Header Ads Widget

Chragh e drakhshan Epi 1 - by dua fatima

Chragh e Drakhshan

by dua fatima

باب اول : ہمسفر

Chragh e Drakhshan Part 2

Episode 1

(فلیش بیک)

راول جھیل کے کنارے واقع گیسٹ ہاؤس کے کئی کمرے تاریک ہو چکے تھے۔ لیکن کچھ لوگوں کی آنکھوں سے نیند کوسوں دور تھی۔ اجالا بھی ان میں سے ایک تھی۔ وہ کچھ دیر اپنے کمرے میں سونے کی کوشش کرتی رہی پھر اٹھ کر باہر آ گئی۔ اسے آبرو باہر دکھائی دی تو اس نے دعا کے پاس جانے کا سوچا۔ وہ جب دعا کے کمرے کے سامنے آئی تو اسے کچھ عجیب سا محسوس ہوا۔ اس نے ہینڈل پر ہاتھ رکھ کر دروازہ کھولنا چاہا لیکن لاک لگا ہوا تھا ۔ وہ کچھ پل تذبذب میں کھڑی رہی پھر جانے کو مڑی۔ تبھی اسے ہلکی سی چیخ سنائی دی۔ دعا ساؤنڈ پروف کمرے سے نکل کر بالکونی میں گری تھی۔ اس نے ایک جھٹکے سے پلٹ کر دروازے کی طرف دیکھا اور کھڑکی کی طرف بڑھی۔ کھڑکی کے سامنے سے ہلکا سا پردہ ہٹا ہوا تھا ۔ وہاں سے بالکونی کا منظر دیکھا جا سکتا تھا ۔ اسے ایک دیو ہیکل شخص کی پشت نظر آئی جس کے ہاتھ میں چاقو تھا ۔ اور سیڑھیوں کے کنارے پر کھڑی دعا دہشت زدہ سی اسے دیکھ رہی تھی۔ اجالا کی آنکھیں حیرت اور خوف سے پھٹیں۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ کرتی دعا پانی میں گر گئی تھی۔ اس کے لبوں سے بے ساختہ ایک چیخ نکلی۔ حملہ آور نے پیچھے سے کسی کی چیخ سنی تو وہیں سے فرار ہو گیا جبکہ اجالا کسی کو مدد کیلیے بلانے کو بھاگی۔ ساتھ وہ اونچا اونچا مدد کیلیے بھی پکار رہی تھی لیکن سب کمرے ساؤنڈ پروف تھے۔ ابھی وہ اس راہدری سے نہیں نکلی تھی کہ اس کے سامنے آبرو آ گئی۔ 

"آبرو.... وہ ... دعا پانی میں گر گئی ہے۔ کوئی اسے مارنے والا تھا۔ اسے بچاؤ۔" اجالا متوحش سی بولی لیکن آبرو کا انداز وہی سرد سا رہا۔ اجالا اس پر دھیان دیے بنا ایک کمرے کی طرف بڑھی تاکہ دروازہ کھٹکھٹا کر کسی کو مدد کیلیے بلا سکے لیکن آبرو نے اسے روک دیا۔ اجالا نے ناسمجھی سے اسے دیکھا۔ 

"تمہاری تو وہ دشمن تھی۔ اس کیلیے اتنا پریشان کیوں ہو رہی ہو؟" آبرو کے عجیب سے انداز پر اجالا ٹھٹکی۔

"کیسی بات کر رہی ہو تم آبرو۔ وہ ایک انسان ہے اور مر رہی ہے۔ تم تو اس کی کزن ہو نا۔ اتنے سکون سے ابھی تک یہاں کیوں کھڑی ہو؟" اجالا حیرت سے بولی۔ 

"میرا اب اس سے کوئی تعلق نہیں سوائے دشمنی کے۔ اور میں دشمنوں کی مدد نہیں کرتی " وہ بے حسی سے بولی۔ 

"نہیں کرنی تو نہ کرو۔ مجھے تو کرنے دو۔ " اجالا اسے ملامتی نظروں سے دیکھتی اس کے ہاتھ جھٹک کر دروازے کی طرف بڑھی ۔ آبرو نے دوبارہ اسے پکڑ لیا۔ اجالا کے زہن میں جھماکا سا ہوا۔ اس نے غور سے آبرو کا چہرہ دیکھا۔ 

"وہ حملہ آور تم نے بھیجا نا؟" وہ بے یقینی سے آبرو کو دیکھ رہی تھی۔ آبرو نے نظریں چرائیں۔ 

"کونسا حملہ آور..." وہ کمزور لہجے میں بول رہی تھی جب اجالا نے دھکا دے کر اسے پرے ہٹایا۔ وہ زمین پر جا گری۔ اجالا چند قدم آگے بڑھ کر دروازہ کھٹکھٹانے لگی تھی۔ 

(فلیش بیک اینڈ)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دھوپ کی تمازت سے شہر کی فضا گرم تھی۔ بڑی بڑی بلڈنگز کے بیچ و بیچ راستہ بناتی سڑکیں گاڑیوں سے بھری ہوئی تھیں۔ راولپنڈی کوہاٹ روڈ پر دوڑتی ایک جیپ کے آگے پیچھے کئی گاڑیوں کی قطاریں تھیں۔ جیب میں ایم این اے چوہدری کبیر اور اس کا بیٹا چوہدری جعفر سوار تھے۔ ان کے آگے پیچھے بھاگتی گاڑیاں ان کے باڈی گارڈز کی تھیں۔

