی وہ ان کے ساتھ جا رہا تھا کیونکہ اس کی بھی تیاری پوری تھی۔ 

"میں جب بھی فارم ہاؤس جاتا ہوں ساتھ زیادہ گارڈ نہیں لیتا ۔ وہاں میں سکون کیلیے جاتا ہوں لیکن۔ آس پاس گارڈز کو دیکھ کر دل عجیب سا بیزار ہو جاتا ہے " ابدال صاحب عام سے لہجے میں کہہ رہے تھے۔ وہ بس مسکرا دیا۔ ابدال صاحب وقفے وقفے سے باتیں کرتے رہے۔ زیادہ تر اپنی بڑائی بیان کرتے رہے۔ حیان نے چہرے پر دلچسپی کے آثار جمائے رکھے البتہ دل تو اس کا کچھ اور ہی کرنے کو کر رہا تھا۔ وہ آدھے گھنٹے میں فارم ہاؤس پہنچے ۔ ابدال صاحب نے سے چائے پینے کے بعد اسے فارم ہاؤس دکھایا اور پھر زمینیں دکھانے لے گئے جو فارم ہاؤس کے قریب ہی تھیں۔ وہ چلتے چلتے زمینوں کے آخری حصے کے قریب آ گئے تھے جب اچانک سے کچھ نقاب پوش درختوں کے ایک جھنڈ سے نکل کر ان کے گرد پھیل گئے۔ گارڈ کو اپنی بندوق سیدھی کرنے کا موقع ہی نہیں ملا۔ ایک نقاب پوش نے اس سے بندوق جھپٹ لی۔ 

"ک... کون ہو تم لوگ؟" ابدال صاحب چہرے پر پریشانی اور خوف لے آئے جبکہ حیان سکون سے کھڑا رہا۔ 

"اتنی بھی کیا جلدی ہے جاننے کی۔ رابطہ کریں گے تم سے اور بتا دیں گے ہم کون ہے۔ اوئے پکڑ لو اس کے بھتیجے کو۔ " ایک شخص نے کہہ کر اپنے ساتھیوں کو اشارہ کیا۔ 

"دیکھو اسے چھوڑ دو۔ اس نے کیا بگاڑا ہے تمہارا ؟" ابدال صاحب نے انہیں روکنا چاہا۔ 

"اس نے نہیں پر تم نے تو بگاڑا ہے۔ " ایک نے انہیں دھکا دے کر پیچھے ہٹایا۔ 

اگر تم دونوں زندگی چاہتے ہو تو اپنی جگہ سے مت ہلنا۔" وہ انہی۔ خبردار کر کے حیان کو ڈھیروں بندوقوں کی زد میں رکھتے درختوں کے پیچھے کھڑی گاڑی کی طرف لے آئے۔ 

"بہت ہی بھونڈی ایکٹنگ تھی۔" حیان بڑبڑا کر گاڑی میں بیٹھا۔ نقاب پوشوں نے بے عزتی فیل کرتے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ وہ اس کے فارم ہاؤس پر رہنے والے ہی ساتھی تھے۔ ابدال نے جزیل سے پوچھا تھا کہ کیا وہ غنڈے مہیا کر سکتا ہے اس نے حامی بھر لی تھی۔ یہ جزیل کا ہی کمال تھا کہ ابدال اس پر اتنا بھروسہ کرنے لگا تھا۔ 

انہوں نے حیان سے معذرت کرتے اس کی آنکھوں پر پٹی باندھی۔ کچھ دیر بعد گاڑی دھول اڑاتی وہاں سے غائب ہو گئی ۔ ابدال صاحب کچھ دیر گاڑی جو جاتا دیکھتے رہے پھر کسی کو کال ملاتے واپس مڑے۔ ان کا باڈی گارڈ بھی ان کے پیچھے لپکا۔ فارم ہاؤس پر پہنچ کر انہوں نے باڈی گارڈ کو باہر لان میں ہی رکنے کا اشارہ کیا اور خود اندر ایک کمرے میں آ گئے۔ انہوں نے نصیر کو کال ملائی تو اس نے بتایا ان کے آدمی حیان کو خفیہ ٹھکانے پر لے آئے ہیں۔ 

"اس سے اگلوانے کی کوشش کرو وہ کیوں واپس آیا ہے۔ " جیسے ہی کچھ مشکوک پتہ چلے اسے قتل کر دینا۔ " انہوں نے سفاکی سے حکم دیا اور فون بند کر دیا۔ دوسری طرف ان کے سیکرٹری نے آدمیوں سے کہہ کر حیان کو ایک کرسی پر بندھوا دیا اور ناسک پہن کر اس کے سامنے آیا۔ 

"کون ہو تم اور بابر ہاؤس کیوں آئے تھے؟" نصیر نے اس کے سنہرے بال مٹھی میں جکڑتے چہرہ اوپر کیا۔ 

"میں اپنے چچا اور تایا کے گھر آیا تھا ۔ اس میں کیا برا ہے۔ تم لوگ مجھے اس لیے اٹھا لائے ہو؟" وہ تعجب سے پوچھ رہا تھا جب نصیر نے اس کے منہ پر مکا دے مارا۔ ارد گرد کھڑے لوگوں کا دل کیا نصیر کا کچومر بنا دیں لیکن انہیں حیان کے پلان کے مطابق ہی کام کرنا تھا ۔

"اگلواؤ اس سے سچ " نصیر مڑ کر ان سے کہتا کمرے سے نکل گیا تھا۔  

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"اجالا تمہیں کوئی پسند ہے؟" گیٹ کی طرف جاتے دعا نے اچانک اجالا سے پوچھا تو وہ گڑبڑا گئی۔ 

"نہیں تو۔ تم کیوں پوچھ رہی۔" وہ نہ جانے کیوں چھپا رہی تھی۔ دعا نے اس کی کیفیت پر زیادہ غور نہیں کیا اور سامنے دیکھتی مسکرا دی۔ 

" کچھ نہیں بس ایسے ہی پوچھا۔ " اس نے یہ ٹاپک پھر کسی دن چھیڑنے کا سوچا ۔ ابھی اسے گھر جانا تھا۔ ڈرائیور اس کا انتظار کر رہا تھا۔ وہ جلدی جلدی میں کام بگاڑنا نہیں چاہتی تھی۔ وہ یونی سے نکل کر گاڑی میں بیٹھی تو ڈرائیور نے گاڑی آگے بڑھا دی۔ گارڈز کی ایک گاڑی بھی ان کے پیچھے تھی۔ کچھ دیر بعد دعا کو محسوس ہوا وہ غلط راستے پر جا رہے تھے۔ یہ راستہ بابر ہاؤس کو نہیں جاتا تھا۔ 

"انکل یہ آپ کدھر جا رہے ہیں۔ راستہ اس طرف ہے۔ " اسے لگا شاید انہیں کوئی غلطی لگ گئی ہو۔ 

"جانتا ہوں بی بی ۔ پر اس طرف ایک روڈ بند ہے۔ اسی راستے سے جانا پڑے گا۔ " اس نے کہا تو دعا کچھ ریلیکس ہوئی۔ کچھ دیر بعد اس نے مڑ کر پیچھے دیکھا گارڈز والی گاڑی غائب تھی۔ اس کا دل سکڑ کر پھیلا۔ جیسے ہی وہ مڑ کر سیدھی ہوئی ڈرائیور نے اس کے چہرے کے سامنے ایک سپرے کر کے نوزل دبا دی۔ بے ہوش ہوتے ہوئے اسے شدید خوف محسوس ہوا تھا اور سی خوف جان کے جانے کا تھا۔ 

گارڈز کی گاڑی تو ڈرائیور کے پیچھے نہیں تھی البتہ حیان کا دعا کی نگرانی پر لگایا گیا ایک گارڈ موٹر بائیک پر ضرور تھام ڈرائیور نے جیسے ہی غلط راستے پر ٹرن لیا اس نے حیان کو فون کر دیا۔ 

حیان کو اغوا کرنے والے اسے اس کا چھینا گیا فون اور والٹ واپس کر رہے تھے۔ ایک شخص اس کے لبوں کے پھٹے کنارے کا معائنہ کر رہا تھا جب ایک کال دیکھ کر اس نے جلدی سے پک کی۔ 

"ڈرائیور کوئی گڑبڑ کر رہا ہے۔ وہ دعا کو غلط راستے پر لے کر جا رہا ہے اور گارڈز کی گاڑی بھی ان کے پیچھے نہیں ہے۔ " اس تشویش ناک خبر نے اسے غصہ دلایا۔ 

"ان کے پیچھے رہنا اور مجھے اپ ڈیٹ کرتے رہنا۔  میں آ رہا ہوں " وہ کہہ کر باہر بھاگا ۔ جس گاڑی میں اسے نام نہاد اغوا کیا گیا تھا اسی گاڑی میں بیٹھ کر وہ اس لوکیشن کی طرف بڑھنے لگا جو اسے ٹیکسٹ کے ذریعے موصول ہوئی تھی۔ راستے میں اسے جزیل کی کال آئی۔

"تم کام خراب کر دو گے ۔ وہیں رکو۔ میں چلا جاتا ہوں تمہاری جگہ۔ " جزیل نے بے چینی سے کہا۔ 

"نہیں۔ میں اسے خطرے میں دیکھ کر ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر نہیں بیٹھ سکتا۔ " اس کے لہجے میں کچھ تھا جو جزیل کو چونکا گیا تھا۔ وہ خاموش رہ گیا۔ دل میں ایک بے نام سی خلش جاگی۔ 

"تم ثانی سے کہو اس کا فون ٹریس کرے۔ اگر عمر نے اس کی گاڑی مس کر دی تو اسے ڈھونڈنا مشکل ہو جائے گا۔ " اس نے کہہ کر کال کاٹ دی تھی۔ جزیل ثانی کے ہیکنگ روم میں آیا اور اسے دعا کو ٹریس کرنے کا کہا۔ 

"کیوں کیا ہوا؟"

"اسے اغوا کر لیا گیا ہے۔ " اس نے پریشانی سے بتایا۔ ثانی تیزی سے سکرین کی طرف متوجہ ہوئی۔ اچانک وہ رکی اور ایش کو دیکھا۔ وہ اس کا حکم سمجھ گیا اور سر کس جنبش دیتا وہاں سے غائب ہو گیا۔ 

دوسری جانب ڈرائیور نے گاڑی ایک مکان کے اندر لا کر روکی تو ایک ہٹا کٹا شخص گاڑی کا پچھلا دروازہ کھول کر دعا کو اٹھاتا اندر کی طرف بڑھا۔ اس نے دعا کو ایک کمرے میں بستر پر لٹایا اور باہر آ کر کسی کو کال کی۔ 