اگلے منظر میں وہ گاڑیاں ایک کانفرنس ہال کے سامنے رکی تھیں۔ آن کی آن میں جیپ کے سوا تمام گاڑیوں کے دروازے کھلے اور مستعد گارڈز باہر نکل کر جیپ کے ارد گرد پھیل گئے۔ وہاں میڈیا اور کئی سیاسی لوگ موجود تھے۔ استقبال کرنے والوں میں پارٹی کے دو اہم لیڈر بھی تھے۔ جیسے ہی ملازموں نے جیپ کے دروازے کھولے وہ دونوں اپنے آدمیوں کے ساتھ جیپ کے قریب آ گئے۔ کبیر اور جعفر مغرور انداز میں گاڑی سے باہر نکلے۔ پارٹی رہنماؤں نے گرمجوشی سے ان کا حال احوال پوچھا۔ اس دوران درجنوں کیمرے ان کی تصاویر لے چکے تھے۔ رسمیہ کلمات ادا کرنے کے بعد وہ کانفرنس ہال کے داخلی دروازے کی طرف بڑھے۔ صحافی اور کیمرہ مینز بھی ان کے پیچھے لپکے۔ کانفرنس ہال میں بھی بہت رش تھا۔ اہم سیاسی لوگوں کی آمد سے سب میں ہل چل مچ گئی لیکن کوئی تھا جو سکون سے ایک کرسی پر بیٹھا ایک ہاتھ میں پین گھماتے دوسرے ہاتھ میں فون پکڑے سکرین سویپ کر رہا تھا۔ وہ اٹھائیس سال کا لگتا تھا۔ جینز اور وائٹ شرٹ پر بلیو جیکٹ پہنے، شہد رنگ آنکھوں پر بڑے سے فریم کا چشمہ لگائے اور گلے میں آئی ڈی کارڈ پہنے وہ یہاں موجود لوگوں سے الگ لگ رہا تھا۔ اس کا رنگ سانولا تھا لیکن چہرے کے نقوش نظر نہیں ہٹانے دیتے تھے ۔ بھورے مائل سیاہ بال ہلکا سا خم لیے پیشانی پر گرے ہوئے تھے۔ گھنی داڑھی اور ہلکی مونچھی اسے مزید دلکش بنا رہی تھیں۔ اس نے ایک نظر جعفر اور کبیر پر ڈالی پھر چہرہ فون پر جھکا دیا سو اس کے ارد گرد موجود لوگ استقبال کیلیے کھڑے ہو چکے تھے۔ کبیر اور جعفر باقی دو لیڈرز کے ساتھ کروفر سے چلتے، کیمروں کے فلیشز اور لوگوں سے بے نیاز سٹیج کی جانب بڑھ رہے تھے جہاں ایک لمبی سی میز کے پیچھے چار کرسیاں پڑی تھیں۔ اور ان کرسیوں کے سامنے میز پر مائک رکھے ہوئے تھے۔ جعفر اور کبیر درمیان والی دو کرسیوں پر بیٹھ گئے۔ باقی دو کرسیوں پر پارٹی کے رہنما بیٹھے تھے۔ ان کے خاص سیکورٹی گارڈز اور سیکرٹری ان کے پیچھے کھڑے ہوگئے تھے۔ ان کی نظریں روبوٹس کی طرح ادھر ادھر دیکھ رہیں تھیں۔ سٹیج کے سامنے ہال میں کھڑے صحافی بھی کرسیوں پر بیٹھ گئے تھے۔ ان کے پیچھے کیمرہ مینز کی ایک قطار لگ چکی تھی۔ شہد رنگ آنکھوں والے نے اب سر اٹھا کر سامنے موجود سیاسی لیڈرز کو دیکھا تھا۔ اس کے چوڑے کندھے اسے کوئی فائٹر یا باکسر دکھا رہے تھے لیکن فی الحال وہ ایک صحافی تھا۔ اس کی سرد نگاہیں جعفر کے چہرے سے ہوتی کبیر کے چہرے پر آ رکی تھیں۔ 

کانفرنس شروع ہوئی تو پارٹی رہنما عزیز ملک نے اعلان کیا کہ چوہدری کبیر ان کی پارٹی میں شامل ہو چکے ہیں۔ اور دوسری خبر یہ تھی کہ چوہدری جعفر بھی اپنے باپ کی طرح سیاست جوائن کر کے ملک و قوم کی خدمت کا فریضہ سر انجام دینے کا فیصلہ کر چکا ہے۔ اعلان کے بعد صحافی باری باری سیاستدانوں سے سوال کرنے لگے اور وہ مسکرا مسکرا کر سیاسی جوابات دینے لگے۔ کانفرنس کا وقت ختم ہونے والا تھا لیکن ابھی بھی بہت سے صحافی اپنے سوالات کے ساتھ منتظر تھے جب وہ ہاتھ اٹھاتا آٹھ کھڑا ہوا۔ سارے سیاستدان اس کی طرف متوجہ ہو گئے۔ 

"سر پچھلے دنوں ابدال بابر کے ساتھ آپ کے تعلقات دیکھنے کو ملے ہیں۔ آپ نے ان کے ساتھ کاروباری تعلقات قائم کیے ہیں اور سیاسی طور پر بھی ان کی حمایت کی ہے۔ " اس کی بھاری آواز اور لہجہ خوبصورت تھا۔ جعفر اور کبیر سر آہستہ آہستہ اثبات میں ہلا رہے تھے۔ 

"لیکن میری اطلاع کے مطابق ایک زمانے میں آپ لوگوں کے درمیان دشمنی تھی۔ " اس کی بات پر جعفر اور کبیر بری طرح چونکے تھے۔  صحافیوں نے گردنیں موڑ کر اس کی طرف دیکھا تھا لیکن وہ پر اعتماد انداز میں سامنے دیکھ رہا تھا۔ 