"تمہارا شکار پہنچ گیا ہے۔ آ جاؤ۔ " وہ کال کاٹ کر پلٹا تھا کہ حیرت سے اس کا منہ کھل گیا۔ دروازہ بند تھا جبکہ اس نے کھلا چھوڑا تھا۔ وہ تیزی سے آگے بڑھا اور اسے کھولنے کی کوشش کی لیکن وہ نہ کھول سکا۔ اب جب تک حیان وہاں نہ پہنچتا دعا محفوظ تھی۔ اور یہ کام ایش نے کیا تھا۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حیان جب تک اس مکان میں پہنچا دعا کو قتل کرنے والا حملہ آور بھی وہاں پہنچ چکا تھا اور وہ دونوں مل کر دروازہ کھولنے کی کوشش کر رہے تھے لیکن دروازہ تو جیسے پتھر کا ہو کر جم گیا تھا ۔ حیان اور دعا کی نگرانی کرنے والا گارڈ مکان میں ایک ساتھ دیوار پھلانگ کر داخل ہوئے اور دروازہ توڑنے میں مصروف ان دونوں پر بلائے ناگہانی کی طرح جھپٹ پڑے۔ ایک منٹ کے اندر اندر وہ کراہتے زمین پر لوٹ پوٹ ہو رہے تھے۔ جزیل بھی اپنے کچھ آدمیوں کے ساتھ پہنچ گیا تھا۔ اس کے اشارے پر وہ ان دونوں کو اٹھا کر لے گئے جبکہ حیان کمرے کی جانب بڑھا۔ جب اس نے دروازہ کھولا تو آسانی سے دروازہ کھلتا چلا گیا۔ وہ دروازہ دھکیل کر اندر داخل ہوا تو دعا کو بستر پر سکون سے لیٹے پایا ۔ تعجب سے اس کی بھنویں سکڑیں۔ اگر دعا بے ہوش تھی تو دروازہ کیسے بند تھا۔ اسے لگا تھا دعا نے عقل مندی سے کام لیتے دروازہ اندر سے بند کر لیا تھا لیکن شاید دروازہ خود ہی اتفاقاً بند ہو گیا تھا ۔ وہ آگے بڑھا اور یہ جان کر اطمینان کی سانس بھری کہ وہ ٹھیک تھی۔ اس نے دعا کو ہوش میں بعد میں لانے کا سوچا اور اسے بازوؤں میں بھرتا باہر آیا۔ جزیل کی نظر اس پر پڑی تو ایک پل کو وہ ساکت ہوا پھر اگلے ہی لمحے خود پر قابو پا گیا۔ 

"ٹھیک تو ہے نا یہ؟" قریب آنے پر جزیل نے اپنے لہجے کی بے قراری چھپا کر پوچھا۔ 

"ہاں ٹھیک ہے۔ بس بے ہوش ہے۔ تم ان لوگوں سے پتہ کرو انہیں بھیجنے والا کون ہے۔ مجھے لگتا ہے اس کی تائی ہی ہو گی " وہ دونوں ساتھ ساتھ چل رہے تھے۔ جزیل نے دوبارہ دعا کی طرف نہیں دیکھا تھا۔ 

"ٹھیک ہے۔ تم گھر مت چلے جانا۔ ابھی ہمارا پلان مکمل نہیں ہوا تھا۔ " وہ بولا تو حیان نے سر ہلایا اور دعا کو فرنٹ سیٹ پر بٹھایا۔  جزیل پلٹا تو نظر خود بخود ایک لمحے کیلیے اس لڑکی پر اٹھی جو اسے نجانے کیوں عزیز ہو گئی تھی لیکن وہ اس کیلیے اجنبی تھا۔ 

حیان نے گاڑی بابر ہاؤس سے کچھ دور روکی اور ڈیش بورڈ سے بوتل اٹھا کر اس کے چہرے پر پانی کا چھپاکا مارا۔ دعا ہڑبڑا کر آنکھیں کھول گئی ۔ اس کی نظر حیان پر پڑی تو وہ سوچنے لگی وہ اس کے سامنے کیسے تھا۔ ڈرائیور نے تو اسے بے ہوش کر دیا تھا۔ 

"آپ ٹھیک ہیں؟" حیان نے فکر مندی سے اسے دیکھا۔ اس پل وہ اسے بالکل شہزادہ لگا۔ وہی شہزادہ جو اس کیلیے فکر مند ہوتا تھا ۔ 

"ہاں۔" وہ نم ہوتی آنکھیں پھیر گئی۔ 

"آپ پر پھر قاتلانہ حملہ ہوا ہے۔ مجھے لگتا ہے یہ آبرو کا کام نہیں ۔ "

"تو پھر کس کا ہے؟" اس نے حیرت سے پوچھا۔ 

"فی الحال وثوق سے کچھ نہیں کہہ سکتا ۔ میں آپ کو گھر چھوڑ رہا ہوں۔ آپ ذرا احتیاط سے رہیے گا۔ رات کو بھی آنٹی منیبہ کے ساتھ سوئیے گا ۔ میں واپس آ کر آپ سے بات کرتا ہوں۔ تب تک اس بارے میں کسی سے بات مت کیجیے گا " اس نے کہتے گاڑی سٹارٹ کی۔ دعا اسے کچھ پل دیکھتی رہی۔ کیا وہ ہر لڑکی کی ایسے ہی فکر کرتا تھا ؟ اس سوچ کے آتے ہی دل نے احتجاج کیا۔ اسے ایسا نہیں کرنا چاہیے۔ اس نے حیان کیلیے اپنے دل میں بہت سٹرانگ پوزیسونیس محسوس کی۔ وہ اپنی کیفیت پر ایک پل کیلیے سن رہ گئی تھی۔ اچانک اسے حیان کے چہرے پر کچھ غیر معمولی محسوس ہوا۔ اس کے ہونٹوں کا ایک کنارہ سوجا ہوا تھا۔ جیسے وہاں کوئی چوٹ لگی ہو۔ 

"یہاں کیا ہوا؟" وہ ایک دم سے بول اٹھی۔ حیان نے چہرہ پھیرتے سوچا اب کیا بہانہ بنائے۔ 

"کچھ نہیں۔ چھوٹی سی چوٹ لگ گئی تھی۔ آپ جاؤ۔ گھر آ گیا ہے۔ " اس آخر میں لہجہ حکمیہ بنا لیا۔ دعا اس کیلیے اپنے دلی جذبات عیاں نہیں کر سکتی تھی ورنہ اسے اتنی آسانی سے کہ چھوڑتی۔ 

"شکریہ  " وہ کہہ کر گاڑی سے اتر گئی۔ وہ ایک بار پھر اس کی مدد کر کے اس پر ایک احسان چڑھا چکا تھا۔ وہ اسی بارے میں سوچتی اندر آئی تو تائی سرتاج اسے دیکھ کر حیرت سے بت بن گئیں۔ آج دعا کے ساتھ جو ہوا تھا وہ انہی کی کارستانی تھی۔ وہ ابدال صاحب کے منع کرنے کے باوجود بھی نہیں رکی تھیں اور اس پر وار کرنے سے باز نہیں آئی تھیں۔ انہیں دعا کو قتل کرنا تھا۔ ہر حال میں ۔ اپنی بیٹی کیلیے نہیں بلکہ اپنے جادو کیلیے۔ وہ جادو سیکھ رہی تھیں اور شیطانی طاقتیں حاصل کرنے کیلیے انہیں ایک کنواری لڑکی کا قتل کرنا تھا۔ ان کی نظر انتخاب دعا ٹھہری تھی ۔  جب انہوں نے ابدال صاحب کے منع کرنے کے باوجود اس پر حملہ کیا اور دعا نے ابدال صاحب کو بتا دیا تو وہ بہت غصے میں آ گئے تھے۔ اس سے پہلے کہ وہ سرتاج بیگم کو کچھ کہتے سرتاج کے جادوگر استاد نے انہیں اس بارے میں بھلا دیا۔ سرتاج کو یہ معاملہ خفیہ رکھنا تھا ورنہ وہ انہیں اعتماد میں لینے کا سوچتی اور کر بھی لیتی۔ ان کا مسلہ زیادہ نہیں تھا۔ مسلہ تو سارا دعا کا تھا جو ہر بار ان کے حملے سے بچ جاتی تھی۔ اور اسے بچانے والا کون تھا وہ ابھی تک نہیں جان پائی تھیں۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"میں بتاتا ہوں ۔ بتاتا ہوں۔ رکو۔" حملہ آور چیخا پھر بھی اسے مارنے والے نے ہاتھ نہیں روکا۔ کیونکہ اسے جزیل کا اشارہ نہیں ملا تھا۔ جزی جیبوں میں ہاتھ ڈالے سرد نگاہوں سے حملہ آور کو دیکھ رہا تھا۔ اس کے چیخنے چلانے کا اس پر کوئی اثر نہیں ہو رہا تھا۔ اس کے سیدھی لائن پہ آنے پر بھی وہ کچھ دیر یونہی کھڑا رہا پھر چند پل بعد جیب سے ہاتھ نکال کر آہد کو رکنے کا اشارہ کیا۔ وہ حملہ آور کو گھورتا پیچھے ہٹ کر کھڑا ہو گیا۔ 

"کیا نام ہے تمہارا؟" جزیل نے پوچھا۔ 

"فیصل۔" وہی نام جو کہانی میں حملہ آور کا تھا۔

"تمہیں کس نے بھیجا اور کیوں؟"

"میں نہیں جانتا وہ کون ہے لیکن وہ ایک عورت ہے۔ میں نے اس کا چہرہ نہیں دیکھا۔ " درد سے اس کا برا حال تھا لیکن وہ پھر بھی تیز تیز بول رہا تھا ۔ 

"اس نے تمہیں کیا کرنے کو کہا تھا؟" وہ سمجھ گیا تھا وہ دعا کی تائی ہی ہو سکتی تھی۔ 

"اس نے ..." وہ ایک پل کو رکا۔ "اس نے کہا تھا میں اس لڑکی کا گلہ کاٹ دوں۔ " وہ سر جھکاتے پھنسی پھنسی آواز میں بولا۔ جزیل جیسے مضبوط مرد کا دل بھی ایک بار خوف سے کانپا۔ اس کا دل کیا ابھی اس کا گلہ کاٹ کر رکھ دے۔ چند پیسوں کیلیے وہ ایک جیتی جاگتی لڑکی کو تکلیف دہ موت دینا چاہتا تھا۔ 

"کیوں؟" 

"پتہ نہیں۔ مجھے خود نہیں پتہ۔ اس نے کہا میں اسے گولی سے نہیں مار سکتا۔ اسے چاقو سے ہی قتل کرنا ہے۔ " وہ بولا تو  جزیل نے گہری سانس اندر کھینچی اور کامل کی طرف پلٹا۔

"اس کا گلہ کاٹ کر کسی ویرانے میں لاش غائب کر دو۔ " وہ کہہ کر دروازے کی طرف بڑھا اور کمرہ فیصل کی چیخوں سے گونج اٹھا۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"ہاں کچھ پتہ چلا؟" نصیر نے حیان کی طرف دیکھ کر اپنے ساتھ کھڑے آدمی سے پوچھا۔ حیان کرسی پر بندھا ایک طرف سر جھکائے بے ہوشی کی ایکٹنگ کر رہا تھا۔ اس کے چہرے پر زخم ہی زخم تھے۔ جسم کے باقی حصوں سے بھی چون نکل کر کپڑوں پر سوکھ چکا تھا۔ اور ظاہر تھا وہ نقلی خون تھا۔