"کوئی خاندانی مسلہ تھا آپ کا شاید۔ ایک دو قتل بھی ہوا تھا۔ کیا میں یہ پوچھنے کی جرات کر سکتا ہوں کہ وہ دشمنی دوستی میں کیسے بدلی؟" اس کا سوال اتنا تلخ تھا کہ جعفر اور کبیر کو اپنے اعصاب چٹختے محسوس ہوئے۔ یہ بات تو بہت پرانی تھی۔ شاید بیس سال پرانی۔ وہ کل کا لڑکا نجانے یہ بات کہاں سے نکال لایا تھا۔ اگر ان کے بس میں ہوتا تو اس لڑکے کو شوٹ کرنے میں ایک لمحہ نہ لگاتے لیکن مجبوری یہ تھی کہ سارا میڈیا وہاں موجود تھا اور انہیں شائستگی کا دامن نہیں چھوڑنا تھا۔ جعفر نے باپ کی طرف دیکھ کر جواب دینے کی اجازت مانگی اور سپیکر کی طرف جھکا۔

"سوال تو خاصا ذاتی ہے لیکن خیر۔ آج کل کے صحافیوں کو ذاتی اور پرانی باتیں سامنے لانے کا کچھ زیادہ ہی شوق ہے۔ کیا کیا جا سکتا ہے۔"  اس نے طنزیہ لہجے میں کہا تو وہ اپنی شہد رنگ نظریں پھیرتا استہزاء سے مسکرایا تھا۔ اس کا انداز کبیر کو بہت ناگوار لگا تھا۔ بھلا کب کسی نے ان کے سامنے ایسا رویہ اپنایا تھا۔ صحافی سخت سوال بھی کرتے تھے لیکن ایٹیٹوڈ نہیں دکھاتے تھے ۔ وہ ملتجانہ لہجے میں سوال کرتے تھے۔ 

"بہر حال میں تمہارے سوال کا جواب دینا چاہوں گا۔ دیکھیں دشمنیاں کہاں نہیں ہوتیں۔ اور دشمنی کے بعد صلح بھی اکثر ہو جاتی ہے۔ ہم نے بھی دشمنی بھلا کر صرف اور صرف اپنے ملک اور قوم کیلیے ایک دوسرے کا ساتھ نبھانے کا فیصلہ کیا تاکہ مل کر زیادہ اچھے سے کام کر سکیں۔ تمہیں اس بات پر اعتراض ہے کیا؟ 

"مجھے کیا اعتراض ہو گا۔ میں شیطان تھوڑی ہوں۔ " اس نے کندھے اچکا کر معصومیت سے کہا تو ہال میں مردانہ قہقہے گونج اٹھے۔ 

"بظاہر تو تم کافی مہذب لگتے ہو لیکن باطن کا کسے پتہ۔ نیکسٹ کویسچن" کبیر نے میٹھے لہجے میں اس پر لفظوں کا وار کیا اور دوسرے صحافیوں کی جانب متوجہ ہو گیا 

"ویٹ ویٹ۔ مجھے ایک اور سوال بھی پوچھنا ہے؟" وہ ڈھٹائی سے بولا۔ جعفر اور کبیر اسے گھور کر رہ گئے کیونکہ وہ سوال شروع کر چکا تھا 

"میں نے سنا ہے اس دشمنی میں آپ کی بیٹی کی جان بھی گئی تھی۔ لیکن آپ نے ان کیلیے انصاف کا دروازہ نہیں کھٹکھٹایا۔ حیرت انگیز طور پر یہ کیس ابتدائی مراحل میں ہی بند کر دیا گیا۔ حالانکہ آپ کے پاس اتنی طاقت تھی کہ آپ قاتل کے باپ تک کو کٹہرے میں لا سکتے تھے۔" وہ کبیر کی آنکھوں میں دیکھتا بے تاثر لہجے میں کہہ رہا تھا۔ کبیر کو قاتل کے باپ کا سن کر جھٹکا لگا تھا۔ سب صحافی اس کی معلومات پر حیران تھے اور اس کی جرات پر ششدر ۔ وہ ایسے پوائنٹ اٹھا رہا تھا کہ اگر کسی کے زہن میں یہ پوائنٹس آ بھی جاتے تو وہ پوچھنے کی ہمت نہ کر سکتا۔ کبیر اور جعفر اس کے اس سوال پر گڑبڑائے تھے لیکن جلد ہی سنبھل گئے۔ 

"اس مقدمے کو جرگے میں اٹھایا گیا تھا اور قاتل کو سزا دے دی گئی تھی۔" جعفر نے ناک پھلا کر کہا تھا۔ 

"اوہ تو پھر اس جرگے کا ریکارڈ بھی ہو گا۔ لیکن میری نظر سے ایسا کوئی ریکارڈ نہیں گزرا جس میں پلوشہ کبیر کے قاتل کو سزا دی گئی ہو۔ " وہ منہ پر انہیں جھوٹا ثابت کر رہا تھا۔ 

"اس ریکارڈ کو ہم نے خود ہی خفیہ رکھا ہے اس لیے وہ تمہاری نظروں سے نہیں گزر سکا۔ ہم خاندانی اور سیاسی لوگ ہیں۔ ہم عام لوگوں کی طرح اپنے خاندانی پس منظر کو سب کے سامنے واضح نہیں کر سکتے اور صحافیوں سے میری یہی درخواست ہے کہ اس موضوع کو اچھالا مت جائے۔ نیکسٹ " کبیر نے برہم لہجے میں کہا تھا۔ وہ ذرا بھی متاثر نہ ہوا۔ 

"آں ..... ایک اور سوال پلیز۔ " وہ دلکشی سے مسکرایا۔ اس کی مسکراہٹ جعفر اور کبیر کو زہر سے بھی بری لگی تھی۔

"ابدال بابر پر کرپشن کا کیس چل رہا ہے۔ اور ان کے خلاف اب تک کافی ثبوت کورٹ میں پیش کیے جا چکے ہیں۔ کیا آپ کو لگتا ہے کہ ایک کرپٹ انسان کے ساتھ مل کر آپ ملک اور قوم کی خدمت کر سکتے ہیں؟" اس کو سوال طنزیہ تھا۔ جعفر نے گہری سانس لی۔ اب نہیں بچے گا یہ لڑکا۔ وہاں موجود تمام لوگ یہی سوچ رہے تھے۔ 

"ملزم پر جب تک الزام ثابت نہ ہو وہ مجرم نہیں ہوتا۔ اور مجھے یقین ہے کہ ابدال بابر کرپٹ نہیں ہے ...." شہد رنگ آنکھوں والے نے تیزی سے جعفر کی بات کاٹی۔

"آپ کو کیسے یہ یقین ہے؟ حالانکہ آپ لوگوں کی کچھ عرصہ پہلے ہی دشمنی دوستی میں بدلی ہے؟ " اس کے سوال پر جعفر کچھ پل کیلیے چپ سا رہ گیا۔ کبیر نے جلدی سے بات سنبھالی

"ہم بے وقوف نہیں ہیں کسی پر بھی آنکھیں بند کر کے یقین کر لیں۔ " اس کے سیاسی جواب پر محظوظ ہوتے ہوئے سر ہلایا گیا۔ اس سے پہلے کہ کبیر نیکسٹ کویسچن کہتا وہ تیزی سے بول پڑا۔ 

"لاسٹ کویسچن۔ " ڈھٹائی کی انتہا تھی۔ اس نے ہاتھ میں پکڑی فائل کھول کر چند کاغذات جعفر اور کبیر کے سامنے لہرائے۔ 

"یہ رپورٹ مجھے ایک مرحوم بلکہ مقتول پراسیکیوٹر کے قتل کی تحقیق کرنے کے دوران ملی ہے۔ پراسیکیوٹر کا نام اسماعیل تھا۔ شاید آپ جانتے ہو اسے یا یقیناً۔ کیونکہ وہ پراسیکیوٹر آپ کے خلاف کرپشن کے ثبوت ڈھونڈ رہا تھا۔ لیکن اسے مروا دیا گیا۔ اس رپورٹ میں ثبوت واضح طور پر آپ کے خلاف ہیں۔ اسے کوئی بھی دیکھ سکتا ہے۔ میرا سوال آپ سے یہ ہے کہ اسے کس نے مروایا؟" وہ بہت آسان سوال پوچھ رہا تھا جس کا جواب سب جان چکے تھے۔ جعفر اور کبیر کے چہرے تاریک پڑ گئے تھے۔ انہیں صحافیوں اور میڈیا کی فکر نہیں تھی لیکن مصیبت یہ تھی کہ وہ کانفرنس لائیو چل رہی تھی اور اعوام انہیں دیکھ رہی تھی۔ وہی اعوام جسے بیوقوف بنا کر وہ سیاستدان بنے تھے۔ 

"یہ سراسر ایک جھوٹی کہانی ہے ہمارے خلاف۔ ہمارا اسماعیل کے قتل سے کوئی لینا دینا نہیں " کبیر گھٹی گھٹی آواز میں چیخا تھا۔

"یہ تو آپ کا خیال ہے نا جناب۔ فی الحال سب آپ لوگوں کی قصوروار سمجھ رہے ہیں۔ لیکن فکر مت کریں۔ یہ کیس ایک نئے پراسیکیوٹر نے کورٹ میں دے دیا ہے۔ آپ کورٹ میں پیش ہو کر خود کو بے قصور ثابت کر سکتے ہیں۔ اپنا قیمتی وقت دینے کیلیے شکریہ۔" وہ سینے پر ہاتھ رکھتے مسکرایا تھا۔ فائل ایک صحافی کو دیتے وہ سر کو خم دیتا مڑ کر ہال سے باہر نکل گیا۔ اچانک ہی کانفرنس ہال میں بھونچال آ گیا۔ کئی صحافی پرجوش انداز میں اسماعیل قتل کیس کے بارے میں سوالات اٹھانے لگے تھے۔ جعفر اور کبیر ہارے ہوئے جواریوں کی طرح ساکت سے بیٹھے رہ گئے تھے۔ لیکن ان کے چیلوں نے زمہ داری کا ثبوت دیتے صحافیوں کے طوفان سے انہیں بمشکل نکالا تھا۔ ہر چینل پر اس کانفرنس پر بریکنگ نیوز اور تبصرے شروع ہو چکے تھے۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


وہ سفید رنگ کے امتزاج سے سجے آرام دہ اور جدید طرز کے آفس میں ریوالونگ چئیر پر بیٹھا دھیرے دھیرے سے جھول رہا تھا ۔ اس کی بے تاثر آنکھیں سامنے لگی سکرین کی ایل سی ڈی پر تھیں جس پر ابھی ابھی ہونے والی پریس کانفرنس کے مناظر دوبارہ بریکنگ نیوز کی صورت دکھائے جا رہے تھے۔ وہ گرے ڈریس پینٹ پر شرٹ اور بغیر بازوؤں والی واسکٹ میں ملبوس، ٹانگ پر ٹانگ رکھے، ایک کہنی کرسی کی ہتھی پر جمائے ہوئے، ہاتھ کی انگلیوں میں برینڈڈ سیگریٹ کو گھما رہا تھا ۔ سیاہ بال جیل سے سجائے گئے تھے۔ ایک کلائی میں مہنگی گھڑی تھی۔  وہ ان مہنگی اشیا کی وجہ سے ہی نہیں اپنی وجاہت کی وجہ سے بھی ایک غیر معمولی شخص دکھائی دے رہا تھا ۔ اس کے چہرے پر فرنچ بیرڈ اسے رعب دار دکھاتی تھی۔ سنہری رنگت اور گہرے نقوش کے ساتھ وہ تیس سے اوپر کا لگتا تھا ۔ بریکنگ نیوز کے بعد وقفہ آیا تو اس نے سلگتی سیگریٹ کا ایک کش لیا اور دھواں فضا میں خارج کرتا سیدھے ہوتے ہوئے شیشے کے ٹیبل پر پڑا سمارٹ فون اٹھایا۔ تبھی کوئی دروازہ ناک کر کے اس کے آفس میں داخل ہوا۔ 