"نہیں سر۔ میں نے ہر طرح سے تسلی کر لی ہے۔ اسے تو یہ بھی نہیں پتہ اس کے والدین کا قتل بھی ہوا ہے۔ " 

"اچھا۔ " نصیر نے حیرت سے کہا اور کمرے سے نکل کر ابدال صاحب کو کال ملائی۔ 

"سر کچھ مشکوک معلوم نہیں ہو سکا۔ اسے یہ بھی نہیں پتہ اس کے والدین کا قتل ہوا ہے ۔" اس نے بتایا تو ابدال صاحب کچھ پل کیلیے سوچ میں پڑ گئے۔ 

"اب اسے ٹھکانے لگانا ہے یا نہیں ؟"

"نہیں اسے کسی ہسپتال کے سامنے پھینک دو۔ فی الحال میں کسی کو قتل کرنے کا رسک نہیں لے سکتا۔ اگر وہ میرے لیے خطرہ نہیں ہے تو مجھے بھی قتل کرنے کا شوق نہیں ۔" انہوں نے کہہ کر کال کاٹ دی اور فون سائیڈ ٹیبل پر رکھتے ہوئے سرتاج بیگم کو دیکھا جو بالوں میں کنگھی پھیرتی کسی سوچ میں گم تھیں۔ جب انہیں کوئی فون آتا تو وہ ضرور ان کی طرف متوجہ ہو کر تجسس سے ان کی باتیں سنتی تھیں۔ 

"خیریت بیگم! کس خیال میں گم ہیں؟" انہوں نے پوچھا تو وہ چونکی۔ 

"نہیں۔ کسی خیال میں نہیں ہوں۔ " وہ کہہ کر اپنا موبائل اٹھاتیں تیزی سے باہر چلی گئیں۔ انہیں اپنے استاد سے مدد لینے کیلیے جلد از جلد ان سے ملنا تھا۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"واٹ؟" یحییٰ صاحب پریشانی سے اٹھ کھڑے ہوئے۔ ابدال صاحب انہیں بتا رہے تھے کہ کیسے کچھ لوگ حیان کو اغوا کر کے لے گئے اور اب ایک ہسپتال کے سامنے اسے زخمی کر کے پھینک گئے ہیں۔ 

"وہ ٹھیک تو ہے نا؟ " انہوں نے گھبراہٹ میں پوچھا۔ اتنے سالوں بعد بچھڑا بھتیجا ملا تھا۔ اور اس کی حفاظت بھی نہیں کر سکے تھے وہ۔ انہیں شدید ملال نے گھیر لیا تھا۔ 

"ہاں اسے ہسپتال میں ایڈمٹ کر لیا گیا ہے۔ خطرے سے باہر ہے لیکن زخمی ہے ۔ میں وہیں جا رہا ہوں " وہ بولے تو یحییٰ صاحب بھی ان کے ساتھ جانے کیلیے تیار ہو گئے۔ 

"آپ نے مجھے پہلے کیوں نہیں بتایا؟"

"تم کیا کر لیتے۔ میں اسے ڈھونڈنے کی کوشش کر رہا تھا۔ پولیس بھی حرکت میں آ گئی تھی۔ میرے اونچے لوگوں سے تعلقات ہیں۔ ان سے رابطہ کیا۔ لگتا ہے اسی ڈر سے اغوا کاروں نے اسے چھوڑ دیا۔ " 

"اللّٰہ کرے اسے زیادہ چوٹیں نہ آئی ہوں۔ " یحییٰ صاحب گاڑی میں بیٹھتے بولے۔ 

"آمین ۔" انہیں اس بات سے فرق تو نہیں پڑتا تھا لیکن منافقت بھی تو کرنی تھی۔ 

ازلان جو ان کی باتیں سن چکا تھا ماما کو بتانے دوڑا۔ اور جب وہ پریشانی سے منیبہ کو سب بتا رہا تھا کچن میں آتی دعا کو بھی وہ سب سنائی دے گیا تھا ۔ اسے محسوس ہوا زمین اس کے قدموں تلے سے نکل گئی ہے۔ حیان اگرچہ خطرے سے نکل آیا تھا لیکن اس کیلیے یہ بات کسی شاک سے کم نہیں تھی کہ وہ خطرے میں گیا تھا۔ کیا وہ اسے بچانے کیلیے خطرے میں گیا تھا ؟ کیا کہانی حقیقت میں دہرائی جائے گی۔ کیا وہ ایک دن اسے بچاتے ہوئے مر جائے گا۔ یہ خیالات اس کی ہستی ہلا دینے کیلیے کافی تھے۔ وہ خود پر ہزار حملے سہہ سکتی تھی لیکن اسے خطرے میں جاتا برداشت نہیں کر سکتی تھی۔ خوف سے اس کا سارا وجود کانپنے لگا۔ وہ خوف جو اسے خود پر حملہ ہوتے وقت محسوس ہونا چاہیے تھا حیان کیلیے محسوس ہو رہا تھا۔ حیان اس کیلیے خود سے بھی زیادہ اہم ہو چکا تھا۔ اس نے پلٹ کر اپنے کمرے میں جانا چاہا لیکن کانپتے وجود نے اسے ایسا نہیں کرنے دیا۔ وہ وہیں گرنے کے سے انداز میں بیٹھی ۔ ایک آنسو اس کی آنکھ سے ٹپکا اور گال پر بہتا چلا گیا۔ 