وہ ایک نوجوان لڑکی تھی جو سٹائلش سے لباس میں ملبوس تھی۔ وہ جانتا تھا آنے والی کون تھی۔ اس نے اس کے استقبال کیلیے ایک نگاہ بھی اس پر نہ ڈالی اور کسی کو ضروری میسج کرنے میں مصروف رہا۔ وہ لڑکی ایک کرسی کے پیچھے آ کر رک گئی اور یاسیت سے اسے دیکھنے لگی۔ اس کے ہاتھ میں ایک خاکی لفافہ بھی تھا۔ 

"بیٹھو۔ " اس نے فون بند کر کے میز پر رکھا۔ لڑکی نے گہری سانس کھینچی اور اس کے سامنے ایک کرسی پر بیٹھ گئی۔ لفافہ اس نے دھیرے سے اس شخص کی طرف سرکا دیا 

"میں نے تم سے کہا تھا اب یہاں مت آنا لیکن تمہیں سمجھ نہیں آئی۔ یہ میں خود بھی منگوا سکتا تھا " وہ ماتھے پر بل ڈالے اب اسے دیکھ رہا تھا ۔ لڑکی کی آنکھیں بھر آئیں۔

"میں کبھی نہیں سمجھوں گی تم جانتے ہو۔ تم نے جو کہا میں نے کیا۔ کیا تم میری ایک بات نہیں مان سکتے؟" لڑکی کے لہجے میں تڑپ تھی۔ 

"میں تمہاری بات ماننے اس دنیا میں نہیں آیا۔ مجھے اور بھی بہت سے کام ہیں۔ تم نے میرے لیے جو کیا اس کا معاوضہ لے چکی ہو۔ اب اور کیا چاہیے تمہیں ؟" وہ بے تاثر سا بول رہا تھا۔ سامنے بیٹھی لڑکی کی نم آنکھیں اس پر کوئی اثر نہیں کر رہی تھیں۔ 

"مجھے تم چاہیے ہو جزیل زکریا۔ "وہ دبی دبی چیخی۔ آنسو گالوں پر بہہ گئے۔ جزیل نے کوفت سے نگاہیں پھیریں۔ 

"میں اتنا بے مول نہیں ہوں کہ ہر کسی کو میسر آ جاؤں۔ میں ہر چیز میں کوالٹی کا خیال رکھتا ہوں ۔ پھر انسانوں کے معاملے میں میں کیسے لو لیول کی کوالٹی کو چوز کر سکتا ہوں ۔" وہ کندھے اچکا کر پوچھ رہا تھا ۔ حوریہ جانتی تھی وہ ٹھیک ہی کہہ رہا تھا ۔ 

"میں جانتی ہوں میں تمہارے قابل نہیں۔ باقاعدہ طوائف نہ سہی لیکن ہوں تو جسم فروش ہی۔ لیکن میرا دل بہت انمول ہے۔ اسے مت توڑو۔ یہ تمہارے لیے پاگل ہے۔ بس تمہیں چاہتا ہے۔ تم سے سچی محبت کرتا ہے۔ میری محبت کو قبول کر لو۔ میں تمہارے لیے خود کو بدل لوں گی۔ خود کو تمہارے میعار کے مطابق بنا لوں گی " وہ سسکتی التجائیں کر رہی تھی لیکن اس پتھر دل کا موم ہونا ناممکن تھا۔ وہ گہری سانس لیتا کرسی کی پشت سے ٹیک لگا گیا۔ 

"میرا معیار تمہاری پہنچ سے باہر ہے۔ سو اپنا اور میرا وقت ضائع مت کرو۔ "اس کی سرد آواز پر وہ تھک کر سر جھکا گئی ۔ وہ کیوں اتنا پتھر دل تھا۔ کیوں اسے قبول نہیں کر لیتا تھا ۔ کیا کمی تھی اس میں۔ اس کا صرف یہ گناہ تھا کہ وہ اس کے دشمن کی گرل فرینڈ تھی۔ لیکن اس کی خاطر اس نے اپنے بوائے فرینڈ سے غداری تک کر دی تھی۔ 

"میں امید کرتا ہوں آئیندہ تم یہاں کا رخ نہیں کرو گی۔ اگر کیا تو خطیب تمہیں مارے نہ مارے میں تمہیں ضرور گولی مار دوں گا۔ " وہ اپنا لیپ ٹاپ کھولتے بڑے سکون سے کہتا اسے ساکت کر گیا۔ وہ غصے سے سانس کھینچتی اٹھ کھڑی ہوئی۔ 

"میری بدعا ہے تمہیں کسی سے محبت ہو اور تم اس کیلیے ایسے ہی تڑپو جیسے میں تڑپ رہی ہوں " وہ محبت کو بھاڑ میں بھیج کر اسے بدعا دیتی آفس سے نکل گئی۔ وہ ایسے ہی سکون سے لیپ ٹاپ کی طرف متوجہ رہا۔ 

"میں محبت کرنے کیلیے پیدا ہی نہیں کیا گیا۔ " زہن میں بے ساختہ سوچ ابھری تھی۔ وہ سر جھٹک گیا۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

"باسٹرڈز! یہ کریں گے ملک کی خدمت۔ " اس نے گلے سے رپورٹرز والا آئی ڈی کارڈ اتار کر ڈسٹ بن میں پھینکا۔ ساتھ غصے میں بڑبڑاتے چہرے سے گھنی داڑھی بھی اتار کر ایک شیلف پر رکھے بیگ میں رکھی  اور واش بیسن کا نل کھول کر منہ پر چھینٹے مارے ۔ شفاف پانی جب اس کے چہرے کو چھو کر نیچے گرا تو اس کا رنگ بدل چکا تھا۔ کچھ لمحوں میں اس کا سفید نکھرا نکھرا سا رنگ آئنے میں چمک رہا تھا۔ اب اس کی چہرے پر ہلکی داڑھی تھی۔ اس نے بیگ رومال نکالا اور چہرہ خشک کیا۔ پھر جیکٹ اتار کر بیگ میں رکھی۔ اور لمبا اوور کوٹ نکال کر پہنا۔ سر پر پی کیپ جمائی اور بیگ کو ہاتھ میں تھام کر ریسٹ روم سے نکل آیا۔ وہ کانفرنس ہال کا ہی ایک ریسٹ روم تھا ۔ وہ کانفرنس ہال سے نکلنے سے پہلے یہاں آیا تھا اور حلیہ بہت حد تک چینج کر کے میں گیٹ کی طرف بڑھا تھا۔ لوگ اسی کی تلاش میں ارد گرد نظریں دوڑا رہے تھے۔ وہ پی کیپ کو درست کرتا لوگوں کے درمیان سے گزرتا میں گیٹ سے باہر نکل آیا۔ وہاں جعفر اور کبیر کے آدمی ہر آتے جاتے کو غور سے دیکھ رہے تھے۔ انہیں یقیناً یہ حکم مل چکا تھا کہ وہ بچ کی نکلنے نہ پائے یا اگر نظر آ جائے تو اس کا پیچھا کیا جائے۔ بہت سے رپورٹرز اور کیمرہ مین بھی اس کی کھوج میں تھے۔ وہ سب پر ایک طائرانہ نگاہ دوڑاتا تیزی سے کانفرنس ہال کی بیرونی دیوار کے ساتھ ساتھ چلنے لگا۔ کچھ دیر بعد وہ خطرے سے نکل آیا تھا اور مگن سا فٹ پاتھ پر چل رہا تھا۔ اس سے پیچھے کچھ فاصلے پر دو آدمی جعفر اور کبیر کے آدمیوں کے ساتھ فائٹنگ کر رہے تھے ۔ وہ اس کے گارڈز تھے۔ کسی نے سے پہچان لیا تھا اور دشمن اس کے پیچھے لپکے تھے لیکن اس کے ہٹے کٹے گارڈز نے ان سب کو لمحوں میں دھول چٹا دی تھی۔ اس نے مار کٹائی کی آوازوں پر چہرہ پھیر کر پیچھے دیکھا پھر گہری سانس بھر کے آگے بڑھنے لگا۔ اسے وہ گارڈز ایک آنکھ نہیں بھاتے تھے جو اس پر زبردستی مسلط کیے گئے تھے۔ وہ اپنی حفاظت خود کر سکتا تھا لیکن جزیل کو اس پر یقین نہیں تھا۔ 

اس نے چلتے چلتے جیب سے فون نکالا اور آن کیا۔ جزیل کا میسج آیا ہوا تھا۔ 

"ویل ڈن۔" وہ پڑھ کر ذرا سا مسکرایا اور فون بند کر کے دوبارہ جیب میں رکھ لیا۔ اس پل ایک گاڑی اس کے قریب آ رکی۔ اس میں وہی دو گارڈز موجود تھے جو اس کے دشمنوں کو روک چکے تھے۔ 

"میں نہیں جا رہا تم لوگوں کے ساتھ۔ شکل گم کرو ۔"وہ چڑ کر کہے ٹیکسی روکنے لگا۔ 

"سر سمجھنے کی کوشش کریں۔ آپ ابھی خطرے سے نہیں نکلے۔" ایک گارڈ نے گاڑی سے نکل کر کہا اور اس کیلیے پچھلا دروازہ کھولا ۔ سر کے خم سے اسے اندر پیٹھنے کا اشارہ کیا۔ شہد رنگ آنکھوں والے نے نفی میں سر ہلایا اور ٹیکسی کی طرف بڑھ گیا۔ وہ ایسا ہی تھا ۔ اکھڑ مزاج اور من موجی۔ اسے جو کام کرنے کیلیے کہا جاتا وہ اسی کے الٹ کرتا۔ وہ ٹیکسی میں بیٹھا تو ٹیکسی چل پڑی۔ دونوں گارڈز گاڑی لیے اس کا پیچھا کرنے لگے۔ وہ کسی بھی صورت اسے اکیلا نہیں چھوڑ سکتے تھے۔ ورنہ جاب سے ہاتھ دھو بیٹھتے۔ 

"یہ جو پیچھے گاڑی آ رہی ہے اس سے پیچھا تو چھڑواؤ۔ پیمنٹ چاہے جتنی لے لو۔ " اس نے بیک ویو مرر میں انہیں اپنا پیچھا کرتے دیکھا تو ڈرائیور سے کہا۔ 