"دعا کیا ہوا ؟" اذلان نے کچن سے نکلتے ہوئے اسے دکھا تو بھاگ کر اس کے قریب آیا۔ منیبہ بھی اس کی بات سن کر وہیں آ گئی۔ اس وقت دعا کو ہوش نہیں تھا کہ اسے حیان کیلیے روتا دیکھ کر وہ کیا سوچیں گیں۔ 

"ماما لگتا ہے اس کے پاؤں پر چوٹ لگی ہے۔ " ازلان نے تشویش سے کہا۔ 

"کچھ نہیں ہوا مجھے۔ " اس نے خود کو رونے سے باز رکھنا چاہا لیکن آنسو ابھی باقی تھے۔ اگر حیان جان جاتا کہ کوئی اس کیلیے رو رہا تھا تو وہ خود کو دنیا کا خوش قسمت شخص سمجھتا۔ 

"اچھا یہاں سے اٹھو۔ " منیبہ کو لگا کوئی سخت چوٹ نہیں لگی لیکن وہ گر گئی تھی۔ 

"کیا ہوا ؟" شاہ میر بھی وہیں آ گیا۔ دعا کو اپنے آنسوؤں پر غصہ آنے لگا۔ 

"دعا! میرا بچہ کیا ہوا؟" شاہ میر سے کبھی بھی اس کے آنسو نہیں دیکھے گئے تھے۔ وہ جب بھی روتی وہ اسے چپ کروانے کو بے قرار ہو جاتا۔ اب بھی وہ تیزی سے اس کے قریب بیٹھتا اسے اپنے بازوؤں میں لے گیا۔ دعا نے خود کو کوسا۔ وہ کیوں سب کو پریشان کر رہی تھی۔ حیان خطرے سے باہر تھا۔ اسے خود کو سنبھالنا تھا ورنہ اس کا راز فاش ہو جاتا۔ 

"کچھ نہیں بھائی۔ بس گر گئی تھی۔ " اس نے نم آواز میں کہا۔ 

"کہاں لگی ہے؟"

"گھٹنے پر۔ لیکن اب ٹھیک ہو گئی ہے۔ " اس نے بچوں کی طرح بتایا ۔ شاہ میر نے احتیاط سے اسے اٹھا لیا اور اس کے کمرے کی طرف بڑھا۔ 

"دھیان سے چلا کرو نا۔ پتہ بھی ہے پلین ٹائلز پر پاؤں سلپ ہو جاتا ہے۔ " وہ اسے محبت اور فکر سے بھرپور لہجے میں ڈانٹ رہا تھا۔ ازلان بھی ان کے ساتھ کمرے میں آیا ۔ 

"کس گھٹنے پر لگی ہے آپی؟" شاہ میر نے اسے بیڈ پر بٹھایا تو ازلان نے پوچھا۔ تبھی ازبان بھی کمرے میں داخل ہوا۔ اسے بھی دعا کے گرنے کی خبر منیبہ سے مل گئی تھی۔ 

"آ... یہاں۔" دعا نے دائیں گھٹنے پر ہاتھ رکھا۔ وہ جھوٹ بولتے ہوئے نروس ہوئی تھی۔ 

"میں دبا دوں۔ درد ٹھیک ہو جائے گا۔ " ازلان نے معصومیت سے کہا۔ 

"نہیں نہیں۔ اب ٹھیک ہے۔ " وہ دل ہی دل میں۔ شرمندہ ہوتی مسکرائی۔

"شکر۔ مجھے تو لگا تھا پتہ نہیں کتنی چوٹ آ گئی ہے۔ " ازبان نے گہری سانس بھری۔ دعا نے اپنے تینوں بھائیوں کو دیکھا جو اس کیلیے فکر مند سے بہت پیارے لگ رہے تھے۔ وہ اس کی طاقت تھے۔ ان کے ہوتے ہوئے کس کی جرات ہوتی اسے مارنے کی۔ اس نے فیصلہ کر لیا کچھ بھی ہو جائے اب حیان سے مدد نہیں لے گی۔ اس کیلیے اس کے بھائی کافی تھے 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"وہ دعا کی تائی ہی ہیں " ایش نے ثانی گل کے سامنے آتے کہا۔ جزیل نے اسے دعا کی تائی کا فون ہیک کرنے کا کہا تھا۔ ثانی کے پاس ایش تھا اسے کیا ضرورت تھی ہر کام خود کرنے کی ۔ ایش نے تین گھنٹے سرتاج بیگم کی نگرانی کی تب جا کر اسے اصل بات معلوم ہوئی۔ 

"وہ کیوں ایسا کر رہی ہیں؟" ثانی نے تعجب سے پوچھا۔ 

"وہ شیطانی طاقتیں حاصل کرنا چاہتی ہے اور ایک جادوگر کی شاگرد ہیں۔ اس بڈھے نے اسے کسی لڑکی کا قتل کرنے کا کہا ہے۔ " ایش نے منہ بنا کر کہا۔ 

"ہاؤ کرول۔ اپنی خواہش کیلیے کسی کی جان لے رہی ہیں وہ ۔ اس کا دل نہیں کانپتا ایسا کر کے؟"

"بس ضمیر مر جائے تو یہی ہوتا ہے۔ کچھ ہوش نہیں ہوتا کیا صحیح ہے اور کیا غلط۔" ایش نے ناک چڑھائی۔ 