"ابھی لیں صاحب " ڈرائیور نے کہتے سپیڈ بڑھا دی تھی۔ کچھ دیر میں پچھلی گاڑی اس کی نظروں سے اوجھل ہو چکی تھی۔ اس نے کانوں میں ائیر پورڈز لگا کر سیٹ کی پشت سے سر ٹکاتے آنکھیں کچھ دیر کیلیے بند کر لیں۔ دھیمے سے گانے کی دھن اس کے کانوں میں گونج رہی تھیں۔

اگلے منظر میں ٹیکسی رک چکی تھی ۔ وہ ٹیکسی سے باہر نکلا تو ٹیکسی آگے بڑھ گئی۔ اس کی منزل سڑک کے پار شاپنگ مال کی بلڈنگ کے ساتھ بنا ایک ہسپتال تھا۔ وہ زیبرا کراسنگ کے قریب رکا اور اپنے سامنے سے گزرتی دھول اڑاتی گاڑیوں کو دیکھ کر ناپسندیدگی سے آنکھیں سکوڑتا جیب سے ایک ماسک نکالنے لگا۔ ماسک پہننے تک سرخ بتی جل چکی تھی۔ اس نے سامنے دیکھا تو نظر ایک لڑکی پر پڑی جس کی آنکھیں معمول سے کچھ زیادہ بڑی لگ رہی تھیں وہ اسے ہی ٹکر ٹکر دیکھ رہی تھی۔ وہ بے ساختہ اسے دیکھنے لگا ۔ اچانک ہی وہ لڑکی بے ہوش کر گر پڑی۔ وہ تعجب سے پلکیں جھپکا گیا پھر اگلے ہی زیبرا کراسنگ پر بھاگتا لڑکی کی طرف آیا۔ ایسا نہیں تھا کہ وہ پہلی ہی نظر اس کے عشق میں گرفتار ہو گیا تھا بلکہ یہ تیزی اس کے ڈاکٹر ہونے کی وجہ سے تھی۔ وہ بھی اکثر ڈاکٹرز کی طرح جہاں بھی مریض دیکھتا اس کا علاج کرنے کو بھاگ پڑتا۔ 

"دعا اٹھو ۔ افف اللہ اب کیا کروں۔" نیناں پریشانی سے اسے سنبھالتے ہوئے بولی۔ 

"پیچھے ہٹو۔ اسے ہسپتال لے کر جانے کی ضرورت ہے۔ " ایک آواز پر نیناں نے چونک کر چہرہ موڑا۔ ایک لڑکا چہرے پر ماسک پہنے دعا کی طرف جھکا تھا اور اسے اپنے بازوؤں میں اٹھا لیا تھا۔ نیناں کو بھی اس وقت ایسی ہی کسی مدد کی ضرورت تھی۔ اسے وہ شخص برا نہیں لگا تھا سو اعتراض نہیں کیا۔ وہ دعا کو لیے کچھ فاصلے پر موجود ہسپتال کی طرف بڑھ گیا۔ نیناں بھی تیزی سے اس کے پیچھے لپکی تھی ۔ ساتھ ساتھ وہ خود کو کوسے بھی جا رہی تھی۔ وہ ہسپتال کی اندرونی عمارت میں پہنچے تو وہاں موجود نرسوں اور ڈاکٹرز نے چونک کر انہیں دیکھا۔ لیکن سوال کرنے کی ہمت کسی کی نہیں ہوئی تھی۔ 

"ڈاکٹر بازل! آپ کو ڈاکٹر یوسف نے بلایا ہے۔ " قریب سے گزرتی ایک نرس نے تیزی سے اسے پیغام دیا اور آگے بڑھ گئی۔ وہ ایمرجنسی وارڈ کے ایک کمرے میں آیا اور دعا کو بستر پر لٹایا۔ ایک نرس بھی اس کی مدد کو پہنچ گئی تھی۔ نیناں کو کمرے سے باہر ہی روک دیا گیا۔ بازل نے اس کی نبض چیک کی اور آنکھوں کو بھی کھول کر دیکھا پھر ایک نرس کو ایک انجیکشن تیار کرنے کا کہا۔ اسے انجیکشن لگانے کے بعد وہ کمرے سے باہر نکلا تو نیناں اس کی طرف بڑھی۔ 

"پیشنٹ کو کوئی شاک لگا ہے۔ اور کمزوری بھی ہو رہی ہے۔ لیکن فکر کی بات نہیں ۔ میں نے طبعی امداد دے دی ہے۔ " وہ پروفیشنل لہجے میں کہتا آگے بڑھ گیا تھا 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ثانی گل شاور لے کر کمرے سے نکلی تو اس کے بال ہلکے گیلے تھے۔ وہ شرٹ اور سکرٹ میں ملبوس تھی۔ اس کے ہاتھ میں لیز کا بڑا سا پیکٹ تھا۔ جس میں سے چلتے چلتے وہ کھا بھی رہی تھی۔ لاؤنج میں پہنچ کر وہ ایک صوفے کی طرف بڑھی۔ 

"ایش ۔ ہیکنگ سسٹم آن کرو۔ " کسی کو پکارتے وہ صوفے پر گری اور فون نکال لیا۔ لاؤنج کے ساتھ ہی ایک چھوٹا سا روم تھا جس کا دروازہ کھلا ہوا تھا۔ اس کمرے میں نیم اندھیرا تھا۔ ایک دیوار کے ساتھ ہیکنگ سسٹم فٹ تھا۔ ایک نوجوان لڑکا برے برے منہ بناتا ہیکنگ سسٹم آن کر رہا تھا۔ اس کا حلیہ بائیک گینگ کے کسی میمبر جیسا تھا۔ وہ بلیک جینز شرٹ پر بلیک ہی جیکٹ پہنے، گلے میں چین ڈالے ہوئے تھا۔ اس کے چہرے کے نقوش تیکھے اور جاذب نظر تھے۔ کوئی داڑھی مونچھ نہیں تھی۔ سیاہ بال اینائم کریکٹرز کی طرح اس کے ماتھے پر بکھرے تھے 