"اچھا یہ جادو ایسے ہی بری حرکتیں کر کے آتا ہے؟" ثانی نے پرسوچ لہجے میں پوچھا۔ 

"پتہ نہیں ۔ میں نے کبھی اس قسم کا جادو نہیں کیا " وہ کندھے اچکا کر بولا

"تم کس قسم کا جادو کرتے ہو؟" ثانی نے ہتھیلی پر ٹھوڑی ٹکائی۔ 

"جو مجھے پیدائشی ملا ہوا ہے۔ میرا تعلق میڈیم فیملی سے ہے جن کے پاس قدرتی ہی پاورز ہوتی ہیں ۔ وہ انسان ہی ہوتے ہیں لیکن ان کے پاس جنوں جیسی طاقتیں بھی ہوتی ہیں۔ " ایش نے سادگی سے بتایا۔ ثانی نے متاثر ہونے والے انداز میں سر ہلایا۔ 

"جنوں کے پاس کیسی طاقتیں ہوتی ہیں؟" اس نے پوچھا۔ 

"جنوں کے پاس ماس کو انرجی میں کنورٹ کر کے دوسری جگہ لے جانے کی طاقت ہوتی ہے۔ کچھ انسانوں کے پاس جنوں سے بھی زیادہ طاقتیں ہوتی ہیں۔ " وہ تفصیل سے بتانے لگا۔ ثانی کو حضرت سلیمان علیہ السلام کے دور کی یاد آئی۔اس کا دل کیا ایش سے کہے وہ ماضی میں بہت پیچھے جانا چاہتی ہے لیکن اس کیلیے بھی اضافی انرجی کی ضرورت تھی۔ وہ اپنی حسرت دل میں دباتی گہری سانس بھر کر رہ گئی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حیان اگلے دن ڈسچارج ہو کر گھر آ چکا تھا۔ اس کے ایک گھٹنے پر پٹی بندھی تھی اور چہرے پر زخم ہلکے تھے۔ ابدال بھی یحییٰ صاحب کی طرح پریشان نظر آنے کی کوشش کر رہا تھا۔ ابدال نے یحیٰی کو بتا دیا کہ اس کے دشمنوں میں سے کسی نے یہ حرکت کی ہے۔ سو انہوں نے حیان سے نہیں پوچھا۔ ابدال صاحب بھی یہی چاہتے تھے۔ البتہ انہوں نے خود حیان سے پوچھا تھا کہ ان لوگوں نے اسے کیا کہا تھا ۔ حیان نے معصومیت اور تعجب سے بتا دیا کہ وہ لوگ اس کے بابر ہاؤس واپس آنے کے بارے میں پوچھ رہے تھے۔ ابدال صاحب اب اس کی طرف سے پوری طرح مطمئن ہو گئے تھے۔ یحییٰ صاحب کی فیملی بہت محبت سے اس کی آؤ بھگت کر رہی تھی۔ صرف دعا تھی جو ابھی تک اس کی خیریت دریافت کرنے نہیں آئی تھی۔ اسے یہ خیال آیا تو اس کا منہ بنا۔ اس نے دعا کی اتنی مدد کی۔ کیا وہ اس کی خیریت پوچھنے بھی نہیں آ سکتی۔ اسے کیا پتہ دعا اسے زخمی دیکھنے سے گھبرا رہی تھی۔ وہ اس کی خیریت دریافت کرنا چاہتی تھی لیکن خود میں ہمت نہیں پا رہی تھی۔ 

حیان کو جزیل کی کال آئی تو وہ فون کان سے لگا گیا۔ 

"یہ اس کی تائی کا ہی کارنامہ ہے۔"

"کیوں کر رہی ہے وہ ایسا؟" 

"اسے شیطانی طاقتیں حاصل کرنی ہیں جس کیلیے اسے ایک لڑکی کا قتل کرنا ہے۔ " جواب ثانی کی طرف سے آیا تھا۔ وہ ان کی کال میں گھس چکی تھی۔ بغیر پوچھے ہی۔ 

"واٹ ؟ یہ کیا؟" حیان کو یقین نہ آیا۔ 

"ایسا ہوتا ہے۔ لوگ شیطان کو خوش کرنے کیلیے قتل وغیرہ کرتے ہیں۔ " ثانی نے اس کی معلومات میں اضافہ کیا۔ اسے سرتاج بیگم پر سخت غصہ آنے لگا۔ 

"اور جو تم نے دعا کی شادی کے متعلق پوچھا تھا نا..." ثانی کی بات پر حیان اور جزیل دونوں متوجہ ہوئے۔ 

"طلال نے اسے بلیک میل کیا تھا اس کی دوست کے ذریعے اسی لیے وہ اس سے منگنی پر راضی ہو گئی اور بعد میں اسے پتہ چلا آبرو طلال کو پسند کرتی ہے تو آبرو کو طلال جیسے شخص سے بچانے کیلیے اسے یہ منگنی قائم رکھنی پڑی۔ اب وہ طلال سے پیچھا چھڑانے کی کوشش کر رہی ہے۔ " وہ دونوں کچھ پل کیلیے دم بخود رہ گئے تھے۔ وہ لڑکی جو بظاہر نازک نظر آتی تھی ایک ساتھ کئی محاظوں پر لڑ رہی تھی۔ جزیل ثانی سے مزید تفصیل پوچھنے لگا تھا لیکن حیان مزید کچھ نہیں بول پایا تھا۔ ثانی نے تفصیل مکمل کی تو اس نے کال کاٹ دی ۔ اسی وقت دروازے پر دستک ہوئی۔ اسے لگا دروازے کے پار دعا ہے۔ اور وہی تھی۔ وہ اس کی دستک کیسے پہچان گیا تھا۔ وہ حیران ہوا۔ 

"آئیے جناب! مل گئی فرصت " اس نے خوشگوار لہجے میں طنز کیا۔ دعا اسے فکر مندی سے دیکھتی آگے بڑھی۔ 

"تم ٹھیک ہو؟" اس کی آنکھیں گلابی تھیں اور آواز نم۔ وہ غور سے اسے دیکھنے لگا۔ 

"میں تو ٹھیک ہوں۔ آپ کچھ ٹھیک نہیں لگ رہیں؟" اس کے لہجے سے درد کا شائبہ تک نہ تھا۔ دعا تھوڑی ریلیکس ہوئی۔ 

"ہاں وہ بس گر گئی تھی تو ذرا سی چوٹ لگ گئی۔ " اس نے وہی بہانہ اس کے سامنے دہرایا۔ وہ اپنا راز سب سے زیادہ جس شخص سے چھپانا چاہتی تھی وہ وہی تھا۔ 

"میں نے کہا تھا دھیان سے چلا کریں۔ " اس نے ملامتی نظروں سے دعا کو دیکھا۔ 

"تمہیں کہاں زخم آئے ہیں؟"

"زیادہ نہیں آئے۔ پریشان مت ہوں۔ " وہ ذرا سا مسکرایا۔ 

"گیٹ ویل سون۔" وہ بھی مسکرائی۔ کچھ پل وہ ایک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھتے رہے ۔ پھر دعا پلٹ گئی۔ اچانک اس کے زہن میں کچھ کلک ہوا۔ 

"سنیں!" حیان کو بھی اسی پل کچھ یاد آیا۔ وہ پلٹی اور آنکھیں چھوٹی کیے اسے گھورا۔ حیان کا دل دھڑکا۔ 

"مجھے پتہ چل گیا ہے آپ پر حملہ کروانے والا کون ہے۔" اس نے تیزی سے کہا۔ 

"ہمم۔ اس بارے میں بعد میں بات کرتے ہیں۔ پہلے تم مجھے ایک سوال کا جواب دو۔ " اس نے بازو سینے پہ باندھے۔ حیان کو پتہ چل گیا کٹہرے میں کھڑے ہونے کا وقت ہوا چاہتا ہے۔ 

"ماما نے بتایا تم تایا جان کے ساتھ ایک بجے گئے تھے اور وہاں تقریباً دو بجے تمہیں اغوا کیا گیا۔ " اس نے پوچھا۔ وہ ساکت سا اسے دیکھتا رہا ۔ 

"لیکن پھر تین بجے مجھے کیسے بچانے آئے؟" اس کے خوبصورت چہرے پر شک اور الجھن کی پرچھائیاں تھیں۔ حیان بس اس کے اس روپ کو دیکھتا رہ گیا۔ 

"کہیں تم کوئی ڈرامہ تو نہیں کر رہے؟" اس نے بھنویں اچکائیں۔ حیان نے پھر بھی جواب نہیں دیا اور اسے یک ٹک دیکھے گیا۔ 

"مطلب میرا شک ٹھیک ہے۔ " وہ اس کی خاموشی سے نتیجہ اخذ کرتی پلٹی کہ اس کی کلائی حیان کی گرفت میں آ گئی ۔ اس نے چہرہ پھیر کر حیان کو تیز نظروں سے گھورا۔ اس نے اس کی کلائی نہیں چھوڑی۔ دعا بھی چھڑوانا بھول گئی۔ وہ چمکتی نگاہوں سے اسے دیکھ رہا تھا۔ اس کا دل بہت تیزی سے دھڑک رہا تھا۔ وقت کچھ پل کیلیے رک گیا ۔ حیان اپنی کیفیت سے بے خبر تھا جبکہ دعا پوری طرح با خبر تھی۔ 

"کاش آپ عقل مند ہوتیں" اس نے دھیرے سے دعا کی کلائی چھوڑی۔ وہ ہوش میں آئی۔ 

"کیا مطلب ؟" دعا نے ناراضگی سے پوچھا۔ وہ اس کیلیے کتنا روئی تھی۔ کیا پتہ تھا وہ ڈرامہ کر رہا تھا ۔ فی الحال وہ اپنی بیوقوفی پر خود کو جی بھر کر کوسنا چاہتی تھی اسی لیے وہاں سے جا رہی تھی ۔ اس کی کلاس تو وہ بعد میں لیتی۔ 

"میں گیا دو بجے ہی تھا لیکن مجھے ہاسپٹل سے فون آ گیا تھا۔ ایک سرجری کرنی تھی۔ وہ کام ختم کر کے واپس آ رہا تھا جب میں نے آپ کی گاڑی کو کسی غلط راستے پر جاتا دیکھا۔ وہاں آپ کو بچانا پڑ گیا ۔ پھر جلدی جلدی تایا جان کے فارم ہاؤس گیا۔ ہم وہاں سے زمینیں دیکھنے نکلے تو وہ لوگ مجھے لینے آ گئے۔ اس وقت چار بجے تھے۔ اور کچھ پوچھنا ہے۔ " اس نے کچھ ایسے انداز میں کہا کہ دعا کو اس کی بات پر یقین کرنا ہی پڑا۔ اسے خود پر شرمندگی ہوئی۔ 

"آپ ایک غلط فہمی کی بنا پر مجھ پر کیسے شک کر سکتی ہیں؟" وہ نہایت سنجیدہ لگ رہا تھا۔ دعا سرخ چہرے کے ساتھ پلٹ گئی۔ اس کے جاتے ہی حیان نے گہری سانس لی پھر مسکرا دیا۔ وہ خوبصورت ہونے کے ساتھ ساتھ عقل مند بھی تھی۔ بار بار اس کے راستے کی رکاوٹ بن رہی تھی۔ کاش وہ جزیل کی بات مان لیتا لیکن دعا کو خطرے میں دیکھ کر اس کے بس میں ہی نہیں رہا تھا سکون سے اپنا پلان جاری رکھتا۔  

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


Post a Comment

0 Comments