"کر لیا ہے۔ میں مزید اور کچھ نہیں کروں گا " اس اندر سے ہی ہانک لگائی۔ 

"اگر میرا حکم نہیں مانو گے تو ہیکر کیسے بنو گے " 

"مجھے نہیں بننا ہیکر۔ " وہ روہانسا ہوا۔ 

"لیکن مجھے تمہیں ہیکر بنانا ہے۔ " ثانی نے مزے سے کہتے ٹانگ پر ٹانگ رکھی اور گود میں رکھے لیز سے انصاف کرتی موبائل پر کوئی مووی لگائی لی۔ 

"کیا کرنا ہے؟" ایش نے بیزاری سے پوچھا۔ 

"میں تمہیں ایڈرس سینڈ کر رہی ہوں۔ یہاں موجود تمام کیمروں سے حیان کی فوٹیجز ڈیلیٹ کرو۔ " اس نے ایش کو میسج سینڈ کرتے کہا اور کان میں ائیر پوڈ لگاتی مووی میں مگن ہو گئی اور ایش بیچارہ ہیکنگ سسٹم کے سامنے بیٹھا کی بورڈ کے بٹنز پر انگلیاں چلانے لگا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


دعا نے دھیرے سے آنکھیں کھولیں تو نیناں اس کے قریب ہوئی۔ 

"شکر اللّٰہ کا تمہیں ہوش آ گیا۔ ورنہ میں تو رونے والی ہو گئی تھی۔ " نیناں کی آواز پر اس کا زہن پوری طرح بیدار ہوا۔ 

"نیناں!"وہ اسے پکارتی ایک دم سے اٹھ بیٹھی ۔ نیناں نے چونک کر اسے دیکھا۔ 

"وہ ... وہ حیان تھا ۔ "

"کیا؟ کون؟"

"وہ جو سڑک کے دوسری جانب تھا۔ جس نے ماسک پہنا تھا۔ " وہ چاہتی تھی نیناں اس کی بات پر یقین کرے لیکن ایسا ہوتا نظر تو نہیں آ رہا تھا ۔ 

"اس نے ماسک پہنا تھا تو تم نے اسے کیسے دیکھا؟"

"اس نے اس وقت ہی ماسک لگایا تھا ۔ میں ایک لمحے کیلیے ہی اس کا چہرہ دیکھ سکی تھی۔ وہ وہی تھا۔ " اس کی آنکھوں میں ایک چمک در آئی تھی ۔

"ایسا کیسے ہو سکتا ہے۔ وہ اگر حقیقت میں تھا بھی تو تین صدیاں پہلے تھا اور اس جیسا اگر اس صدی میں موجود ہے تو ضروری تو نہیں وہ یہیں ہو یا اگر یہاں ہے تو ضروری تو نہیں تمہارے سامنے بھی آ جائے ۔ ہو سکتا ہے تمہیں نظر کا دھوکہ ہوا ہو۔ " 

"نہیں۔ وہ حیان تھا۔ وہ فریب نہیں تھا۔ "

"اگر وہ حیان ہوتا تو اس کا رویہ بھی وہی ہوتا جس کو تم حیان کہہ رہی ہو اس کا مزاج مجھے کافی الگ لگا ہے۔ "

"تم کیسے جانتی ہو اس کے مزاج کو؟" دعا نے حیرت سے پوچھا۔ 

"وہی تمہیں لایا تھا ہاسپٹل۔ یہاں ڈاکٹر ہے وہ۔ جب وہ تمہیں طبعی امداد دے رہا تھا تو میں نے ایک نرس کی بات سنی تھی۔ وہ کہہ رہی تھی وہ ڈاکٹر بدتمیز قسم کا ہے۔ اسے لڑکیوں سے بات کرنے کی بالکل بھی تمیز نہیں ۔" نیناں نے کہا تو وہ کچھ پل ساکت رہی۔ 

"حیان کا ایک نام بازل بھی تھا اور وہ ڈاکٹر تھا۔ " وہ خوابناک لہجے میں بولی۔ نیناں بھی ٹھٹکی۔ 

"لیکن وہ نائس تھا۔ بہت شائستگی سے بات کرتا تھا اور اس کے بال سنہرے تھے ۔ جبکہ اس کے کالے ہیں "

"آنکھوں کا رنگ کیا تھا ؟" دعا نے دو دبدو پوچھا۔ 

"ہنی۔" نیناں نے پلکیں جھپکی۔ دعا ذرا سا مسکرائی ۔ 

"وہ وہی ہے۔ "

"وہ اس کا ہمشکل ہو سکتا ہے لیکن وہ نہیں ہو سکتا ۔ وہ کیسے تین صدیاں زندہ رہ سکتا ہے یا مر کر دوبارہ زندہ ہو سکتا ہے۔ " نیناں نے جل کر کہا۔ دعا کا دل ڈوب کر ابھرا۔ ہاں وہ تو مر چکا تھا۔ وہ کیسے واپس آ سکتا تھا ۔ اسے جو شخص اب نظر آیا تھا وہ اس کا ہمشکل تو ہو سکتا تھا بالکل وہی نہیں ہو سکتا تھا۔ وہ شہزادہ حیان کے علاوہ کسی اور کو دل میں جگہ نہیں دے سکتی تھی وہ چاہے اس کا پرتو ہی کیوں نہ ہو ۔ کیونکہ وہ اس سے محبت کرنے کا عہد کر چکی تھی۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Chragh e drakhshan part two All episodes link


Post a Comment

0 Comments